ابوصلاح۔۔۔ شام امن سے جنگ تک/سلمیٰ اعوان۔قسط26

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا..

ابو صلاح عمر 45 سال، 22سال رومانیہ میں گزرے۔شام کسی معشوق کی طرح ہمیشہ بڑا محبوب رہا۔کِسی  جگمگاتے فانوس کی طرح نہاں خانہ دل میں جگمگاتا رہا۔ اس وقت سے جب میں دمشق یونیورسٹی میں قانون کا طالب علم تھا۔

بہت سے دیگر حساس اور جذباتی نوجوانوں کی طرح میں بھی شامی حکومت کے تحت زندگی گزارنے پر اور عام لوگوں کے خلاف خفیہ اداروں اور سکیورٹی فورسز کی کاروائیوں پربڑا کُڑھا کرتا تھا۔ کون حکومت کا وفادار ہے؟کِس نے اسد حکومت کے خلاف کوئی تقریر کی؟ بحث مباحثوں میں کون زور و شور سے باتیں کرتا تھا۔ہر جگہ خفیہ  فورس کے آدمی عام کپڑوں میں ملبوس موجود ہوتے۔

شاید میرے نزدیک تب اس کا واحد حل شام سے فرار ہوجانا تھا۔ لیکن اس کے لیے ویزا حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔میں نے اپنے ان دوستوں سے رابطہ کیا۔انہیں درخواست کی جو رومانیہ میں قیام پذیر تھے۔ انہوں نے مجھے وہاں آنے اور ان کے ساتھ ہی رہنے کی پیش کش کی۔

شامی قانون کے مطابق گریجوایشن کے فوراً بعد فوج میں خدمات سرانجام دینی ضروری ہوتی ہیں۔اس صورت سے بچنے کے لیے میں نے سالانہ امتحان نہیں دیا۔ سیاحت والا پاسپورٹ بنوانے کے لیے پیسوں کا بندوبست کیا۔ دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد جس کے تحت میں نے ان سے تین ماہ میں واپسی کا وعدہ کیا تھا رومانیہ روانہ ہوگیا۔سچ تو ہے کہ میں انقلاب کے بعد ابھی تک واپس نہیں گیا۔
میری اور میرے دوستوں کی سب سے پہلی اور اہم تشویش شام میں خون بہا کو روکنا تھا۔ کیونکہ حکومت بڑی وحشیانہ ہوتی جارہی تھی۔بغاوت یاانقلاب صحیح تھا یہ تو ہونا ہی تھا۔آخر ظلم کے آگے آپ کتنی دیر بند باندھ سکتے ہیں؟کہہ لیجیے ہمیں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ یہ ناکام ہوا اس کا دکھ ہے مگر ہمارا بھی عزم ہے کہ ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے۔ ہم ابھی تک سوگوار خاندانوں کو خوراک کی ٹوکریاں پہنچاتے ہیں۔ قید کیے گئے لوگوں اور شہید کیے گئے افرادکے خاندانوں کی دیکھ بھال اور ان کے ساتھ ہر طرح کی معاونت کررہے ہیں۔

ہم ان حساس جگہوں پر موجود لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔میں ایسے بہت سے لوگوں سے ملتا ہوں جو اس انقلاب کے بارے میں منفی سوچ کے حامل ہیں۔ لیکن میں ایک باپ سے ملا جس نے تین بیٹے کھو دئیے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا: ”کیا تمہیں افسوس ہے کہ تمہارے تین بیٹے مارے گئے اور حکومت اب بھی اقتدار میں ہے؟“اس نے کہا”نہیں۔میں تو اس بات پر رورہا ہوں کہ شام پر قربان کرنے کے لیے میرے پاس مزید کچھ نہیں ہے۔“

انقلاب کے چار سال بعد وہ لوگ جو ایک ہزار ڈالر امداد دیتے تھے وہ اب صرف 200ڈالر دیتے ہیں۔ہمارے خیال میں حکومت تین یا چار ماہ میں گرجائے گی۔اسی لیے ہم نے وہ تمام جو ہمارے پاس تھا دیوانہ وار بغیر منصوبہ بندی کیے خرچ ڈالا۔

لیکن اب ہم نے مزید منظم ہونا سیکھ لیا ہے۔عطیات کم ہیں لیکن بہتر استعمال کیے جاتے ہیں اور صحیح ضرورت مندوں تک جاتے ہیں۔ہم شام کے اندر ہی سے ایسے منصوبے بنانے کی کوشش کررہے ہیں جس سے ہم اپنی سرگرمیوں کے لیے رقم مہیا کرسکیں۔اور بیرونی امداد پر انحصار کو روکا جائے۔ہم بھکاریوں کی طرح پیسے مانگتے نہیں رہ سکتے۔
ہم نے بے گھر افراد کے لیے عطانا اندرون شام میں پہلا کیمپ تعمیر کیا ہے۔

ہم 2012میں ادلیب میں تھے۔ اس عارضی ہسپتال کے لئے ادویات وغیرہ کا سامان جسے ہمارے چھوڑنے کے فوراً بعد راکٹ نے ملیا میٹ کردیا۔کافر سجناہ میں ہماری گاڑیوں پر ایک گولہ آکر لگا۔میں نہیں جانتا کہ ہم کیسے بچ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افسوس کہ وہ مہربان شامی ڈاکٹر جو ہمارے ساتھ کام کررہا تھا۔ایک سناپئر کی گولی لگنے سے شہید ہوگیا۔
ہم ناامید نہیں۔بے شک انقلاب ناکام ہوگیا۔بہت تباہی آئی۔لوگوں کی ایک کثیر تعداد گھر وں سے بے گھر ہوئی۔بہت لوگ شہید ہوئے۔ ظلم و ستم کے نئے باب کھلے۔ہمارا ایما ن ہے کہ آزادی خراج مانگتی ہے۔خون کا،دربدری کا، دکھوں کا۔آزادی کے بارے ایسے تو نہیں کہا گیا کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔ہماری آزادی کی وہ سحر بھی ایک دن طلوع ہوگی۔ہم نے اس کا مطالبہ کرتے رہنا ہے۔جدوجہد جاری رکھنی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply