دھندے والی(قسط 1)۔۔عامر حسینی

وہ مری اس وقت سے دوست ہے جب میں ایک ایسے رسالے کے لئے کام کرتا تھا جس کے سرورق پہ بڑی حد تک برہنہ دو عورتوں کی تصویریں ضرور شائع کی جاتی تھیں اگرچہ رسالے میں بہت سے سنجیدہ مضمون، فیچر اور تجزیے بھی شائع کئے جاتے تھے-یہ صحافت میں مرے طفولیت کا زمانہ تھا-ایڈیٹر نے مرے ذمے لگایا کہ میں لاہور بادشاہی مسجد کے پہلو میں ٹبّی گلیوں میں جاؤں اور وہاں کوئی ایسا کردار تلاش کروں جسے تھوڑے سے فکشن کے ساتھ رسالے میں چھاپا جائے اور رسالہ ہاتھوں ہاتھ بکِے۔میں اس سے پہلے کبھی شاہی محلّے کی ٹبّی گلیوں میں گیا نہیں تھا-
فوزیہ وہاب کی “ٹیبو ” پڑھ رکھی تھی-بی بی سی کی دستاویزی فلم ” ود ڈانسنگ گرلز ” دیکھ رکھی تھی-طوائفوں جنہیں رانڈ کہا جاتا تھا میں کبھی براہ راست نہیں ملا تھا اگرچہ منٹو ، رحمان مذنب سمیت اردو کے کئی افسانہ نگاروں کے ہاں میں نے کئی کردار دیکھے تھے-ایک گبھراہٹ سی طاری تھی کہ کیسے جاؤں وہاں-ایک مرا دوست جو کہ ان گلیوں کا پرانا بنجارہ تھا اس سے میں نے بات کی اور اس نے مجھے کہا ! پیارے ا سقدر بہانے بنانے کی کیا ضرورت ہے،سیدھے سبھاؤ کیوں نہیں کہتے کہ تم پہ اب جوانی آرہی ہے

مجھے غصّہ تو بہت آیا لیکن مجبوری تھی ، ٹبّی گلیوں تک جانے کا مرے پاس سوائے اس کے کوئی اور زریعہ نہیں تھا-میں نے جبری ہنسی سے کہا ! یار جو بھی سمجھو مجھے وہاں جانا ہے اور تم نے ٹبّی گلیوں سے مجھے واقف کرانا ہے- اس نے کہا ٹھیک ہے-دو دن بعد تیار رہنا

میں بھاٹی گیٹ کے اندر محّلے میں ایک نائی کی دکان کے اوپر بنے ایک ڈربے نما کمرے میں رہ رہا تھا کیونکہ جتنے پیسوں میں کرائے کا کمرہ ڈھونڈ رہا تھا اتنے میں یہی ڈربہ نما کمرہ مل سکتا تھا-ایک بلب اور ایک پنکھا چلانے کی اجازت تھی اور پانی سرکاری نل سے آتا تھا مگر بجلی ، پانی دونوں کا بل مجھے اکبّر نائی کو دینا پڑتا تھا-اس کا ایک بیٹا سانول پنجاب یونیورسٹی تک جانے اور وہاں سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا-
اور وہ بھی مرے ساتھ رسالے میں کام کرتا تھا اور ہالی ووڈ و بالی ووڈ سے ریلیز ہونے والی فلموں کے ریویوز لکھتا تھا اور پھر انگریزی رسالوں سے ادکاراؤں اور ماڈلز کے انٹرویو ترجمہ و تلخیص کرتا تھا –اس کا ایک کام اور بھی تھا اور وہ تھا گوسپ گھڑ کر ادکاراؤں اور گلوکاراؤں و ماڈلز کے سیکس تجربات کی کہانیاں لکھنا اور گوسپ ایسے گھڑتا تھا کہ جب آدمی پڑھتا تو اسے حقیقت کا گمان ہوتا تھا-میں جب اس رسالے میں نوکر ہوا تو سانول کے ساتھ میں بیٹھا کرتا تھا-میں جو سیاسی تجزیہ نگاری اور سیاسی رپورٹنگ کرنے صحافت کی دنیا میں آیا تھا اور اس رسالے میں ایک سیاسی رپورٹر و تجزیہ نگار کی ضرورت کا اشتہار پڑھ کر گیا تھا جب ایڈیٹر سے ملا تو باتوں ہی باتوں میں اس نے مجھے کہا کہ سیاسی رپورٹنگ تو تم کرہی لینا ساتھ ساتھ تمہارا ذوق دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے تمہیں سانول کے ساتھ کام کرنا چاہئیے –تو مجھے سیاسی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ کلچرل رپورٹنگ ڈیسک سے بھی نتھی کردیا گیا-میں اس رسالے کی نوکری کرنے سے پہلے میں ٹاؤن شپ میں ایک دوست کے پاس رہ رہا تھا جبکہ رسالے کا دفتر لکشمی مینشن ہال روڈ میں اس گھر میں تھا جو کبھی سعادت حسن منٹو کا گھر ہوا کرتا تھا –تو میں لکشمی مینشن کے آس پاس کمرہ تلاش کرنے میں لگ گیا مگر وہاں کرائے اتنے زیادہ تھے کہ میں کمرہ حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا-
ایسے ہی ایک دن جب ميں نے سانول سے زکر کیا تو اس نے کہا کہ مرے ابّا کی دکان کے اوپر ایک کمرہ ہے جو کرائے پہ نہیں چڑھتا تم اسے دیکھ لو بھاٹی گیٹ میں ہے –میں نے کمرہ دیکھا اور مجھے یہ بھی غنمیت لگا –چار ہزار روپے کرایہ تھا اور 500 روپے لم سم پانی ، بجلی ، گیس کے دینے تھے-میں اوکے کردیا-مرا سامان ایک دری ، ایک کمبل ، ایک چادر ، چند کتابیں ، تین جوڑے کپڑے تھے جنھیں میں نے اس کمرے میں شفٹ کردیا-اور یہاں رہنے لگا-دوسرے دن رات آٹھ بجے وحید مرا دوست نیچے دکان پہ پہنچا اور اس نے مجھے آواز لگائی –میں نیچے آیا تو وہ اپنی پرانی فوکسی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا-بوسکی کا کرتا اور لٹھے کی سفید براق شلوار اور تیل سے لتھڑے بالوں میں ٹیپکل تماش بین لگ رہا تھا-مجھے بڑا عجیب سا لگ رہا تھا-میں عام دنوں میں بنا ضرورت کے شاید اس کے ساتھ جانا بھی پسند نہیں کرتا-مگر مجبوری تھی سو گاڑی میں بیٹھ گیا

یار! خوش قسمت ہو ، ایک ایسا پیس آیا ہے شمائلہ بائی کے ہاں جس کی بوٹی بوٹی پھڑکتی ہے اور کمبخت بستر پہ تو کھا ہی جاتی ہے آدمی کو ۔۔۔ ترے جیسے چکنے لونڈے سنا ہے اسے بہت بھاتے ہیں ۔۔۔۔۔ وحید نے ایک آنکھ دبا کر مجھے اپنی طرف سے بہت بڑی خوشخبری سنائی –
کتنے پیسے ہیں ترے پاس —- اچانک وحید نے سوال کیا

سوال سنکر میں زرا گڑبڑا گیا ۔۔۔ یار چار سو ہیں بس ۔۔۔۔۔۔ میں نے جواب میں کہا
اوہ ایتھے رکھ ، سوہنیا گابھر نہیں ، ترا یار وحید جو ہیگا ، تینوں جنت دی سیر کرانی اے اور اوہ فری
وحید نے ایک دم حاتم طائی کی طرح چھاتی پھیلا کر کہا
وحید کی یہ فطرت میں نے کالج سے نوٹ کی تھی کہ کسی لڑکے نے پہلی بار شراب پینی ہو ، چرس کا سوٹا لگانا ہو یا کسی کے ساتھ ہمبستری کرنی ہو یہ اس کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں سب سے آگے ہوا کرتا تھا –یہان تک کہ جگہ تک کا انتظام کرنے میں بھی اس کا جواب کوئی نہیں تھا-مرا نام اس نے مولوی خشکا ڈال دیا تھا-اور اس کی منڈلی کے سبھی لڑکے لڑکیاں کالج میں مجھے اسی نام سے یاد کرتے تھے
اب بھی وہ بالکل نہیں بدلا تھا-اپنے تئیں جیسے وہ مجھے انٹرٹین کرکے کوئی بڑا کارنامہ کرنے جارہا تھا

یار! کالج میں تم ہمیشہ ایسے کاموں سے دور رہے-اور یاد ہے وہ شبنم جس کا نام میں نے شبّو بلبل رکھ ڈالا تھا- عبداللہ کے گھر نیوائر نائٹ پہ اس نے سٹریپ ڈاؤن کیا تو ایسے لگا جیسے تمہیں ننگا کردیا ہو حالانکہ فل بلاؤز اور ہاف نیکر نیچے وہ پہنے ہوئے تھی –لیکن اس دن سب دوست تمہاری ورجینٹی کے پیچھے تھے –شبو بلبل نے تمہاری مولویت کے قتل کا حلف اٹھایا ہوا تھا-مگر تم طرح دے گئے –ایسے بھاگے کہ پھر کبھی نہیں آئے ایسی محفلوں میں —–اب اتنے سالوں کے بعد کیا ہوگیا ؟ کیا شبّو بلبل ٹبّی گلیوں کی “کھلی ہوئی مشینوں ” سے بھی کئی گزری تھی؟
وحید اپنی رو میں بولے جارہا تھا –میرا ضبط جواب دینے لگا تھا لیکن میں بڑی مشکل سے خود کو قابو کرکے بیٹھا رہا
مرے ذہن میں نجانے کیوں اپنشد کے یہ منتر گونجنے لگے تھے
مزا
خود کو جانیو رتھ کے ربّ کی مافق
شریر کو جانیو تو رتھ کے جیسا
متعصب عقل پہ رکھیوو دماغ کا کوڑا
دانا کہہ گئے
حواس ہیں اسپ بے مہار کے جیسے
خود غرض آشائیں ہیں وہ راستے جن پہ حواس گھوڑے دوڑیں ہیں سرپٹ
روح جب زہن ، حواس و خواہشات سے لتھڑ جائے تو مزا اور دکھ بھوگنے کا سمے آہی جاتا ہے
اور وحید مجھے لگتا تھا کہ رتھ کا رب بننے کی بجائے رتھ کو ہی اپنا رب بناچکا تھا –خیر پانچ منٹ کے بعد ہم محلے میں داخل ہورہے تھے-اور اندھیرا مکمل پھیل چکا تھا مگر محلے میں خوب چہل پہل تھی- درنک کارنر کھلے ہوئے تھے-سفید موتیا اور گلاب کے ہاروں کی فروخت اپنے عروج پہ تھی-لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا-جھروکوں اور بالکونیوں سے کئی آوازیں کانوں میں پڑ رہی تھیں –اس محلے بارے میں منظر کشی رحمان مذنب کے افسانوں اور کہانیوں میں دیکھی تھی-
رحمان جس کا والد شاہی مسجد کا امام تھا اور اس نے آنکھ کھولتے ہی اپنے اردگرد کے ماحول میں طوائفوں ، رنڈیوں ، کسبیوں ، کنجریوں ، گشتیوں ، چھنالوں جیسے ناموں سے پکاری جانے والی عورتوں کی بھیڑ دیکھی تھی-اور اس کی کہانیوں کے کردار مجھے ایسے لگتا جیسے مرے اردگرد ہی چل پھر رہے ہوں –آج میں خود اس محلّے میں ” کہانی ” کی تلاش میں چلا آیا تھا- ایک گلی میں درمیان میں جاکر ایک پرانے مگر خوب آراستہ و پیراستہ مکان کے سامنے جاکر وحید نے فوکسی کھڑی کردی-مکان کے دروازے پہ ایک آدمی جس کی نو تیرہ کی مونچھ تھی اور آنکھوں ميں سرمہ ڈالنے میں کوئی کنجوسی نہیں برتی گئی تھی –کاندھے پہ رومال ڈالے ، پیروں میں کیمبل پوری جوتی ڈالے اور منہ کے ایک کلّے میں پانی کی گلوی دبائے کھڑا تھا – اس نے وحید کو دیکھا تو مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے عجیب سی آواز میں وحید کو خوش آمدید کہا
شمائلہ جی ہیں ؟ وحید نے پوچھا
جی جی ! آپ کی ہی منتظر ہیں ۔۔۔۔ گل بہار بھی بے تابی سے دروازے تکتی ہیں
دروازے پہ کھڑے آدمی نے رستہ دیتے ہوئے کہا

اندر سیڑھیاں اوّر جارہا تھیں جن پہ زرا تاریکی کا راج تھا-وحید نے کہا ! یار ! زرا سنبھل کے ، ڈگ نہ پئیں کدھرے۔۔۔۔۔
مرا دل نجانے کیوں دھڑکنے لگا تھا –حالانکہ کم از کم کتابوں میں تو بہت کچھ پڑھ چکا تھا اور کردار کبھی مجھے نہیں لگا تھا کہ کاغذوں میں بند منٹو یا راجندر بیدی سنگھ کے ذہنوں کی تخلیق ہی تھے-مگر آج پہلی بار کوٹھا چڑھنے لگا تو دل کی دھڑکن تیز اور ہاتھ کی انگلیوں کا ارتعاش بڑھ چکا تھا جبکہ اس ارتعاش کو روکنے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نظر نہیں آرہی تھی

ہم سڑھیاں چڑھ کر جیسے اندر پہنچے تو سامنے ایک دروازہ تھا جسے عبور کر اندر گئے تو سامنے ہی ہال نما کمرہ تھا جس پہ چاندنی بچھی ہوئی تھی اور گاؤ تکئے لگے ہوئے تھے-سازندے ایک طرف بیٹھے تھے جبکہ ایک طرف چوکی پہ ایک ٹھسے دار عورت براجمان تھی جس کے بڑھاپے میں بھی دلکشی کے آثار غائب نہ ہوئے تھے-اس عورت نے وحید کو دیکھتے ہی کہا
زہے نصیب ! وحید میاں آج کیسے رستہ بھول گئے ؟اور یہ کون صاحبزادے ہیں ساتھ ؟
تمہیں کوئی بھول سکتا ہے شمائلہ جی ! اور یہ مرے دوست ہیں –ان کے لئے گل بہار کا کہا تھا آپ کو – وحید نے بھی اسی نستعلیق انداز میں جواب دیا

ہاں ہاں کیوں نہیں ؟
بچّی تو سر شام سے چوکھٹ سے لگی بیٹھی ہے-کیوں میاں گانا سنو گے ، رقص دیکھو گے یا تنہائی چاہئیے
میں نے زرا دیر کو سوچا اور کہا کہ ناچ گانا دیکھنے کو من ہے تو پھر مطلب کی بات نہیں ہوگی – فوری کہا کہ مجھے تنہائی درکار ہے-وحید اور شمائلہ بائی دونوں کے چہرے پہ مسکراہٹ آئیشمائلہ نے ہال کے بائیں جانے بنی ایک راہداری کی طرف اشارہ کیا کہ اس راہداری میں آگے جاکر سیڑھیاں آئیں گی –جہاں سیڑھیاں ختم ہوں گی اس کے دائیں طرف سب سے آخری کمرے میں چلے جائیں

وحید نے کہا کہ پوری رات یہ یہاں رہے گا-کھانا جب کہے منگوا دینا اور اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک لفافہ نکال کر شمائلہ بائی کے حوالے کردیا-لفافہ ہاتھ میں آتے ہی شمائلہ کورنش بجالائی –میں سیڑھیوں پہ چڑھ کر سامنے بنی ایک راہداری میں چل دیا-سات کمرے چھوڑ کر آٹھویں کمرے کے سامنے کھڑا ہوا اور دورازے پہ دستک دے ڈالی
دروازہ کھلا ہے –اندر تشریف لے آئیں–

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply