عصمت نے نہ صرف زبان پر پدری اجارہ داری کو توڑا بلکہ اپنی مخصوص زبان اور لفظیات سے ایک ایسی دنیا تشکیل دی جہاں عورت،انسان بھی ہے اور آزادی سے سانس بھی لیتی ہے، زنجیروں کو توڑتی بھی ہے؛ دکھ تکلیف میں آنسو بھی بہاتی ہے، کہیں معصوم،نرم و نازک سی تو کہیں فولادی۔عورت کی یہ دنیا کالی سفید جیسی بھی ہے کم از کم عورت کی دنیا تو ہے۔
اردو میں عصمت چغتائی ایک معجزےکا نام ہے۔اس کا انداز ہ ان کے خلاف لکھی گئی باتوں سے زیادہ ہو تا ہے ۔ لیکن میں یہاں ان کے نسائی کرداراور ان کے مخصوص لب و لہجے پر چند باتیں عرض کروں گی ۔حالاں کہ ان کو تانیثیت کی مستحکم آواز کے طور پر بھی اکثر بریکٹ کیا جاتا ہے، اور اس کے بیش بہا حوالے ان کے یہاں موجود بھی ہیں۔ان تمام باتوں سے قطع نظریوں کہہ لیں کہ عصمت چغتائی کے افسانوں میں پدری ثقافت اور اس کی اجارہ داری کا دھڑن تختہ ہوچکاہے۔ان کے یہاں مخصوص نسائی زبان کی چاشنی موجود ہے جس سے کوئی گھامڑ ہی لطف اندوز نہ ہوگا۔عصمت کے افسانے میں ان کی زبان کا ’مخصوص نسائی اندازولفظیات‘ ہے، جو زبان پر patriarchalاجارہ داری کے تصور کوطشت از بام کرتا ہے۔ چند مثالیں؛
تم جانتی ہو وہ سدا کی کمزور دل ہے
تو بہن…میں کون سی پہلوان ہوں… راحت اور کونے میں دبک گئی…
کبھی میرے دل میں اپنی جنس کی برتری کا خیال بھی آتا ہے… کبھی یہ بھی سوچتی ہوں کہ ہم کب تک ظالم مردوں کی حکومت سہیں گے…کب تک یوں یہ ہم دبے مار کھاتے رہیں گے… بتاؤ بولو…
دن میں ایک کتاب آسانی سے ڈکار لیتی…عورت ذات سے متنفر آوارہ بدمعاش‘اس نازک اندام پھول جیسی ہیروئن کا بے حد دھوبی گھاٹ کرتا۔ توڑتا مروڑتا اور جلتے سلگتے بوسوں کی بار ش میں اسے بھونتا جھلستا۔
کامریڈ گوپال نہایت بے تکلفی سے چھپا چھپ ہاتھ مار کے کیڑے مکوڑوں کو ڈرا کے بھگا دیتے۔ غب سے گڑوی بھر کے دھوتی کا کونہ اس پر منڈہ کے مزے سے غٹ غٹا پی جاتے۔
ہم عورتیں طوائف کو سونگھ کر ہی کھٹک جاتی ہیں۔ بقول کسے۔ ان کا ٹھسا دیکھ کر حفاظتی دیواریں کھڑی کرنے کو جی چاہتا ہے وہ کوٹھے سے اتر رہی تھیں اور میں چڑھ رہی تھی میں نے انھیں سونگھ لیا۔ اے ہے یہ میں کہاں آگئی ہوں۔
اللہ کرے کیڑے پڑیں…ہیضہ ہوئے‘طاعون لے جائے۔ مگر وہ منڈیروں پر چڑھے فتح مندی سے مسکرایا کرتے۔ ذرا جو پروا کر جائیں۔ اللہ کرے کھڑے کھڑے دم نکل جائے…آدھی رات کو جنازہ جائے۔کتے لاش نوچیں! اب یہ حد تھی۔ چڑیل کو کوسنے کتنے بھیانک آتے تھے… اے دلہن کھائے لیتی ہو لونڈیا کو۔ موئے لڑکوں کو نہیں دیکھتیں‘ لے کے اس کی گڑیاں جلا دیں مارے گیوں نے…
غرض کہ عصمت کی زبان اپنی مثال آپ ہے۔وہ زبان کے پدری پیرامیٹر کی اس قدر دھجیاں بکھیرتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ساتھ ہی لفظوں میں بھی جان پڑ جاتی ہے یوں لگتا ہے جیسے لفظ جی اٹھے ہوں۔ عصمت نے نہ صرف زبان پر پدری اجارہ داری کو توڑا بلکہ اپنی مخصوص زبان اور لفظیات سے ایک ایسی دنیا تشکیل دی جہاں عورت،انسان بھی ہے اور آزادی سے سانس بھی لیتی ہے، زنجیروں کو توڑتی بھی ہے؛ دکھ تکلیف میں آنسو بھی بہاتی ہے، کہیں معصوم،نرم و نازک سی تو کہیں فولادی۔عورت کی یہ دنیا کالی سفید جیسی بھی ہے کم از کم عورت کی دنیا تو ہے؛
وہی خمپارہ جسے تکا جا رہا تھا۔ میں کہتی ہوں بوڑھے ہو گئے‘آئے دن کے روگی’دست گھڑی بھر کو نہیں رکتے مگر آوارگیاں کروا لے کوئی تم سے… اے شرم بھی نہیں آتی تمہیں‘ نگوڑی پوتی کے برابر…حرامزادیاں ہر ایک سے دیدے لڑاتی پھرتی ہیں!
مختلف مثالوں کے بعد ان کے افسانے’محبوب’کا تجزیہ زبان کے اطلاقی پہلوؤں کی نشاندہی کے لیے پیش کر رہی ہوں۔ افسانوی بیانیہ میں عصمت کا مخصوص انداز تو موجود ہے ہی ساتھ ہی زبان و بیان کا انوکھا،منفرد رنگ بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ افسانے کے عنوان سے دھوکہ کھانے والوں کے لیے بتاتی چلوں کہ بیانیہ روایتی’محبوب’ کے بارے میں نہیں ہے؛یہ محبوب روایتی محبوب سے جدا کافی دلچسپ ہستی ہیں۔ یوں تو محبوب باورچی ہیں لیکن اس نے اس کے علاوہ بھی بہت سے پیشے اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں کامیابی نہ ملی؛رکشا چلانے کی کوشش میں وہ ’شہر کی تمام شریف بیویوں کو نالے میں گرا چکے تھے‘ بیانیہ میں اس کا ذکر کچھ یوں ہے؛
تمام رکشائیں اوندھانے کے بعد وہ پھر باورچی کے پیشے کی طرف لوٹ آئے۔ جب کبھی انھوں نے کسی اور پیشے پر دست شفقت پھیرنا چاہا تو کوئی نہ کوئی قیامت آگئی۔ انہوں نے پھلوں کی چھابڑی لگائی تو ہیضہ‘ جو شاید تاک میں بیٹھا تھا‘شہر پر ٹوٹ پڑا اور میونسپلٹی والے محبوب پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے ملائی کے برف کا بیوپار شروع کیا تو فوراََ کالی کھانسی اور پیچش کی وباء شہر میں پھیل گئی۔ لوگ ان کی قلفیوں کو دیکھ کر ایسے بدکنے لگے جیسے وہ لذیذ قلفیاں نہیں یم دوت کی بندوق سے نکلی ہوئی گولیاں ہوں۔ انہوں نے خربوزوں کی فا لیز کا ٹھیکہ لیا تو اولے پڑ گئے۔ سنگھاڑے کی تال پر آس لگائی تو جونکوں کی وبا نے پٹرا کردیا۔ جب کوئی دھندا بیٹھ جاتا تو وہ سستانے کے لئے پھر باورچی گری پر لوٹ آتے۔
محبوب سے تعارف کے بعد اب ذرا ان کی باورچی گری پر ایک نظر ڈالتے ہیں؛
محبوب کے پکائے ہوئے کھانوں کو چکھ کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ قورمہ ہے‘ قلیہ ہے یا کھڑے مسالے کا گوشت ہے۔جہاں تک مسالوں کا تعلق ہے وہ کھڑے بیٹھے مسالے کا سالن پکانے کی بجائے کچھ اچھلتے کودتے اور اودھم مچائے مسالوں کے کھانے پکاتے تھے۔ سیاسی پارٹیوں کی طرح ہر مسالہ بالکل اکیلا اور اچھوتا اپنا رنگ ڈھنگ اور زور دکھاتا نظرآتا لہسن پیاز‘ ہلدی‘ دھنیہ سب جدا جدا سر الاپتے۔ مجال ہے جو ایک مسالہ بھی اپنی منفرد بو‘ بساند یا چھچلاند یر دوسرے کے خواس حاوی ہونے دے۔ صرف اتنا فرق ہو جاتا کہ اس ظاہری سمجھوتے کی اندرونی پھوٹ اور نا اتفاقی کی وجہ سے ہر بدبو زیادہ سے زیادہ ناگوار ہو کر بھرنے لگتی اور کھانے والا اس نفاق بھری ہانڈی کے نوالے کو سانپ کے منہ کی چھچھوندر کی طرح اپنے جبڑوں میں دبا کر گم صم رہ جاتا۔
زبان کے کوڈس کئی جگہ نوآبادیاتی ڈسکورس کو رد کرتے ہیں اور پس نوآبادیاتی بیانیہ کی مثال کہے جا سکتے ہیں؛
تب قائل ہونا پڑا کہ ڈارون تو نرا خبطی تھا۔ اور انسان بندر کے علاوہ بھنگوں اور پتنگوں کی نسل سے ترقی(یا تنزل؟)کرکے یہاں تک پہنچا ہے۔
اسی طرح کی ایک اور عمدہ مثال ملاحظہ کریں، جہاں خود محبوب اور ان کے باروچی خانہ لوٹنے کے عمل کو نوآبادیات سے موسوم کیا گیا ہے؛
آپا نے اس نیلی آنکھ کے خلاف محاذ قائم کر دیا یہ آنکھ یقیناََ کسی کانے انگریز کے لئے بنی ہوگی۔ اس لئے ان کا خیال تھا کہ اس کو لگانے کے بعد محبوب بالکل برٹش شاہی زمانے کا لاٹ صاحب بن جاتا‘ اور باورچی خانے کو نوآبادیات کی طرح لوٹنے لگتا۔ روٹیاں قحط زدہ مخلوق کی طرح وہاں پان ہونے لگتیں‘ بوٹیوں کو سوکھے کا آزار ہو جاتا اور شوربے کا حال پتلا پڑ جاتا۔ یہی نہیں وہ برٹش پالیسی کو مکمل طور پر کامیاب بنانے کے لئے ساس بہو میں پھوٹ ڈلوا کر اپنی چاندی بھی کر لیتا۔
انگریزوں کی پالیسی ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ اتنی کامیاب رہی کہ آج بھی سیاست داں کرسی کے لیے اس پالیسی کا بخوبی استعمال کرتے ہیں۔قابل غورہے کہ محبوب اس پالیسی کے استعمال کے علاوہ،جس صفائی اور تکڑم سے باورچی خانے کی چیزیں اڑاتا تھا(جس کا تفصیلی بیان افسانے میں موجود ہے)،نوآبادیاتی ڈسکورس کے لیے یہ ایک عمدہ استعارہ کہا جا سکتا ہے۔ نوآبادیات بھی کچھ ایسا ہی تھا جسے ایک نظر میں سمجھنا مشکل تھا،کافی کھوج لگانے کے بعد ہی اصلیت معلوم پڑتی تھی۔ ورنہ بظاہر تو سر سید سے لے کر نذیر احمد تک سب نے انگریزی حکومت کی اچھائیاں ہی گنائی ہیں، نوآبادیاتی ہندوستان میں کوئی مشکل سے ہی یہ بات ردکر پاتا تھا کہ انگریزوں کے آنے سے ہندوستان کی ترقی نہیں ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی ڈسکورس اور اس کی پالیسیوں کو نظر میں رکھے تو بیانیہ پڑھ کر عصمت کو داد دیے بنا نہیں رہ پائیں گے۔ پدری رنگ سے الگ ان کی زبان کی ایک اور عمدہ مثال بیانیہ میں دیکھیے؛
ایک دق کی ماری منحوس بیوی تو سنبھالی نہیں جاتی مردے سے۔ ایک اور کر لی اور وہ بھی بھری نال کی بندوق سے۔ یا خدا اب یہ ڈبل رفتار سے دھرتی کا بوجھ بڑھانے پر تل جائے گا۔ رحم کر خدایا۔
زبان کے کوڈس کے علاوہ محبوب کے کردار پر نظر ڈالیں تو وہ جس طبقے سے متعلق ہیں وہ سماج کا حاشیائی کردار کہا جا سکتا ہے، بیانیہ میں مرکزی کردار کی حیثیت سے موجود محبوب بذات خود طاقت اور استحصال کے نوشن پر ایک رد عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالانکہ بیانیہ کے اختتام میں محبوب کی جو تصویر ابھرتی ہے اس سے کہا جا سکتا ہے کہ نوآبادیات کا یہ استعارہ نوآبادیات کی طرح ہی کافی کامیاب رہا۔ آخر انگریزوں نے یوں ہی ہندوستان پرتقریباََ 200سال (190)حکومت تو نہیں کی۔ محبوب بھی اپنی پالیسیوں کے بل بوتے پر باورچی خانے کے سامان سے کڑکڑاتے ہوئے نوٹوں تک کا سفر آسانی سے طے کر لیتے ہیں۔
یو ں کہہ سکتے ہیں کہ عصمت کے افسانے نہ صرف نسائی لب و لہجے کی عمدہ مثالیں ہیں بلکہ سیاسی ڈسکورس سے بھی معاملہ کرتے ہیں۔ میرے لیے ان کی تحریر اندھیری راتوں میں اجالے کی طرح ہےجس کی روشنی موڈ بھی فریش کرتی ہے اور اندر کہیں روح میں اتر جاتی ہے۔دراصل عصمت عورتوں کی اندھیری دنیا سے زیادہ مردوں کی چالاک دنیا کو اجاگر کرتی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں