ترکش وفد کے ہمراہ وادی ء مہران کا دورہ۔۔۔(قسط3)محمد احمد

پیر جھنڈو آمد:
سندھ کا بہت مشہور راشدی خاندان جو سید محمد راشد روضے دھنی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے۔ ان کا نسب چھتیس پشتوں کے بعد امیر المؤمنین سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے، ان کے جد اعلی سید علی مکی خلافت بنو عباس کے زمانے میں اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کی غرض سے سندھ میں وارد ہوئے تھے۔ پیر جھنڈو کی وجہ تسمیہ سید محمد یاسین شاہ راشدی رحمہ اللہ صاحب العَلَمُ الأول کی طرف منسوب ہے۔ یہ سید محمد راشد روضے دھنی کے دوسرے نمبر  کے فرزند تھے، حضرت روضے دھنی رحمہ اللہ نے ان کو اعلاء کلمۃ اللہ، جہاد فی سبیل اللہ اور اسلام کی سربلندی کے لیے ایک عَلَم عطا فرمایا تھا، اس وجہ سے ان کو پیر جھنڈو (صاحب العَلَم الأول ) کہا جاتا تھا۔ یہ چھوٹا گاؤں بھی اسی نسبت سے مشہور ہے۔ یہ جھنڈا، ان کے خاندان میں محفوظ ہے۔ یہ خاندان علمی ہے اس وجہ سے کتابیں اہل علم کا ورثہ ہیں۔ حضرت سید محمد یاسین صاحب العلم الاوّل کے حصے میں بھی کچھ کتابیں آئی تھیں، جس کی حفاظت ان کے جانشین سید رشید الدین راشدی صاحب نے کی، لیکن ترقی اور عروج سید رشد اللہ شاہ راشدی صاحب رح نے بخشا، انہوں نے 1319 میں مدرسہ دار الارشاد کی بنیاد رکھی اور ساتھ میں عظیم لائبریری کی بھی داغ بیل ڈالی۔ مدرسہ دار الارشاد کی بنیاد عظیم مقاصد کے خاطر رکھی گئی تھی، پیر رشد اللہ صاحب نے امام انقلاب مولانا عبيد اللہ سندھی کے مشورے سے اس مدرسہ کا آغاز فرمایا اور مولانا سندھی صاحب امروٹ شریف کو الوداع کہہ کر سید رشد اللہ راشدی صاحب کی دعوت پر پیر جھنڈو تشریف لائے، اور عظیم مقاصد کے حصول کے لیے کام شروع کیا، یہ ادارہ محض رسمی ادارہ نہیں تھا بلکہ اپنے وجود میں ایک تحریک اور انجمن تھا۔ ان کے مقاصد میں اہم مقصد یہ تھا کہ حالات حاضرہ کے ہم آہنگ ایسے افراد پیدا کرنا جو معاشرے کی ہر ضرورت پوری کرسکیں اور ادارے میں اپنا کردار ادا کرسکیں، لیکن “ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہو”۔۔

چند سال بعد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ نے امام انقلاب مولانا عبيد اللہ سندھی صاحب کو ایک عظیم الشان مشن کے لیے دیوبند طلب فرمالیا اور بعد ازاں انھیں افغانستان روانہ کردیا۔ لیکن بہت مختصر عرصے میں جو عظیم افراد تیار کیے ان میں مولانا قاضی حبیب اللہ میمن صاحب، مولانا قاضی عزیز اللہ میمن، مولانا قاضی عبدالرزاق، مولانا خیرمحمد نظامانی صاحب، مولانا غلام مصطفی قاسمی صاحب، مولانا علی محمد کاکیپوٹو صاحب اور مولانا خوش محمد میروخانی صاحب سمیت بہت سارے نامور علماء کرام شامل ہیں۔ جن مشہور اساتذہ کرام نے یہاں درس دیا ان میں مولانا عبیداللہ سندھی صاحب، مولانا عبداللہ لغاری، مولانا فتح محمد نظامانی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا محمد لغاری صاحب سمیت کئی مشہور اساتذہ کرام ہیں جو یہاں تدریسی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

دوسری جانب ان کی لائبریری کا چرچا بھی دنیا بھر میں تھا، ایشیاء کی دوسری بڑی لائبریری تھی۔ حیدرآباد دکن، لکھنؤ عرب دنیا سمیت بڑے جبال العلم حضرات یہاں استفادے کی غرض سے تشریف لاتے رہتے تھے۔

پیر رشداللہ شاہ راشدی صاحب کا کتب بینی اور کتابیں جمع کرنے کا شوق لائق تقلید اور قابل رشک تھا۔ ان کو جیسے ہی کسی کتاب کے بارے میں پتہ چلتا تھا تو یہ پہلے کتاب حاصل کرنے کی کوشش کرتے، اگر کتاب نہیں ملتی تو بہترین کاتب سے یہ کتاب نقل کرواکے اپنے مکتبے کی زینت بناتے، اس طرح پیر صاحب نے اپنے مکتبے میں ہزاروں نادر کتابیں اور مخطوطات جمع فرمائے۔

ایک مرتبہ سعودی عرب تشریف لے گئے تو امام شوکانی کی کتاب “ارشاد الفحول” خریدنا  چاہی ،تو مالک نے دوسو ریال قیمت لگائی۔ حالانکہ یہ کتاب چھپنے کے بعد دو روپے میں فروخت ہوتی تھی، پیر صاحب نے بغیر کسی چوں وچراں کے بھاری  قیمت ادا کرکے کتاب حاصل کی، پھر وہاں اسماء الرجال پر ایک کتاب پسند آئی تو قیمت معلوم کی تو مالک نے کہا کہ فی صفحہ ایک روپیہ لوں گا، جب اوراق گنے گئے تو سو صفحات پر مشتمل تھی تو فورا ً سو روپیہ ادا کرکے کتاب حاصل کی۔

اس عظیم لائبریری اور مدرسہ کے بارے میں محقق عالم دین مولانا غلام مصطفی قاسمی صاحب رقم طراز ہیں کہ “مولانا پیر رشد اللہ صاحب اپنے وقت کے بہت بڑے مفسر اور محدث تھے۔ آپ نے رجال طحاوی پر عربی میں ایک عالمانہ کتاب لکھی ہے، جس کو علماء دیوبند نے دیوبند سے شائع کیا، اور بڑے پائے کی کتاب مانی جاتی تھی۔ آپ نے 1319 میں ایک مدرسہ اور لائبریری کی بنیاد رکھی، یہ مدرسہ آگے چل کر سندھ میں دینی علوم کی عظیم درسگاہ ثابت ہوا، جہاں برصغیر کے نامور علماء کرام، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری، مولانا اشرف تھانوی رحمھم اللہ اور دوسرے اکابر تشریف لاتے رہتے تھے۔ کتب خانہ کے لیے کتابیں جمع ہونا شروع ہوگئیں، دنیا کے عظیم عالم مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کی کتابیں بھی لاکر اس میں جمع کی گئیں۔ اس مکتبے کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ علماء سندھ کی عربی، فارسی اور سندھی تصانیف کا یہاں بڑا ذخیرہ جمع ہے۔ مرکز دائرۃ المعارف حیدرآباد اور دیوبند کے بزرگ یہاں سے کتابیں نقل کرواتے تھے۔
جاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply