تھوڑا سا ٹائم مل جائے گا صاحب ۔۔۔عامر عثمان عادل

فراٹے بھرتی تیز رفتار زندگی ، نفسا نفسی اور مارا ماری کا عالم ، روز و شب کی تھکا دینے والی روٹین ۔ایسا لگتا ہے،چین سکون آرام سب کسی پچھلے اسٹیشن پر رہ گیا ہو۔ ایک پل کی فرصت نصیب نہیں۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی  تمام ہوتی ہے

جس سے بات کرو ایک ہی جواب ملتا ہے جی ہم فارغ نہیں ۔ پہلے ہی یہ دوڑ کیا کم تھی کہ اب موبائل فون نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ۔ سکون کے چند لمحے جو میسر آتے بھی ہیں تو فون کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ اپنے آس پاس نظر دوڑا کر دیکھ لیجیے ۔۔ ہر کس و ناکس ‘ چھوٹا بڑا، خاص و عام ‘ چوک چوراہوں سے لے کر ائیر کنڈیشنڈ دفاتر تک نظریں موبائل سکرین پر جمائے ، دنیا و ما فیہا سے بے خبر ، اس چیخم دھاڑ میں ہمارے اندر سے اٹھنے والی آوازیں دب کے رہ جاتی ہیں ۔

کبھی ہم نے سوچا کہ ہمیں خود سے ملے ہوئے زمانے گزر گئے ہیں ۔ آپ کا سوال بجا ہے کہ بھلا خود سے کیسے ملا جا سکتا ہے ؟ تو جناب یہی تو ہمارا المیہ ہے کہ ہم سارا دن ایک زمانے سے ملتے رہتے ہیں ۔بس نہیں ملتے تو اپنے آپ سے ،اپنے تن کی ساری ضرورتیں پوری کرتے ہیں ۔ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو خوب بن سنور کر ۔ رات سونے لگتے ہیں تو پھر بڑے اہتمام سے زلف و رخسار کی سیوا کرتے ہیں ۔ سو طرح کے لوشن ، غازے اور ماسک ۔
ہمارے اندر کا انسان ہم سے ملنے کی خاطر کسی بچے کی طرح مچلتا ہی رہ جاتا ہے ، لیکن ہم نے کبھی اسے لفٹ ہی نہیں کرائی  ۔ صبح سے شام تک وہ بیچارہ اسی آس میں گھڑیاں گن گن کے گزار دیتا ہے کہ بس ابھی میری باری آئی  ۔۔ پتہ ہے وہ ہم سے کس قدر اداس ہو گیا ہے۔ وہ ہمیں آوازیں دیتا رہ جاتا ہے ۔ پکارتا ہے ، اپنے ہاتھوں سے ہمارا چہرہ پکڑ پکڑ اپنی جانب متوجہ کرتا ہے، لیکن ہم ہر بار اس کے ہاتھ جھٹک دیتے ہیں   اور وہ اپنی آنکھوں میں سو سوال لئے اپنا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔

چلیں ایک کام کرتے ہیں ۔ آج رات جب سارے کام دھندے نبٹا کے فارغ ہو جائیں تو اپنا موبائل سوئچ آف کیجیے اور سونے سے پہلے بس چند لمحے اپنی خاطر وقف کر دیجیے ۔ ہو سکے تو باہر کھلی فضا میں چلے جائیں ۔ یا پھر اپنے گھر کی چھت پر ۔۔ کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سکون کے ساتھ بیٹھ جائیں ۔ ماحول کی خوبصورتی کو محسوس کریں ۔ چاروں جانب چھائی  تاریکی ، سناٹا، اوپر تاروں بھرا آسمان ۔ بس یہی وہ گھڑی ہے جب آپ کو اپنے آپ سے ملنا ہے ۔ وہ اپنا آپ جو کب سے  آپ کے وصل کو ترسا ہوا ہے۔ وہ جو آپ کو ٹوٹ کر چاہتا ہے ۔ ہاں وہی جو آپ کو اپنی آغوش میں لینے کو بے تاب ہے ۔ بس آج سارے بندھن توڑ ڈالیے ۔ خود سپردگی کے عالم میں بھول جائیں اپنا آپ ۔ خود کو اسے سونپ ڈالیے آنکھیں موند لیجیے اور اس کی پیار بھری سرگوشیاں تو سُنیے ۔

” تھک گئے ہو میری جان ؟۔۔ روگ بھی تو کتنے پال رکھے ہیں ناں تم نے ۔ اپنی جان کو اتنا ہلکان مت کیا کرو ،اپنا خیال رکھا کرو ۔”

پھر دیکھیں یہ آپ کے کتنے ناز اٹھاتا ہے ۔ دھیرے دھیرے اپنی انگلیوں سے  آپ کے بال سہلاتا ہوا آپ کی بلائیں لیتا ہوا۔ آج اپنا دل کھول کر رکھ دیجیے اس کے آگے ۔ کہہ ڈالیے وہ سب کچھ جو آپ کے من پر بوجھ ہے ۔ وہ سب جو آپ کسی اور سے کہتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔ آج کی اس دلنشیں ملاقات کو یادگار بنا ڈالیے ۔ جی بھر کے باتیں کریں ۔ پھر یہ آپ کو یاد دلائے گا کہ آپ کا مقصد حیات کیا ہے۔ اللہ کریم نے آپ کو دنیا میں کیوں وارد کیا۔ ان سارے سوالوں کا جواب ہے اس کے پاس جو آپ کو پریشان کیے رکھتے ہیں ۔ رازونیاز کی باتیں ، زمانے کی ناقدری کا گلہ ،اپنوں کی بے اعتنائی  ،ناروا سلوک کی شکایت ،دوستوں کے سرد ہوتے رویے ، بس اپنا دل کھول کر رکھ دیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور پتہ ہے یہ ملاقات آپ کو اپنے آپ کی پہچان کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی ۔ جب آپ نے خود کو پہچان لیا تو پھر آپ کی مات نہیں ہو پائے گی۔ کیونکہ خوبصورت مقولہ ہے
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا
تو صاحب پھر دیر کس بات کی ؟
بس تھوڑا سا ٹائم نکال کر آج رات ہی ذرا دیر خود سے تو مل لیجیے ۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply