انٹیگنی سے ایک مکالمہ۔۔۔۔(21)ڈاکٹر ستیہ پال آنند

شاعر: آ ،انٹیگنی، آپس میں کچھ بات کریں
تم کہتی ہو ، تم نے اپنے اندر کی آواز کو سن کر
ملک میں نافذ اس قانون کو توڑا ہے، جو
اند ر کی آواز سے میل نہیں کھاتا تھا
تم کہتی ہو، اندرکی آواز کا جو قانون ہے
ایسے سب قانونوں پرحاوی ہے
جن کو انسانوں نے مل کر وضع کیا ہے
تم کہتی ہو، ملک کے قانونوں پر چلنا لازم بھی ہے
لیکن ان قانونوں کی بنیاد اگر
نا انصافی پر قائم ہو، تو
ان پر چلنا نا واجب ہے
تم کہتی ہو، بادشاہ اور اس کی رعایا
ملک میں نافذ قانونوں کی
ڈور میں کس کر بندھے ہوئے ہیں
دونوں ایک برابر جیسے
لیکن تم یہ بھی کہتی ہو
حاکم کو قانون بنانے کا حق ہے،تو اس منطق سے
اس کی رعایا کا بھی حق ہے
اس قانون کو توڑے، جس کی
بنیادوں میں نا انصافی کے پتھر ہوں

یہ تضاد، آؤ، انٹیگنی
میں اور تم، یعنی اک شاعر
اور اک جانی پہچانی شخصیت
آپس میں مل کر ُسلجھائیں
دُور کریں مکڑی کے جالے
جو صدیوں سے خیر و شر کے
جرم و سزا کے مفروضوں پر تنے ہوئے ہیں
آج کے دور میں بھی یہ باتیں
اکثر حاکم اور محکوم کے رشتے کے شفاف آب کو گدلاتی ہیں
شایدہم دونوں کی اس سیدھی اور سچی بات چیت سے
کل کے افق پر کوئی ایسا سورج ابھرے
جو تاریخ کے صفحوں کی بوجھل تاریکی پر حاوی ہو
اور اس سے موجودہ عہد کی تاریکی بھی کچھ چھٹ جائے
بول،انٹیگنی، کیا تم نے توڑا قانون؟‘‘

انٹیگنی:ہاں ، شاعر، مجھ کو یہ کہنے میں کوئی بھی عذر نہیں ہے
میں نے اپنے ملک میں نافذ اس قانون کی دستاویز کو چاک کیا ہے
جو جبری نا انصافی کی بنیادوں پر بنا ہوا تھا
لیکن، اے شاعر
کیوں توڑا، یہ بھی تو پوچھو
کیا قانون تھا، یہ بھی پوچھو
کیسے توڑا؟ یہ بھی پوچھو
کون تھی میں؟ یہ بھی تو پوچھو
مَیں انٹیگنی، میرے کنبے سے تو موت کا یارانہ ہے
باپ مرا، مشہور ِ زماں، رسوائے جہاں
جابر، جرار، بہادر، فاتح
“آڈیپس ” تھا
جو اپنی ماں کا بیٹا بھی تھا ۔۔۔اور پھر اتفاق سے
خاوند بھی تھا
جس نے اپنی دونوں آنکھیں
آخر اپنےہی ہاتھوں سے پھوڑیں ۔۔۔اور پھر
نا بینائی کے عالم میں
اپنے اس انجام کو پہنچا
جو اس کی قسمت کا نوشتہ۔۔۔
یعنی حاصل ِ لاحاصل تھا
میرے دونوں بھائیوں نے بھی
اپنے نصب العین کی خاطر
جان گنوائی
کریون کی خاطر اک بھائی میرا
تھِیب کی جنگ میں کام آیا تو
عزت کی تدفین ملی
لیکن بدقسمت تھا میرا دوسرا بھائی
پولی نایئسس
کریون کے دشمن کی فوجوں کا سالار تھا
کریون نے یہ حکم دیا تھا
جرم ہے اس کی لاش کا دفنانا یا اس کی قبر کھودنا
میں نے ، شاعر
اس قانون کو توڑا، بھائی کو دفنایا
عزت سے اور احترام سے

کیوں توڑا، اب یہ بھی سن لو
جب کریون نے مجھ سے پوچھا
کیا بھائی کو دفنانے کا جرم مرے ہاتھوں سے ہوا ہے؟
“ہاں!” میں بولی
“مجھ کو جرم سے عذر نہیں ہے”
جب کریون نے مجھ سے پوچھا
کیا میں ان احکام سے ناواقف تھی صریحاً
جن کی رُو سے
بھائی کو دفنانا ممنوع تھا میرے شہر میں؟
“ہاں، کریون۔۔۔میں واقف تھی ان قانونوں سے
میں تو پہلے ہی اقبال ِ جرم کی سرحد سے کچھ آگے
بڑھ آئی ہوں۔۔۔۔

مرنا تو سب کو ہے ، کریون
میں نے کہا تھا
اور اگر ان پاک اصولوں کی خاطر میں مر بھی جاؤں
میرے لیے یہ نفع بخش ہے
لیکن اگر میں
بھائی کے لاشے کو گلنے سڑنے دیتی
اور خود زندہ رہتی ، تو بھی
لمحہ لمحہ جیتی، مرتی
جب کریون نے مجھ سے پوچھا
کیا میں ایک اکیلی ہی ہوں
جس نے اس مقصد کو پانے کی خاطر قانون کو توڑا؟
تھیب کے باقی لوگ نہیں ہیں؟
عثمینی کا کیا منشا ہے؟
میَں نے، کریون، عثمینی سے خود ہی کہا تھا
مرنا میرا حق ہے، بہنا
زندہ رہنا حق ہے تمہارا
آ، دونوں اپنی باہوں میں اِن کو سمیٹیں
اپنے دلوں میں اِن کو بھر لیں
اِن کی خاطر جی لیں، مر لیں
لوگوں کی مت پوچھو، کریون
( میں نے کہا تھا)
سوچ سمجھ لو
تھیِب کے شہری
لوگ مرے ہمراز ہیں سارے
خیر خواہ ہیں
لیکن ظلم سے لرزیدہ ہیں
مہر بلب ہیں
میری موت انہیں اس خوف کے زنداں سے آزاد کرے گی۔

شاعر: انٹیگنی، یہ بات تمہاری
گہرے معانی کی حامل ہے
آنے والی صدیوں میں، ہر عہد میں اس کا چرچا ہو گا

انٹیگنی، کیا ایسی شہادت
ہر یُگ میں
ہر بار اسی انداز سے ہو گی؟
خوف کے زنداں تو ہر یُگ میں قائم ہوں گے
کیا ہر بار نئی انٹیگنی جام ِ شہادت نوش کرے گی؟

انٹیگنی : شرط فقط اتنی ہے، شاعر
اپنا نصب العین اصولاً اور اخلاقاً
ٹھیک اگر سمجھا جائے، تو
سب جائز ہے

میرا نصب العین تھا بھائی کو دفنانا
جس کا اذن روایت سے سب کو ملتا ہے
پُرکھوں کی تعلیم یہی ہے
جُرم تھا بھائی کو دفنانا
شہر کے فوجی حاکم کے فرمان کی رُو سے
“فرض” سے چل کر
“جُرم” کی سرحد تک میرے قدموں کا پہنچنا
میری منطق کا حصہ تھا
یہ منطق بھی
میرے اندر کی آواز کا قرض ہے مجھ پر
جب مظلوم کے پاس فقط اخلاقی طاقت کا حربہ ہو
اور ظالم کا ظلم اسے ہر بار تشدد پر اُکسائے
جب ہتھیار اُٹھانے کا جی چاہے، تو بھی
یہ اخلاقی قوت اس کے ہاتھ باندھ دے
اس حالت میں دو رستے ہیں
سہنا، جی کر سہنا یا مر جانا
اس منطق کو
(میں نے کریون سے پوچھا تھا)
تم جیسا اک تانا شاہ سمجھے گا کیسے؟

شاعر : لیکن، انٹیگنی، یہ سوچو
شخصی راج میں تانا شاہ کہاں ڈرتا ہے
ایسی شہادت کے مظہر سے؟
ظالم ظلم سے باز نہ آئے
تو بھی کیا تم
غیر تشدد پر مبنی
مجہول روـــیےسے سب کچھ چپ چاپ سہو گی؟
کچھ نہ کہو گی؟

انٹیگنی : چیخ چیخ کر سب سے کہوں گی
جبرہے یہ
یہ ظلم و ستم ہے
وقت کے حاکم کا انصاف غلط ہے، دھوکا، مکاری ہے
لیکن اس سچائی سے بھی مجھ کو کچھ انکار نہیں ہے
جس کو تم مجہول رویہ کہہ کر مجھ سے اُلجھ رہے ہو
جس کو تم کمزوری کا مظہر کہتے ہو
یعنی عدم تشدد پر مبنی میری یہ جنگ ِ شہادت
یہ میری اخلاقی طاقت کا گوہر ہے
جس کی چمک دمک آنے والی نسلوں تک ۔۔۔۔

شاعر : آنے والی نسلیں ، انٹیگنی، تو وقت کی کوکھ میں
نامولود ہیں اب تک
اپنی سوچو
یہ اخلاقی قوت، یہ سودائے شہادت
ظالم کی تلوار کے آگے کیا ٹھہرے گا

انٹیگنی :عدم تشدد پر مبنی یہ احتجاج فوجوں کے لڑنے سے اچھا ہے
اس کی طاقت تلواروں کی کاٹ سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے
ظالم کی تلوار تو آخر ظلم کا اک اندھا آلہ ہے
جس سے سر تو کٹ سکتا ہے ۔۔۔
لیکن سر میں دار و رسن کا جو سودا ہے
وہ تلوار سے کیسے کٹے گا؟
سر کٹ جانے پر بھی اس کی موت نہ ہو گی
موت سے کیا ڈر؟
موت مجھے جینے کی لعنت سے چھٹکارہ بھی دے گی ۔۔۔ اور
میری شہادت
میری آنکھوں دیکھی گواہی
تھیب کے لوگوں کو وہ ہمت دے گی، جس سے
وہ سارے نا واجب قانونوں کو توڑیں
آگے بڑھ کر سینہ سپر ہوں
نیزوں کی انیوں کو اپنے جسم پہ روکیں
اپنے نہتے ہاتھوں سے تلواریں کاٹیں
نا فرمانی کے اعلان سے ثابت کر دیں
اب ظالم کےظلم کے آگے سر نہ جھکیں گے
کٹ جائیں گے

شاعر :آخر میں، انٹیگنی، تم سے یہ کہنا ہے
تم ہیمنؔ کی منگیتر تھیں، شہزادی تھیں
تم زندہ رہ جاتیں، تو پھر ملکہ بنتیں

انٹیگنی: میں شہزادی
ملکہ بننے کے اس خواب سے کب واقف تھی
اب میں موت کی ملکہ بن کر سو جاؤں گی
آنےوالی صدیوں میں گم ہو جاؤں گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ُSee the explanatory notes appended below taken from Wikipedia.

.Antigone is the subject of a story in which she attempts to secure a respectable burial for her brother Polynices. Oedipus’s sons, Eteocles and Polynices, had shared the rule jointly until they quarreled, and Eteocles expelled his brother. In Sophocles’ account, the two brothers agreed to alternate rule each year, but Eteocles decided not to share power with his brother after his tenure expired. Polynices left the kingdom, gathered an army and attacked the city of Thebes in a conflict called the Seven Against Thebes. Both brothers were killed in the battle.

King Creon, who has ascended to the throne of Thebes after the death of the brothers, decrees that Polynices is not to be buried or even mourned, on pain of death by stoning. Antigone, Polynices’ sister, defies the king’s order and is caught.

Antigone is brought before Creon and admits that she knew of Creon’s law forbidding mourning for Polynices but chose to break it, claiming the superiority of divine over human law, and she defies Creon’s cruelty with courage, passion, and determination. Creon orders Antigone buried alive in a tomb. Although Creon has a change of heart and tries to release Antigone, he finds she has hanged herself. Creon’s son Haemon, who was in love with Antigone commits suicide with a knife, and his mother Queen Eurydice also kills herself in despair over her son’s death. She has been forced to weave throughout the entire story, and her death alludes to The Fates.[2] By her death Antigone ends up destroying the household of her adversary, Creon.[1]

Advertisements
julia rana solicitors

Antigone is a typical Greek tragedy, in which the inherent flaws of the acting characters lead to irrevocable disaster. Antigone and Creon are prototypical tragic figures in an Aristotelian sense, as they struggle towards their fore-doomed ends, forsaken by the gods.

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply