یہ بھی پڑھیے:عمران خان اور پاکستان کی ناگفتہ بہ اقتصادی حالت۔۔۔(قسط1)عامر کاکازئی
ملکی معاشی تاریخ میں سب سے بڑا خسارہ بھی اس حکومت کے نصیب میں آیا جو کہ جی ڈی پی کا 8.9 فیصد یا 3.44 ہزار ارب روپے ہے۔ حکومت کے کاروباری اداروں نے 1622 ارب روپے کا خسارہ کیا ہے۔ اپوزیشن کے زمانے میں جناب عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ کرپٹ لوگ حکومت کے ادارے بیچتے ہیں جبکہ ایمان دار حکومتیں اداروں کو بحال کرتی ہیں۔ مگر موجودہ حکومت نے اَتے ہی پہلے مرحلے میں منافع بخش بجلی کے پیداواری یونٹس ’بلوکی‘ اور ’حویلی بہادر شاہ‘، سروسز ہوٹل لاہور، ایس ایم ای بینک، جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد، حکومتی اداروں کی قیمتی 32 جائیدادیں فروخت کے لیے پیش کر دی ہیں۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں پاکستان اسٹیل ملز، گدو پاور پلانٹ، نندی پور پاور پلانٹ، فرسٹ ویمن بینک، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، پاکستان ری انشورنس، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، پاکستان انجینئرنگ، سندھ انجیئنرنگ، آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ کمپنی پاکستان پیٹرولیم میں فروخت کیے جائیں گے۔
اس وقت بیوروکریسی نےکام مکمل بند کر دیا ہے۔ اور وہ آج کل بائی بک by book چل رہے ہیں جس کی وجہ سے کوئی کام وقت پر نہیں ہوتا۔ بیوروکریٹس کسی بھی منصوبے پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے نیب کے ہاتھوں بے عزت نہیں ہونا۔ ہماری حکومت مشیت کو دستاویزی کرنے کے چکر میں اپنا دماغی توازن کھو بیٹھی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے بازار کسادبازاری کا شکار ہیں۔ روزگار کے امکانات ختم ہورہے ہیں۔ عام تاجر بھی ہڑتال پر ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں بند ہیں۔بینکنگ ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، میڈیا اور تمام شعبوں میں حالات ناگفتہ بہ ہیں۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے اندازے کے مطابق عمران خان کی حکومت کے دوسرے سال کے اختتام تک 20 لاکھ لوگ اپنی ملازمت سے محروم ہوچکے ہوں گے اور 80 لاکھ تک غربت کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ ایک بڑی وجہ بیروزگاری کی یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان نے اپنے ترقیاتی منصوبوں کے کام بند کر دیے ہیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ڈاکٹرز کی ہڑتال سے دونوں صوبوں میں ہسپتال جام ہو گئے ہیں۔
درمیانہ طبقہ مر رہا ہے۔دوا اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیاہے ، بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کا بجٹ درہم برہم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے پاس کچھ اور خریدنے کیلئے کچھ بچتا ہی نہیں۔۔
اس حکومت نے جو سب سے بڑا بلنڈر مارا ہے وہ ہے مصر سے آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ رضا باقر کو بلا کر اس کو سٹیٹ بینک کا گورنر لگا دیا گیا ہے، اس بندے کو لگایا گیاہے جس کا ٹریک ریکارڈ ہی ٹھیک نہیں۔ یاد رہے کہ یہ رضا باقر و ہی انسان ہے جس نے مصر کی عوام کا کچومر نکال دیا تھا، جس کے بارے میں آئی ایم ایف بڑے فخر سے کہتا ہے کہ مصرمیں اس کا پروگرام بڑا کامیاب رہا ہے،حقیقت میں مصر کی آدھی آبادی غربت میں ڈوب گئی تھی۔ مصرمیں باقر صاحب سے پہلے 28.8 فیصد غربت تھی ان کے پروگرام ختم ہونے کے بعد مصر میں غربت ساٹھ فیصد ہو چکی تھی (یہ ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے )۔
چلتے چلتے گیلپ کا نیا سروے بھی پڑھ لیجیے، گیلپ نے حالیہ سروے میں پاکستان کے سب سے بڑے مسائل کے حوالے سے عوام سے رائے لی۔ گیلپ سروے کے مطابق 53 فیصد پاکستانیوں نے کرپشن کی بجائے مہنگائی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔جبکہ کرپشن صرف 4 فیصد پاکستانیوں کے نزدیک بڑا مسئلہ ہے۔
دو آخری سوالات۔۔
پہلا سوال :اگر کرپشن بھی بند ہے اور ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام نہیں ہو رہا تو آخر یہ سارا ٹیکسز سے اکھٹا کیا گیا پیسہ کس اندھے کنویں میں جارہا ہے؟
دوسرا سوال: پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ جواب اوپر کے مضمون میں پوشیدہ ہے
سارے مضمون کو اگر کوزے میں بند کیا جاۓ تو یہ جملہ ملتا ہے کہ “حکومت کے پاس معاشی بد حالی کے حل کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
پنچ لائین : ایتھوپیا کے وزیر ِاعظم ابی احمد کو ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے پر نوبل انعام ملا ، لگتا یہ ہے کہ پہلی بار ایک اچھے خاصے ترقی کرتے ہوے ملک کو مکمل تباہ کرنے کا نوبل انعام عمران خان کو ملے گا۔
اس مضمون کے فگرز اور معلومات عارف نظامی صاحب اور مرزا اختیار بیگ کے ایک کالم، ڈان ، ڈیلی ٹائمز، نواۓوقت، دنیا نیوز، ڈی نیوز، فنانشل ٹائمز، اور ایکسپرس ٹریبیون سے لیے گئے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں