سردی ،بارش اور ژالہ باری میں مطالعہ۔بک ریویو۔۔۔آمنہ مفتی

زاہد حسن کی کتاب ’’ہجر تیرا جے پانی منگے‘‘ موصول ہوئی۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ بارش اور ژالہ باری کے دن تھے۔ مری مری سی دھوپ نکلتی تھی اور دیواروں پہ سے ہی رخصت ہو جاتی تھی۔ ایسے سرد دنوں میں آتش دان کے پاس بیٹھ کے پڑھنے کے لیے اس سے بہتر کتاب کوئی نہیں۔

کہانیاں کیا ہیں، طلسم ہوش ربا کے ٹوٹے ہیں جو لگتا ہے بیان کرنے والوں نے بوجوہ چھپا لیے تھے اور اب زاہد حسن نے با امر مجبوری بیان کر دیے ہیں۔

پنجابی زبان کے ساتھ میرا ایک عجیب سا تعلق ہے۔ میری والدہ یوپی کی اور دادی خاص دہلی کی تھیں۔ ہجرت کے بعد نیلی بار کے ایک گاؤں میں آ کر بسنے والا یہ کنبہ بالکل ’’تاج محل‘‘ تھا۔ ایک ایرانی عمارت جو ہندوستان میں بنا دی گئی۔

مگر اس تاج محل کے پاس سے جمنا ہو کے گزرتا ہے اور یہاں بیاس اور ستلج کا دوآبہ تھا۔ زبانیں اور دریا، ان کا انسانوں پہ ایک عجیب طلسماتی اثر ہوتا ہے۔ پنجابی زبان مجھے نہ صرف خود بخود سمجھ آنے لگی بلکہ میں پنجابی ادب کو پڑھنے بھی لگی۔

کلاسیک سے جب عصری ادب کی طرف آئی تو ایک تشنگی محسوس ہوئی۔ ہمیشہ یوں لگا کہ کچھ نیا نہیں کیا جا رہا۔ شاید جتنے بڑے لوگ پنجابی میں ہوگزرے اب ان کے اثر سے نکلنا آسان نہیں۔ ایک بار نہیں، کئی بار پڑھے ہیں۔ ناولز پہ بات پھر سہی۔

فی الحال میں اس نثری مجموعے کے فقط ایک افسانے پر بات کروں گی ’’سایاں نال بھریا صندوق‘‘ میں چوں کہ نقاد نہیں اور آنکھوں کا پانی ابھی نہیں مرا، اس لیے زبردستی خود کو پی آر کے زور پہ اس منصب پہ فائز نہیں کرانا چاہتی اس لیے فقط ایک قاری کے طور پہ اپنا تاثر پیش کروں گی۔

جیسا کہ میں نے آپ لوگوں کو بتایا کہ یہ کتاب مجھے بہت موزوں موسم میں موصول ہوئی۔ جب کہ اسے پڑھنے اور سمجھنے کے سب لوازم پورے تھے تو جس وقت میں یہ افسانہ پڑھ رہی تھی میں ایک نہری کھالے کے کنارے ’’جنڈ‘‘ کی آگ کا مچ مچائے ہوئے تھی اور میرے سامنے سے بھیڑ بکریوں کا ایک بڑا سا ریوڑ گزر رہا تھا۔ بکروال ایک کھونڈی پہ چائے کی کیتلی اور کپڑے کی ایک پوٹلی لٹکائے بھیڑوں کو ہنکارتا گزر رہا تھا۔

مجھے لگا کہ یہ علیا پروکا ہے جو افسانے سے چھلانگ مار کے باہر نکل آیا ہے۔

افسانے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ گاؤں کا ایک لاڈلا بچہ چرواہے کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو کے اس سے جن قابو کرنے کا نسخہ پوچھنا چاہتا ہے تاکہ یہ جن اس کے لیے سکول کا کام وغیرہ کر دے۔

ماں کے ٹوکنے کے باوجود بچہ علیے کے ساتھ پھرا کرتا ہے اور اس کی باتیں سنتا ہے جن سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ علیا عشق حقیقی میں فنا ہو چکا ہے اور اس نے ایک جن کو صندوق میں بند کر رکھا ہے۔

علیا بوڑھا گنوار ہے لیکن سوا اس کے گاؤں کی عورتیں اسے دیکھ کے ہنستی ہیں، کسی نے اس کی کوئی شکایت نہیں سنی۔ اکیلا، الگ تھلگ، بھیڑیں چراتا پھرتا ہے۔ کہانی کے مرکزی کردار سے اپنی گفتگو میں بارہا عورت سے دوری پہ زور دیتا ہے اور اس کو ہی اپنی طاقت کا سرچشمہ بتاتا ہے۔ بقول اس کے جن قابو کرنے کا بنیادی نکتہ یہ ہی ہے کہ عورت کا خیال بھی ذہن میں نہ لایا جائے۔

’’گستان دے سبھ توں وڈے تے بھاری بوڑھ تھلے چالیہہ راتاں اک لت تے کھلو کے چلہ کڈھنا پوسی، نالے اک گل یاد رکھیں، چالیہہ دناں تیک کسی زنانی نال گل تے کیہ اوہدے ول ویکھنا وی نہیں۔ تے باقی ساری عمر وی زنانی ولوں آپنا دامن صاف ای رکھناں ایں۔‘‘ (صفحہ۲۹)

برہمچاری علیا، جانے کیوں ندّی کے اس حصے سے گزرتا ہے جہاں گاؤں بھر کی عورتیں کپڑے دھونے اور نہانے جاتی ہیں اور یہ گڈریا جب وہاں سے گزرتا ہے تو وہ ایسے غوغا کرتی ہیں جیسے بھیڑوں میں بھیڑیا آ پڑا ہو۔

ایک روز کہانی کا مرکزی کردار اور علیا، نمبردار کے ڈھٹھے ہوئے بھٹے کے پاس سے گزرتے ہیں اور علیا حوائج ضرور یہ کے بہانے سے سرکنڈوں میں جاتا ہے۔ واپسی پہ یوں لگتا ہے جیسے اس نے بغل میں کچھ دبا رکھا ہو۔ ایک ہک کا سرا بھی لٹکتا نظر آتا ہے۔ استفسار پہ علیا کہتا ہے۔

’’ایہدے وچ ای تاں اوہ مُشک لکیا ہے جس نوں سنگھ کے جن آوندا ہے۔‘‘
’’کڈھ کے وکھاتاں سہی۔‘‘ میں حیران نظراں نال آکھیا۔ ’’نہیں۔ ایہنوں باہر ہوا وچ نہیں کڈھ سکدے جیکر باہر کڈھ دتا تاں ایہدا مُشک مک جاسی، تے جن’’آدم بو، آدم بو‘‘ آکھدا ساڈے تے آن دھاوے گا۔ انج منتر دا اثر مک جاندا ہے۔‘‘ (صفحہ۲۸)

اور پھر ایک روز علیا اپنے باڑے کے کیکر پہ پھندے سے لٹکتا نظر آتا ہے۔ وہ مرچکا ہے۔
’’علیے نوں پور دتا گیا، پر اوہدے بارے ہون آلیاں گلاں نہ پوریاں جاسکیاں‘‘ (صفحہ۳۰)

تب مرکزی کردار علیے کا جن والا صندوق لینے ایک ایسی رات اس کے گھر کا رخ کرتا ہے جب شدید آندھی چل رہی تھی اور علیے کے کمرے کے ہمیشہ کھلے رہنے والے ٹیڑھے میڑھے کواڑ سختی سے بند تھے۔

صندوق لے کر دوڑتے دوڑتے ایک ندی کو پھلانگتے ہوئے خستہ صندوق گرتا ہے اور اس میں بند جن باہر نکل آتا ہے۔
’’ادھ چاننی رات وچ میں ویکھیا، جھوک دیاں زنانیاں دے جھگے، فراک، ستھناں، بنیاناں تے برئیزئرز۔ میں اوس بریزئر دی ہک نوں جو اک واری علیے دے جھگے وچوں لٹکدی ویکھی ہائی تے اپنی پتریر رجی دے وڈے پھلاں والی گلابی قمیض نوں جھٹ ای پچھان گیا، ایہہ اوہ سمیان آہا جیہدے گواچن دی کدے کوئی گل جھوک دے کسے بندے سوانی توں نہیں سنی گئی آہی۔‘‘ (صفحہ۳۱)

افسانہ ختم ہوتا ہے، قاری چکراتا ہے، واپس صفحے پلٹتا ہے، افسانہ دوسری بار پڑھتا ہے اور مزید چکراتا ہے۔ کہانی کی پرتیں کھلتی ہیں۔ کس طرح یہ کہانی ایک عام بیانیہ کہانی ہے جو انسان کی جبلت، معاشرتی جبر اور اجتماعی شعور لاشعور کی علامتی کہانی بنتی ہے، یہ تو کوئی نقاد ہی بتا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں تو صرف اتنا بتا سکتی ہوں کہ جنڈ کے اس مچ پہ ہاتھ تاپتے جب یہ افسانہ ختم کر کے نظر اٹھائی تو دور جاتا بکروال بکریوں کو کوستا، ششکارتا، چوٹی نظروں سے کھیتوں سے گھاس کر کے آئی عورتوں کی رنگین اوڑھنیوں کو حسرت سے تاک رہا تھا اور اپنے میل خورے، کھردرے مردہ چوہے کی کھال کی وضع کے کھیس کو کس کے خود پہ لپیٹ رہا تھا جیسے کسی ہوائی شے کو کیل رہا ہو!!۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply