بے کار تعاقب۔۔وہارا امباکر

تاریخ میں اکانومکس کے ناکام ترین بڑے خیالات کی وجہ انسان کا منطقی مشین کے طور پر ماڈل کئے جانا ہے۔ انسان ایسے نہیں ہوتے۔ انسان کی مشین ذاتی مفاد کے اصولوں پر کام نہیں کرتی۔ یہ 1987 میں معاشیات پر لکھی گئی کتاب Passion Within Reason کا موضوع تھا۔ دور دراز اجنبی جگہ پر بیرے کو ٹِپ دینے کی کیا وجہ ہے؟ مہنگے انتقام لینے کی کیا وجہ ہے؟ بہتر موقع ہوتے ہوئے دوستوں اور ازدواجی پارٹنر کے ساتھ وفادار رہنے کی کیا وجہ ہے؟ فرینک اس میں کہتے ہیں کہ یہ اخلاقی جذبات کا نتیجہ ہے۔ شرم، محبت، بدلے، احساسِ جرم جیسے جذبات کا۔ ہم سٹریٹجک طور پر غیرمنطقی ہیں۔

اپنی اگلی کتاب “تعیشات کا بخار” میں وہ اپنے اس فریم ورک کو ایک بڑے ہی اہم غیرمنطقی رویے کو سمجھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لوگ زور و شور سے کئی ایسے مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں جو خود ان کی اپنی خوشی کو کم کرتے ہیں۔ فرینک نوٹ کرتے ہیں کہ جس طرح قوم کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے، خوشی میں فرق نہیں پڑتا۔ ایک بار بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں تو اضافی دولت فرق نہیں ڈالتی۔ اس پر پھر توجہ سے نظر ڈالتے ہیں اور نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ جن کا خیال ہے کہ دولت سے خوشی کو خریدا نہیں جا سکتا، ان کو اصل میں یہ نہیں پتا کہ خریدنا کیا ہے۔

فرینک یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر لوگ تعیشات اور اشیاء پر پیسہ خرچ کرنے کو اس قدر ترجیح کیوں دیتے ہیں اور ان چیزوں کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں جو طویل مدت خوشی کا باعث بنیں گی۔ مثلا، لوگ اگر چھٹی کا وقت لیں اور اپنی فیملی پر خرچ کریں تو زیادہ خوش ہوں گے۔ لیکن ہم اس سمت سے الٹ طرف سفر کر رہے ہیں۔ لوگ خوش ہوں گے کہ کام کی جگہ سے گھر میں فاصلہ کم سے کم ہو۔ گھر کے چھوٹا ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ پھر بھی عام طور پر لوگ بڑے گھر کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ دور ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ کام کی جگہ اور گھر کے درمیان سفر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ زیادہ خوش ہوں گے اگر گھریلو سامان سادہ ہو لیکن مستقبل کے لئے پیسے بچا کر رکھے جائیں تا کہ اس بارے مں فکر کم ہو۔ یہاں پر بھی دوڑ الٹ سمت میں ہے۔

فرینک کی وضاحت بہت سادہ ہے۔ وہ خرچ جس کی نمائش کی جا سکے اور وہ خرچ جس کی نمائش نہ کی جا سکے، ان کے نفسیاتی اصول فرق ہیں۔ نمائش کی جانے والی اشیاء دوسروں کو نظر آنی چاہیئں اور یہ کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ یہ ایک دوڑ شروع کر دیتی ہے۔ بہتر گھڑی، بہتر فون، بہتر گاڑی۔۔۔ جب سب نے اچھا فون لے لیا تو پھر آپکا اچھا فون اب وہ فرق نہیں ڈال رہا، اس سے زیادہ اچھا فون لینا ہے۔ سٹیٹس ریلیٹو ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ خرچ جس کی نمائش نہ کی جا سکے، اس میں مقابلے کے دوڑ نہیں ہوتی۔ اگر میں اپنی فیملی کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہوں تو یہ نمائش والی چیز ہی نہیں۔ اس میں مقابلہ بازی کیسے ہو گی۔ یہاں پر فیڈبیک کا لوپ نہیں۔

فرینک نے اس پر تجرباتی کام کیا ہے جس کو دو ماہرینِ نفسیات وان بوون اور گلووچ نے آگے بڑھایا۔ ایک تجربے میں انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ یاد کریں کہ آخری مرتبہ انہوں نے سو ڈالر سے زیادہ کس چیز پر خرچ کئے تھے۔ ایک گروپ سے کسی میٹیرئل چیز کے بارے میں سوچنے کا کہا (کپڑے، زیور، الیکٹرانکس)، دوسرے سے کسی تجربے کا (کنسرٹ، تفریحی ٹرِپ، کلاس)۔ اس کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ اس خرچ کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کیسا محسوس کیا۔ ہر مرتبہ “تجربے” کا جواب مثبت آیا۔ اس کو کئی طرح سے کئی جگہوں پر بدل بدل کر دہرایا گیا ہے۔ ہر مرتبہ یہی نتیجہ نکلا ہے کہ اشیاء ہماری خوشی میں اضافہ نہیں کرتیں۔

وان بوون اور گلووچ اس سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ زیادہ خرچ کر کے کی جانے والی ایکٹویٹی دوسرے کے “ساتھ مل کر” کی جاتی ہے، جبکہ کچھ مہنگی شے نیا خریدنا دوسروں کو “متاثر کرنے کے لئے” کیا جاتا ہے۔ ایکٹیویٹی ہمیں دوسروں سے جوڑتی ہے۔ اشیاء الگ کرتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو اب آپ کو پتا ہے کہ خوشی خریدنے کے لئے کہاں کا رخ کیا جائے۔ بازار کا نہیں۔ اس کے لئے اپنی فیملی کے ساتھ گزارنے کا وقت خریدا جا سکتا ہے۔

لیکن کہنا ایک چیز ہے، کرنا الگ۔ اور یہ والا سبق تو ہزاروں سال پرانا ہے، پھر ہم کیوں اس کو نہیں سنتے۔ اس کی وجہ ہمارے اندر کا ہاتھی ہے، جس کو فطری چناوٗ نے تشکیل دیا ہے۔ اس کو زندگی کی کھیل جیتنے کی پرواہ ہے۔ اس کی سٹریٹیجی کا حصہ دوسروں کو متاثر کرنا، ان کی تعریف سمیٹنا اور دوسروں سے ممتاز نظر آنا ہے۔ اس کو شہرت کی پرواہ ہے، خوشی کی نہیں۔ ایک بار پھر، “اس کو اپنی شہرت کی پرواہ ہے، خوشی کی نہیں”۔ کیا چیز شہرت دلوائے گی، اس کے لئے یہ باہر دیکھتا ہے۔ اس کا ارتقائی مقصد خوشی کی قربانی دے کر ہی کیوں نہ ہو، اس کو پرواہ نہیں۔ یہ ایک اسلحے کی دوڑ ہے جس میں ہر کوئی اس شہرت کے پیچھے ہے۔ یہ وہ وجہ ہے کہ دنیا میں دولت بڑھ رہی ہے، خوشی نہیں۔ خوشی کی تلاش اس ہاتھی پر سوار مہاوت کو ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر ہاتھی اور مہاوت کے مقاصد الگ ہو جاتے ہیں اور یاد رہے، زندگی کا بیشتر کنٹرول ہاتھی کے پاس ہے۔ مہاوت کا بڑا کام ہاتھی کی خدمت کرنا ہے۔ (ہاتھی اور مہاوت کے استعارے کے لئے نیچے دیا گیا آرٹیکل)

اشیائے تعیش کے ذریعے خوشی کا پیچھا کرنا “خوشی کا پھندا” ہے۔ یہ ایک بند گلی ہے جس کی طرف لوگ اس یقین کے ساتھ بھاگتے ہیں کہ یہاں پر خوشی مل جائے گی۔ خوشی کے حصول کے لئے یہ بے کار تعاقب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بے کار تعاقب کو زندگی کا مقصد بنا لینے سے رک جانا ہمارے اپنے حق میں بہتر ہے ۔۔۔۔ یہ سبق تو بہت پرانا ہے۔ جدید سائیکولوجی صرف یہ بتاتی ہے کہ اس پر عمل کرنا اس قدر مشکل کیوں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply