سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک۔۔۔سلمیٰ اعوان/قسط7

شام میں انقلاب کے لئے آخری حدوں تک جانے والی جی دار خاتون

2008ء کے اُن دنوں جب میں دمشق میں تھی۔ ایک گرم سی صبح عرب رائٹرز یونین کے مزہ Mezzehمیں واقع دفترشامی لکھاریوں سے ملنے لگی۔
مزہ Mezzeh میں دفتر ڈھونڈنا مصیبت بن گیا تھا۔ چلو زینبیہ کا عباس ہوتا تو سودید سو لحاظ والا معاملہ یقینی تھاکہ وہ جگہیں ڈھونڈنے میں ڈنڈی نہیں مارتا تھا۔ مگر اس ڈرائیور نے تو ماتھے پر آنکھیں رکھی ہوئی تھیں۔ بڑا ہی بد لحاظ اور بے مروتا سا۔ بارے خدا ایک بڑی بلڈنگ کے سامنے رک کر اُس نے بتایا کہ یہی آپ کی مطلوبہ جگہ ہے۔
سچی بات ہے بڑی متاثر کن عمارت تھی۔ بڑے بڑے شاندارآراستہ پیراستہ کمرے۔پبلیشنگ سے متعلق مختلف شعبے، ہال، کیفے ٹیریا۔
میں نے چلتے ہوئے خیال ہی نہیں کیا کہ دن جمعے کا ہے۔ ہمارے لوگوں اور مسجدوں کی طرح دمشق میں بھی جمعے کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ لوگ بارہ بجے ہی دفتر خالی کر جاتے ہیں۔
’’جی جمعہ پڑھنا ہے۔“
ساڑھے نو بجے تو ہوٹل سے چلی تھی۔جگہ ڈھونڈنے میں خجل خواری بھی بہت ہوئی۔ ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ جب مطلوبہ جگہ پہنچی۔ پہلے تو پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں ماریں۔کسی ذمہ دار فرد کی متلاشی ہوئی۔ یونین کے چیئر مین بارے جانا کہ وہ تو کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے بیرون ملک گئے ہوئے تھے۔ ڈائریکٹر بھی غائب تھے۔
ہاں البتہ رابطہ آفیسر قاسم دیبیسے ملنا ہوا۔ جنہوں نے کہاتھا۔
”آپ کیسے وقت آئی ہیں؟ لوگ جمعے کی وجہ سے چلے گئے ہیں۔ ذرا جلدی آتیں تو بہت سے لوگوں سے ملنا ہو جاتا۔“
اُن سے تھوڑی دیر باتیں ہوئیں۔ میں نے سوال تو بہتیرے نوکیلے کئے مگر مجال تھی کہ کسی ایک کا جواب مجھے منفی شکل میں ملا۔ صحافیوں اور ادیبوں کے لئے حکومت کی عنایات ونوازشات کی لمبی چوڑی فہرست گنوا دی۔ گھر کے لئے قرضے اور طبّی سہولتوں کا ذکر بڑی شد ومدّ سے کیا۔
سیریا کی ادبی روایات اس کے خوبصورت امیرانہ ثقافتی ورثے کی طرح بہت حسین ہیں۔ اس نے بہت سی مشکلات اور سختیوں کو سہا ہے۔ وضاحت ہوئی تھی۔
اُن کے اضطراری سے انداز، کلائی کی گھڑی کو دو تین بار اچٹتی سی نگاہ سے دیکھنے کی فضول سی کوشش نے مجھے تنبیہ کی۔
”پاگل ہو اُٹھو۔ وہ تم سے جان خلاصی چاہتا ہے اور تم چمٹی جاتی ہو۔“
بہرحال جو مسئلہ تھا وہ بھی جلد ہی سمجھ آگیا تھا کہ ہم اکٹھے ہی باہر نکلے تھے۔ مرکزی دروازے سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لیتے ہی وہ آہستگی سے بولے تھے۔
”کمروں میں کیمرے نصب ہیں۔ گفتگو ریکارڈ ہوتی ہے۔“
”اوہو۔“
ثمریزبک سے ملنا بھی ایک خوبصورت تجربہ تھا۔ اس کا ایڈریس قاسم دیبے نے دیتے ہوئے کہا تھا۔
”آپ اُس سے ضرور ملیے۔ بہت ہی منفرد صلاحیتوں کی حامل خاتون ہے۔رائٹر اور جرنلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فلم سکرپٹ،ٹی وی ڈرامہ رائٹر، ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ اور وویمن رائٹس کی علم بردار ہے۔ دبنگ عورت آپ کے سوالوں کے جواب زیادہ عمدگی سے دے گی۔یہیں مزہ میں ہی فی الحال اپنی ایک عزیز ہ کے پاس چند دنوں کے لئے رہ رہی ہے۔“
پتہ بھی انہوں نے دیا اور جائے وقوع بھی اپنے کارڈ پر لکھ دی کہ ٹیکسی ڈرائیور کو سمجھنے میں سہولت رہے۔
”سمر بڑی دبنگ ہے۔ آپ کو اُس سے ملنا یقیناً اچھا لگے گا۔“


خدا حافظ کہنے کے ساتھ ہی ایک بار پھر اسی بات کو دہراتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئے تھے۔ عرب روایات کے برعکس انہوں نے مجھے لفٹ کی پیش کش نہیں کی۔ کیا یہاں بھی انہیں کوئی خوف لاحق تھا یا بے اعتنائی تھی؟
میں نے ٹیکسی کی تلاش میں نظریں اِدھر اُدھر دوڑائیں۔ خوش قسمتی کہ سواری بھی فوراً مل گئی اور گھر کی تلاش میں بھی زیادہ بھٹکنا نہ پڑا۔
چار منزلہ فلیٹ کے پہلے فلو ر پر جب گھنٹی پر ہاتھ رکھا میرا دل دھڑک رہا تھا۔ جانے کتنی دعائیں مانگی تھیں کہ پروردگار اب اتنی خجل ہوئی ہوں تو ملاقات ہو جائے۔ جب کسی بندے کی شخصیت میں اتنے بہت سے اوصاف شامل ہوں۔ وہ اتنی جہتوں کا مالک ہو تو پھر اُس کا ملنا کارے داردوالے معاملے جیسا ہی ہوتا ہے۔
ایک سیاپا کہہ لیجیے یا احساس کمتری کا احساس جو کچھ اپنے لباس اور حُلیے کے سلسلے میں تھاکہ ایک تو پانچ چھ کلو کا عبایا پہنے ہوئے ہوں۔صورت ویسے ہی مسکینوں جیسی ہے۔ویسے میں اِن عبایوں حجابوں سے قطعی باغی عورت ہوں۔صورت تو اللہ کی دین ہے اور پیدائش کے لئے گھر گھرانہ بھی کہیں اس کی ہی کسی منصوبہ بندی میں شامل ہے۔اس لئے کٹر قسم کے دینی گھر میں میرا نزول بس تھوڑے عرصے تک کے لئے ہی حائل ہوا۔پھر اس نے بہتیرے چور راستے ڈھنڈولئے تھے۔شادی کے بعد ڈھیل ہی ڈھیل تھی۔تاہم اب اس عراق والے سیاپے نے تو یہ سب مجبوراً پہنا دیا تھا۔
بہرحال شامی عورتیں بہت حسین دلبر سی اور انتہائی فیشن ایبل ہیں۔ حجاب اور عبایا پہننے والیاں بھی کون سا کسی سے کم ہیں۔ نک سُک سے آراستہ چاند کی طرح چمکتی دمکتی نظر آتی ہیں۔
اب سیڑھیوں پر رُک کر ہلکا سا سپر ے کیا تھا۔ بالوں کو درست اور تھوڑا سا ہونٹوں کو لال کرنا ضروری سمجھا تھا۔ ایسا سب کرتے ہوئے دل ذرا سا بھی مطمئن نہیں تھا۔ کمبخت یہ تو اُنگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے والی بات تھی۔ مگر کرتی کیا؟ سدا سے ایسی اللّی بللّی ہوں۔
بہرحال یہ سب کرنے کے بعد بسم اللہ پڑھ کر بٹن پر انگلی رکھ دی۔


میری بیٹی کی عمر کی ہوگی وہ جس نے دروازہ کھولا تھا۔ خوبصورت، دل کش خدوخال اور سنہری بالوں والی۔ ایک اجنبی چہرے کو دیکھ کر چند لمحوں کی حیرت اُس کے چہرے پر بھی بکھرگئی تھی۔ میں نے دیر نہیں لگائی۔ فوراً ہی تعارف کروا دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ تھی کہ جب اُ س نے پاکستان کا نام سنتے ہی مجھے گرم جوشی سے پذیرائی دی اور آنے کا راستہ دکھایا۔ یہ بے حد خوبصورت اور آراستہ پیراستہ فلیٹ تھا۔ لیونگ روم میں آکر بیٹھنے تک کے وقفے میں میری نظر بازی نے مکینوں کی خوش حالی وخوش ذوقی کی کہانی سنا دی تھی۔ ثمر کی آنکھیں ہیرے جیسی چمک لئے جگمگاتی سی تھیں۔

مگر بڑا سیاپا پڑا۔ثمر انگریزی میں نری پیدل تھی۔ اس کے ہاں بس کہیں کہیں ایک آدھ جملے کی ہی گنجائش تھی۔ مگر اوپر والا بھی بڑا رحیم وکریم ہے۔ بندے کو مشکلات سے نکالنا جانتا ہے۔ سفر میں اس کے لئے خیرو برکت کے دروازے کھولنا فرض سمجھتا ہے۔
یہی بس اس وقت ہوا جب کمرے میں ایک ایسی خاتون داخل ہوئی جو اُدھیڑعمری کے باوجود ایسی حسین تھی کہ بس ٹک ٹک دیدم ودم نہ کشیدم والا معاملہ تھا۔ میرے اس درجہ جذب کو اس نے پسندیدگی سے دیکھا اور مسکرا دی۔
اُس کی انگریزی بھی لاجواب تھی۔ اتنی لاجواب کہ گمان پڑتا تھا کہ اصلا ً نسلاً انگریز ہے۔ مگر نہیں وہ ثمر یزبک کی رشتے دار تھی۔ اس کی ماں کی عزیز۔وہ اسامہ بن لادن کی پہلی بیوی کی بھی رشتے دار تھی۔ ڈھیر وں ڈھیرباتیں تو بعد میں ہوئیں۔ثمر اور میرے درمیان ترجمانی کے فرائض بھی اس نے بعد میں ادا کئے۔ پہلے ایک بڑا سنسنی خیز سا انکشاف ہوا جو کسی طور ایک دلچسپ سی کہانی سے کم نہیں تھا۔
تو قصّے کاآغاز1973ء کی عرب اسرائیل جنگ جسے یوم کپور کی جنگ بھی کہتے ہیں سے ہوا۔ زمانہ بھٹو کا تھا جو عر ب ممالک کے کم وبیش سبھی حکمرانوں کے یاروں کے یار تھے۔ درخواست شام کے حافظ الاسد کی جانب سے آئی تھی کہ انہیں چند بہترین جنگی ہوا بازوں کی ضرورت ہے۔
اِس جنگ میں حصہ لینے کے لئے پاکستان ایئر فورس کے چند جیالے پائلٹ شام سدھارے جنہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کیا اورکسی حد تک فتح کو ممکن بنانے میں مدد دی۔ اسرائیل کو اپنی ہزیمت کااعتراف کرنا پڑا۔
یہاں تک تو جو واقعہ تھا اس سے میں خود بھی تھوڑی سی واقف تھی۔ مگر آگے جو سننے کو ملا وہ بڑا دلچسپ تھا۔
جنگ کے بعداِن ہوا بازوں کو حافظ الاسد نے اپنے صدارتی محل میں خصوصی ڈنر پر مدعو کیا۔ یہ ایک طرح دوست ملک کے لئے اظہار محبت تھا۔ اظہار ممنونیت تھا۔اسد فیملی کے چند افراد بھی مدعو
تھے۔ حافظ الاسد کی بیوی کی ایک کزن بھی تقریب میں مدعو تھی۔
اور یہ کزن امل وہی خاتون تھیں۔پاکستانی ہوا بازوں میں تین چار بہت وجہیہ صورت، دراز قد اور بڑی ڈیشنگ قسم کی شخصیت کے مالک تھے۔ پتہ چلا کہ ایک پاکستانی پائلٹ تو ایسا بھایا کہ میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر لیا۔ میں نے نام جاننے کی بہتیری کوشش کی مگر انہوں نے گریز کیا۔ پاکستانی شادی شدہ دو بچوں کا باپ تھا۔اِ س کہانی کا انجام تو بہرحال المیہ ہی تھا۔ تاہم اس کے طوفانی قسم کے عشق کی داستان بہت عرصے تک خاندان میں گردش کرتی رہی۔
ثمر کا فیملی پس منظر علوی فرقے سے ہے۔ وہ جبلہ Jablehایک ساحلی علاقے جو لاطاکیہ کے قریب ہی واقع ہے 1970ء میں انتہائی دولت مند اور صاحب ثروت Alawiگھرانے میں پیدا ہوئی۔ پانچ بھائیوں اور تین بہنو ں میں سب سے منفرد انقلابی سوچ وذہن رکھنے والی باغی سی بچی تھی۔
اپنے بھائیوں کے مقابلے میں اُس کا طرز زندگی کیوں مختلف ہے؟ نوک ٹوک کا سلسلہ لڑکیوں کے ساتھ زیادہ کس لئے ہے؟ ترجیح لڑکوں کو کیوں دی جاتی ہے؟
اور وہ سولہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگ گئی تھی۔
میں آزادی چاہتی تھی۔ اس ماحول میں میرا دم گھٹتا تھا۔ ہمارے روایتی معاشرے میں یہ بڑی قبیح حرکت تھی۔ ایک لڑکی کے لئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ میرے ساتھ کوئی مرد ہے۔ جو کہ بالکل غلط تھا۔ مجھے تنہا اپنا مستقبل خود بنانے میں دلچسپی تھی۔ میں رائٹر بننے کی خواہش مند تھی۔لکھنا چاہتی تھی۔ معاشرے کے دو غلاپن اور منافقتوں پر کھل کر بات کرنے کی متمنی تھی۔
”مجھے اعتراف ہے کہ اپنی فیملی کے لئے میں اذیت اور شرمندگی کا باعث رہی۔ اکثر مجھے ندامت بھی محسوس ہوتی تھی۔“
انیس سال کی عمر میں وہ ایک بار پھر بھاگی۔ کچھ عرصہ اکیلا رہنے کی بعد اُس نے شادی کر لی اور پیرس چلی گئی جہاں بیٹی بھی پیدا ہوئی۔ شادی صرف چار سال رہی۔دو سالہ بیٹی کے ساتھ وہ پھر دمشق میں آگئی۔ بہت سے کام شروع کئے۔ ڈرامے، فلم سکرپٹ، ڈاکومنٹری بنانے کاسلسلہ۔ وویمن آف سیریا جیسے پرچے کی ادارت۔ انتون مقدسیAnton Maqdesi شام کے عظیم مفکر، سیاست دان اور انسانی حقوق کا علمبردار جیسی شخصیت پر ڈاکو منٹری بنائی۔ ہیومن رائٹس اور وویمن رائٹس کے لئے کام شروع کر دیا۔
یہ اُس کے لئے کس قدر مشکل وقت تھا۔ ناولوں کی اشاعت سے قبل بہت سے دیگر شعبوں میں کام کرنے سے گو اُس نے اپنے معیار زندگی کو غربت سے تھوڑا سا اوپر ضرور رکھا تاہم اپنے خاندان اپنے بیشترعزیزو ں سے کسی قسم کا کوئی میل جول نہیں رکھا۔ شہر سے باہر مضافاتی علاقے میں ایک کمرے کے گھر میں رہتی رہی۔
اُس کے ناول طفلت اس سماء Tiflatas Sama (آسمانی لڑکی) اور سلسلsalsal نے بڑی دھوم مچائی۔ اِن ناولوں نے شامی معاشرے میں موجود منافقتوں، دوغلا پن اور دیگر بہت سی قباحتوں کو عریاں کیا۔
دمشق میں گزرے میرے خوبصورت دنوں میں ایک مزید حسین دن کا اضافہ ہوا۔ دل میں سدا بسیرا کرنے والی یادوں میں ایک مزید یاد شامل ہوئی۔ اُن کے گھر اُس دن ملقوبہ پکاتھا۔ چاندنی کی سینی میں اُس کی خوش رنگی بہت بھائی۔ ذائقہ بھی کمال کا تھا۔ زیتون کے کالے اور سبز پھل میں جھانکتے کھیرے کے قتلوں اور قہوے نے لطف بڑھایا۔
دوپہر گزرنے اور شام اُتر آنے کا پتہ بھی نہ چلا۔ جب میں رخصت ہوئی۔ میں نے ثمر کا سیل نمبر اور ای امیل ضرور لیا۔ تاہم پاکستان آنے کے بعد کبھی اُس سے رابطہ ممکن نہ ہوا۔
اُس کے بارے میں مزید کچھ جاننے کی تحریک ڈاکٹر ہدا کی اُس میل سے ہوئی تھی۔ جب جنگ کے دنوں میں وہ مجھ سے رابطے میں تھی۔ دو لائنوں کی خبر نے بھولی بسری یاد کو تازہ کر دیاتھا۔
کچھ احمد فاضل، کچھ ڈاکٹر ہدا اور کچھ انٹرنیٹ سے میں نے اُس کے بارے مزید جانا۔
وقت کے ساتھ ساتھ وہ زیادہ تلخ ہوتی گئی۔ انقلاب اور جمہوریت کی باتیں کرنے لگی۔ حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگی تھی۔ 2011ء میں جب مزاحمت شروع ہوئی۔اُس نے بلندآہنگ زبان  میں صرف ایک نعرہ لگایا تھا۔
یہ انقلاب ہوگا۔ غریب کا امیر کے خلاف، کمزور کا طاقتور کے خلاف اور جمہوری روایات کا آمریت کے خلاف۔
2012ء میں اُس کی بڑی منفردقسم کی کتاب A Woman in the Cross Fire مارکیٹ میں آئی۔ یہ ناول نہیں ڈائری ہے۔ کسی ڈراؤنے خواب کی مانند یہ کتاب اس جدوجہد کی کہانی کو پرت در پرت کھولتی ہے۔ جب وہ اسد حکومت کے خلاف مظاہرین کے ساتھ سینہ تان کر کھڑی تھی۔پن pen انٹرنیشنل سوسائٹی ایوارڈ کمیٹی نے اسے ایوارڈ سے نوازا۔احتجاجی مظاہروں میں وہ مارکھاتی، بے عزتی کرواتی۔ متاثرین کے زخموں پر پھاہے رکھتی۔ اسپتالوں میں بھاگتی، اخبارت کو مضمون بھیجتی۔ بیٹی کے ساتھ جگہیں اور گھر تبدیل کرتی تھی۔
اس کے شب روز مظاہرین کے انٹرویو لینے، اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے، گلی محلوں میں متاثرین کو چیزیں فراہم کرنے اور یہ سوچنے کہ وہ اپنے ملک اور اس کے لوگوں کے لئے مزید کیا کر سکتی ہے؟جیسی سوچوں اور کاموں میں گزررہے تھے۔
یہی وہ دن تھے جب اُسے دھمکیاں بھی ملتیں۔


چاقو ہمیشہ ایک سہارے کے طور پر اس کے ساتھ ہوتا۔ ایسے ہی دنوں میں سیکورٹی فورسز کے چند لوگ اس کے گھر آئے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور اُسے ایک ایسی جگہ لے گئے جسے وہ بالکل نہیں جانتی تھی۔ اُس کی کلائی کو جلا یا گیا۔ زدوکوب کیا گیا۔ ذرا سا ہوش سنبھالنے پر اس نے اپنا چاقو نکالا اور تشدد کرنے والے پر پل پڑی۔ مرد نے دھکا دے کر اُسے زمین پر گرایا۔ کچھ دیر بعد اُسے اٹھایا گیا اور دو آدمی اُسے ایک اور سیل میں لے گئے جہاں اس نے تین نوجوان مردوں کو دیکھا۔ اُن کے ہاتھوں پر دھاتی شکنجے چڑھے ہوئے تھے۔ اُن کی انگلیوں کے ننگے سرے زمین کو چھوتے تھے۔ انہوں نے اُسے ایک جگہ کھڑا کیا۔ ایک نے اُس کا سر اوپر کیا۔ ایک ماسک سا جس میں سے صرف اس کی ناک باہر تھی پہنایا۔اس کے بعد وہا ں کیا تھا؟ چیخیں۔ کراہیں، دردناک منظر، خوفناک سانس کو روکنے والے لمحے۔
ہمت تو اس نے ان سب کے باوجود نہیں ہاری تھی۔
ہاں مگر وہ بڑا کٹھن وقت تھا۔
دراز قد، خوبصورت، حسین آنکھوں اور سرخ وسفید رنگ والی بیٹی ماں کی حرکتوں سے بہت عاجز تھی۔ سکول میں تھی تو کلاس فیلوز کے طعنے سنتی تھی۔ پاؤں پٹخ پٹخ کر وہ کہتی۔ مظاہروں میں جانے کی بجائے گھر میں رہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ گھر لاک کر جاتی۔
مجھے اپنی ماں پر فخر ہے۔ مگر میں ایسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی ہوں جو خوف اور تناؤ سے بھر ی ہوئی ہو۔ انقلاب کے لئے خود کو مصیبتوں میں ڈال لو۔ مجھے ایسا انقلاب نہیں چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس سے ناراض رہتی تھی۔
ثمر لکھتی ہے۔ گزشتہ جمعے کو جب میری بیٹی کو اطلاع ملی کہ اُ س کی ماں ہٹ لسٹ پر ہے۔ اُس نے شدیدغصیلے انداز میں کہا کہ میں ٹی وی پر جا کر صدر سے اپنی غیر مشروط معافی کااعلان کروں۔ انکار پر جب ظالمانہ ہتھکنڈے میری بیٹی کے خلاف استعمال کرنے کی دھمکی ملی۔ اُس نے مجھے ہلایا اور رلایا ہی نہیں بلکہ اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ بیٹی میرے لئے دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے۔
فرانس بھاگنے اور وہاں پناہ لینے کا فیصلہ میرے لئے بہت کٹھن تھا۔ شام کو چھوڑتے ہوئے مجھے افسوس نہیں گہرا دکھ تھا۔ کرب تھا جو میرے اندر سے آہوں اور آنسوؤں کی صورت نکلتا تھا۔ مجھے لگتا تھا جیسے میں اپنے ملک سے بے وفائی کی مرتکب ہو رہی ہوں۔
مجھے لگتا تھا جیسے میرادم گھٹ جائے گا جیسے میں شام سے دور جا کر زندہ نہ رہوں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ میں دنیا گھومنے کی خواہش مند تھی۔ فرانس ہمیشہ سے میرا بہت پسندیدہ ملک ہے۔ میں بار بار یہاں آنا یہاں رہنا پسندکرتی تھی۔ مگر میں نے بہت آنسوؤں میں خود سے کہا تھا۔
”ایسے اور اِن حالات میں تو میں نے کبھی آنے کی خواہش نہیں کی تھی۔“
بہت دنوں دکھ کے الاؤ میں جلنے کے بعد میں نے خود کو سنبھالا۔ حوصلہ دیا۔ خود کو اُمید کی ایک نئی راہ دلائی۔

ہمیں ابھی انتظار کرنا ہے۔ اپوزیشن بھی اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے۔ اس میں غلط لوگ شامل ہوگئے ہیں۔ بڑی طاقتوں کے مفادات کا ٹکراؤ ہونے لگا ہے۔اِس وقت صورت بہت گھمبیر ہے۔

حقیقی انقلاب تو اُس وقت شروع ہوگا جب اسد اپنے تخت وتاج سے اُترے گا۔ عورتوں کی حقیقی آزادی اسی وقت ممکن ہوگی ایک تعلیم یافتہ اور سیاسی طور پر بالغ معاشرے کی تکمیل تبھی ممکن ہو سکے گی۔
2015ء میں وہ پھر اپنے مادر وطن گئی۔ خیر خواہوں نے کہا مت جاؤ۔
”نہیں میں بہت مضطرب ہوں۔بہت بے چین ہوں۔ وہ ترکی کے بارڈر سے باڑ کے ایک چھوٹے سے موگھے سے رینگ کر اس سر زمین پر داخل ہوئی جو اُس کی اپنی تھی۔ جس کے لوگ اس کے اپنے تھے۔
یہاں فری سیرئین آرمی اور ISIS کی کہانیاں تھیں۔ سپاہیوں، بچوں، عورتو ں اور مردوں کے دکھوں کی کہانیاں اور درد بھری داستانیں تھیں۔
لاشیں اٹھاتے گھروں کو برباد ہوتے، بچوں کو مرتے دیکھنا کتنا کٹھن تھا۔My Journey to the Shattered Heart of Syria اس کی روزمرہ یادداشتوں پر مبنی دستاویزی کتاب ہی نہیں بلکہ ایک ادبی شاہ پار ہ ہے۔
تقریباً ایک سال کے عرصے میں اس نے تین بار ترکی کے راستے سرحد پار کی۔دو بار اندر داخلے کی کوشش بہت اذیت ناک تھی۔ خاردار تاروں نے کمر کو لہولہان کر دیا تھا۔ اِن ملاقاتوں نے اُسے جہادیوں کے اصلی چہرے دکھائے۔ غیر ملکی شازشوں کی گہرائی سے آگاہ ہوئی۔
بہت سے سنجیدہ اور سمجھدار شامیوں کی طرح وہ بھی اِس صورت سے دل گرفتہ اور پریشان تھی کہ اسد حکومت کے جانے اور جہادیوں کے آجانے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ یہ صرف ایک آمریت سے دوسری بدترین تنگ نظر اور متعصب آمریت کے دوزخ میں گرنے والی بات ہوگی۔

احرار ال شام اور القاعد ہ کے مقامی لیڈران سے اُس کا ملنا، ان کے خیالات ونظریا ت سے آگاہی بہت سے حوالوں سے اس جیسی روشن خیال خاتون کے لئے بہت مایوس کن تھی۔وہ عورتوں اور اُن کی آزادی کے حوالے سے بے حد متعصب تھے۔ شام کے خوبصورت چہرے کے پیچھے اس کے سٹرانڈ مارتے اندر نے ویسے ہی غلاظتوں سے بھرے رہنا تھا۔ بس تھوڑاسا نوعیت تبدیل ہو جاتی۔ اُسے تو یہ بھی احساس ہوا کہ یہ جنگ تو غیر ملکیوں کی ہے۔ متشدد پسند لوگوں کی جن کی مدد بھی نہیں کی جاسکتی۔ عام سادہ لوح شامی تو بس اسی نظرئیے پر ایمان رکھے ہوئے ہیں کہ یہ سب اس لئے ہوا کہ اللہ کی رضا تھی اور اللہ ہی بہتر کرے گا۔
ایک اور جگہ اُس نے لکھا۔
بوسنیا کی لڑائی کو دنیا نے سنجیدگی سے دیکھا اور محسوس کیا جب کہ شام کے دکھ درد کو محسوس کرنے کی بجائے بڑی طاقتوں نے اپنے اپنے مفادات کی آڑلی۔
2012ء تک اُسے احساس تھا اور شاید جب بھی اس کی بات چیت باغیوں کے زیر تسلط علاقوں کے اسلامی امیروں سے ہوئی۔ اس نے یہی جانا کہ وہ سول سیکولر ریاست کے قیام کو پسند کریں گے۔ یہ احساس تو اُسے بعد میں ہوا کہ سب تو ان کی چالیں تھیں۔ ہتھیارکی اور جنگی سامان لینے کی کہ وہ تواپنے زیر تسلط علاقوں میں نہ رشوت ختم کر سکے اور نہ جرائم۔ دوسرے اور تیسرے چکروں میں یہ تلخ حقائق اور کھل کر سامنے آئے۔احرار ال شام کے امیر ابو احمد نے کس قدر رعونت سے کہا تھا۔
”نقاب کے بغیر کوئی عورت باہرنہیں آسکتی۔ علو ی تو شام میں رہ ہی نہیں سکتے۔ دو روز اور اسماعیلی بھی۔ ہاں اگر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو ٹھیک۔“کچھ ایسا ہی رویہ القاعدہ کے لیڈ ر کا تھا۔جس نے اُسے ملنے کے بعد کہا تھا۔
”تمہاری بہادری کہ تم ہم سے ملنے آئیں۔“
”آپ اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں؟کیا بہادر نہیں؟“

مسلسل بیرل بموں سے متاثرین کے دکھوں کی تفصیلات جہاں ہر آن وہ موت کی سولی پر لٹکے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے دھرتی موت کا ہی راگ الاپتی ہے۔ اسی کی عظمتوں کے گن گاتی ہے اور اسی کو اپنا فاتح قراردیتے ہوئے اس کے قدموں میں بچھی جاتی ہے۔
پہاڑی علاقوں کے غاروں میں پناہ لینے والے ہزاروں سالوں کے اِس تہذیبی ملک کے شہری ایک بار پھر پتھروں کے زمانے میں پہنچ گئے لگتے ہیں۔
اُس نے اپنی گیلی آنکھوں کو پوروں سے صاف کرتے ہوئے خود سے کہا تھا۔
وہ حکومتی نظروں میں ہی معتوب نہ تھی۔ بلکہ جہادی اور باغی قبائل کو بھی مطلوب ہو گئی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں کہ اس نے خود کو کیوں مصیبت میں ڈالا؟ اس نے قدرے حیرت اور دکھ سے کہا۔
”مصیبت میں ڈالنا۔ یہ کیا بات ہوئی؟ کیا یہ میرا ملک نہیں؟یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے جنم لیاا ور بڑھی پلی۔ میرے لوگ جو زبان بولتے اور سمجھتے ہیں وہی میری زبان ہے۔ مجھے کیا چیز خوف زدہ کر سکتی ہے۔“
اس کے بار بار کے چکروں نے اُسے سمجھایا تھا کہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔
یہ جگہ جو کبھی بہت پرلطف روایات اور محبتوں سے بھری ہوئی بڑی ہی پرامن سی تھی ویسی نہیں رہی۔ اب یہاں خوف زدہ، ڈرے سہمے ہوئے لوگ ہیں۔
یہ مذہبی خانے موجود تو پہلے بھی تھے پر اتنے گہرے کبھی نہ تھے۔ ہم جب چھوٹے چھوٹے تھے
تو یہ سنی، یہ شیعہ، یہ علوی۔ یہ دروز کہیں نہیں تھا۔ ہم سب شامی تھے۔
ISIS کے بارے میں وہ برملہ کہتی ہے کہ یہ غیر ملکیوں کی فوج ہے۔ پھر ذرا واشگاف الفاظ میں کہتی ہے کہ راہزنوں اور لٹیروں کے ٹولے ہیں۔
اُسے تو مغرب کی اُن نوجوان مسلمان لڑکیوں پر بھی شدید غصہ ہے۔ جو مغرب سے ISIS میں شمولیت کے لئے سفر کر کے آتی ہیں۔
یہ نوجوان لڑکیاں جو مغربی معاشرے میں پیدا ہوئیں وہیں بڑھی پلی۔ انہیں شام کے بارے کچھ علم ہی نہیں۔ عرب جنگجو ہیرو کی مردانہ وجاہت اور شجاعت اُن کی فینٹسی ہے۔ گھوڑے پر سوار بندوق کے ساتھ جن کی کہانیاں انہو ں نے پڑھی اور سنی ہوں گی۔ مغر ب کی پر سکون زندگی جس سے انہیں بوریت ہوتی ہے۔ تھرل اور کچھ نیا کرنے کی آرزو دھکیل کر یہا ں لے آتی ہے۔
مجھے خوف ہے کہ اگر دنیا شام کے لوگوں کے مسائل نہیں سمجھے گی اور حکومت گرانے میں حقیقی لوگوں کی مدد نہیں کرے گی تو ایک اور بڑا خطرہ جنم لے گا۔ یہ میری اُمید بھی ہے اس میں وہ خطرات بھی مضمر ہیں کہ اسد حکومت ایران، روس سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ امریکیوں اور یورپی لوگوں کی حمایت کے لئے کوشاں ہے۔ مغرب ابھی اس معاملے میں اتنا واضح نہیں۔ بٹا ہوا ہے۔ تاہم وہ اس کے اقتدارکے لئے اس کی مدد کر رہے ہیں اور یہی چیز خطرناک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply