نظریہِ ضرورت اور پاکستان

ابھی چند دن پہلے ٢٣ مارچ کا دن گزرا ہے۔ ہماری قومی شناخت کی تعبیر میں یہ دن ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کو ہم سب نے اکٹھے ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں اپنی قومی شناخت کے تحفظ اور دوام کے لیے ایک الگ ملک چاہیئے۔ گاندھی کے نظریہِ قوم کو رد کرتے ہوۓ ہم نے اقبال کے نظریہِ قوم کو قبول کیا۔ گاندھی وطن کی بنیاد پر قومیت کے تصور کا قائل تھا جبکہ اقبال اُس کے برعکس نظریے کی بنیاد پر قومیت کے تصور کا قائل تھا۔ لہٰذا اقبال کے نظریہِ قومیت کو قبول کرتے ہوۓ ہم نے قائدِ اعظم کی قیادت میں یہ فیصلہ کیا اور مطالبہ کر ڈالا کہ ہمیں مسلمانانِ ہند کے لیے ایک علیحدہ آزاد ملک چاہیئے۔ اپنے اس قومی تشخص کی بقا کی خاطر ہم نے ہندٶں کے ساتھ رہنے سے انکار کیا اور انگریز کے یہاں سے جانے کے ساتھ ہی ہندٶں سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی لازمی جانا۔

پاکستان قائم ہو گیا اور ہمیں اپنے قومی بیانیہ کو دستوری شکل دینے میں تقریباً ٩ برس لگے۔ دستور ساز اسمبلی نے ١٩٥٦ میں پہلا آئین منظور کیا۔ لیکن اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو کچھ اور ہی منظور و مقصود تھا۔ چنانچہ ١٩٥٨ میں ایک مسیحا منظر پر نمودار ہوا اور اس نے آئین کو معطل کر کے ١٩٦٢ میں اپنا ایک دستور نافذ کیا۔ اس طالع آزما مسیحا کے سامنے مادرِ ملت کو بھی انڈین ایجنٹ اور مغربی ایجنٹ جیسے تمغے وصول کر کے رسوا ہونا پڑا۔ ون یونٹ فارمولہ کا بیج ١٩٧١ میں بنگلہ دیش کی شکل میں ایک تناور درخت بن کے سامنے آیا۔ اس میں بھی رسوائی اور غداری کا ذمہ دار بنگالیوں کو ہی ٹھہرایا گیا۔ وہ بھی انڈیا کے ایجنٹ قرار پائے۔ کسی نے اس سوال کا جواب نہ دیا کہ انہیں انڈیا کے سپرد کس نے کیا؟

پھر ذوالفقار علی بھٹو آئے۔ انہوں نے ایک نیا بیانیہ پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ انہوں نے اسلامک سوشلزم کا بیانیہ پیش کیا جسے عوام میں خوب پزیرائی نصیب ہوئی۔ ان کی مقبولیت آسمان کو چھونے ہی والی تھی کہ اچانک آسمان پر ٩ سیارے نمودار ہوئے اور اپنے ستارے کی مرکزیت کو لاحق خطرے کے پیشِ نظر انہوں نے اتحاد، ایمان اور تنظیم کی اعلٰی مثال قائم کرتے ہوئے نظامِ مصطفٰی کی ذِرؔہ پہن کر بھٹو صاحب کے خلاف تحریک اٹھائی۔ اس تحریک نے اُس مرکزی ستارے کی نموداری کی راہ ہموار کی اور ایک مردِ مومن مردِ حق ملکی و قومی منظر پر جلوہ پذیر ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سے پہلے کہ ذوالفقار علی بھٹو مقبولیت اور پذیرائی کے آسمان کی بلندیوں کی انتہا تک پہنچتے، ایک عدالتی گُرز سے انہیں آسمان کی بلندیوں سے زمین میں اتار دیا گیا۔ قوم کے لیے پھر سے ایک نئے بیانیے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بھٹو صاحب کو دین دشمنی کے تمغے سے نوازا گیا۔ قوم کو یہ بار آور کروایا گیا کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام نافذ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ چنانچہ اسلام کے نام پر خوب چراغ جلائے گئے تاکہ اُس ستارے (مردِ مومن مردِ حق) کی روشنی ماند نہ پڑنے پائے۔
اس بیانیے نے پہلے سے طاقتور طبقے کو اتنی طاقت پہنچائی کہ اس مردِ مومن کے سپردِ خاک ہونے کے بعد طاقت کے اس بیانیے کو بدلنے کی کوشش میں ایک ہی دَہائی میں بےنظیر بھٹو اور نواز شریف کی منتخب حکومتوں کو دو دو بار گھر جانا پڑ گیا۔
چنانچہ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کو ایک اور روشن خیال ستارہ ملکی اور قومی افق پر نمودار ہوا۔ عالمی منظر نامے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پیشِ نظر قوم کے اس روشن خیال مدبر رہنما نے قوم کو بارآور کروایا کہ اب قوم کو ایک نئے روشن خیال بیانیہ کی ضرورت ہے۔ ایک طرف وہ مذہبی رجعت پسندی کے خلاف قوم کو روشن خیالی کے درس دیتے رہے تو ساتھ ہی انہیں رجعت پسند قوتوں کو اپنی پراکسی کے طور استعمال کر کے دنیا اور قوم کی آنکھوں میں دھول بھی جھونکتے رہے۔
بے نظیر بھٹو نے اپنے ماضی کی غلطیوں کو بھلاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر طاقت کے اس بیانیے کو بدلنے کا قصد کیا تو انہیں بھی اپنے والد کے پہلو میں سلا دیا گیا۔ آخر کب تک کسی کی غلطی کو معاف کیا جا سکتا ہے؟
آصف علی زرداری نے بھٹو خاندان کے انجام سے سبق سیکھتے ہوئے ٥ سال صبح شام توبہ و استغفار کی تسبیح پڑھ پڑھ کے گزارے۔ اور لگتا ہے نواز شریف بھی اچھی طرح یہ جان چکے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی طرح ان کے پاس بھی اب غلطی کی گنجائش نہیں۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف نے بھی طاقت کا سرچشمہ اللٰہ یا عوام کے علاوہ کسی اور قوت کو تسلیم کر لیا ہے۔ تبھی تو گذشتہ ٤ سال سے اپنے اس نئے معبود کے سامنے سجدہ سے سر اٹھا ہی نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت کے اُس سرچشمے سے جو بھی حکم صادر ہوتا ہے اسے عوام کے سامنے اپنی آواز بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ اطاعت اور سرشاری ایسی ہے کہ لوگ آصف علی زرداری کے درود و تسبیحات بھی بھول گئے ہیں۔
آج کل کے معروضی حالات کے پیشِ نظر اب قوم کے لیے نیا حکم یہ ہے کہ ایک نئے متبادل بیانیہ کی تیاری کرے۔ اور قوم کے ضرورت مند دانشوروں کا حال یہ ہے کہ ایک دوسرے سے مسابقت میں بڑھ چڑھ کے اپنی پراڈکٹس کی مارکیٹنگ میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے اصل بیانیہ (جسے ہم قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پسِ پشت ڈال چکے ہیں) کی طرف لوٹنے کی پکار لگائے۔ جو قوم اپنے بنیادی نظریہ کو پسِ پشت ڈال کر نظریہِ ضرورت کو ہی اپنی بنیادی اساس بنا لے، تاریخ گواہ ہے کہ نہ وہ منزل کو پا سکتی ہے نہ راستہ۔ نہ امن پا سکتی ہے نہ ترقی۔ ایسی قومیں ہمیشہ انتشار کا شکار ہی رہتی ہیں۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply