• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہمارا معاشی نظام اور اسد عمر کی رخصتی۔۔۔۔ڈاکٹر صدیق العابدین

ہمارا معاشی نظام اور اسد عمر کی رخصتی۔۔۔۔ڈاکٹر صدیق العابدین

گئے بچپن میں ، گرمیوں کی چھٹیاں گاوں میں گزارنے کا معمول ہوا کرتا تھا۔ شہر کی مصنوعی زندگی سے دور گاوں کی سادہ زندگی کا لطف اور بچپن کی ان گنت یادیں، آج بھی میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔

ایسے ہی کسی دن کوئی وجہ رہی ہو گی کہ گاؤں کی دکان پرجانےکا اتفاق ہوا۔ کچھ دور ایسا تھایا کچھ بھول پن، کہ اگر جیب میں ایک روپیہ کا نوٹ بھی ہوتا تو خود کو دنیا کا رئیس ترین سمجھتے تھے۔ اسی زعم میں تھے کہ وہاں ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک عورت دوپٹے کے پلو میں کچھ گندم کے دانے باندھ کر لائی ، وزن کروایا اور اس کے عوض کچھ سامان خریدا اور واپس چل دی۔ یہ سب ہمیں کچھ ہضم نہیں ہوا کہ پیسے تو دیے نہیں اور سودا سلف کیونکر خریدا۔ دوڑے دوڑے گھر آئے اور آکر سارا قصہ والد صاحب کے گوش گزار کیا۔ دیگر بچوں کی طرح اس وقت ہماری  معلومات عامہ کا واحد منبع بھی والد صاحب کی ذات تھی ۔انہوں نے بڑے آسان الفاظ میں معیشت کی بنیادی تعلیم ایک نشست میں دی جو کہ آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے مسکرا کرجیب سے نوٹ نکال کر اس پر لکھی عبارت پڑھنے کو کہا، لکھا تھا “حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا اور بینک دولت پاکستان حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کریگا” اتنی ثقیل اردو ہمارے دائیں بائیں سے نکل گئی مگر جب سمجھ آئی گویا کرنسی نوٹ پر ہمارا اعتماد ہی اُٹھ گیا۔ اس دن سمجھ آئی کہ اس کا مطلب ہوا کہ ہم نے ریاست پاکستان کو اس نوٹ کی مالیت کے برابر کچھ خدمات دیں جس کے عوض اب ہم اتنی مالیت کا فائدہ طلب کرنے کے حقدار ٹھہرے۔ گویا اگر اس کے برعکس آپ نے ریاست کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایاتو آپ نہیں بلکہ کوئی اور اس کا اصل حقدار ہوا۔ اس دن نہ صرف قومی معیشت کی بنیادی اکائی کا علم ہوا کہ جیسے ایک گھر کا نظام معیشت، آمدنی اور اخراجات کے توازن سے چلتا ہے، بالکل اسی طرح کسی قوم یا معاشرے کے معاشی وجود کے لیے ضروری ہے کہ اس کی برآمدات کا تناسب درآمدات سے بہر صورت  زیادہ ہواور یہی ملکی معیشت کی بنیادی اکائی ہے۔معیشت کا یہ سبق جو میں نے اس دیہاتی عورت سے سیکھا ، ریاضی کے ضخیم سوالوں اور مشقوں نے کبھی نہیں سکھایا۔

ہمارے نظام ِتعلیم کی دیگر بہت سی  قباحتوں کے ساتھ ساتھ،  ایک سب سے بڑا المیہ  یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم صرف نوکر پیدا کرسکتا ہے۔ یہ غیر دانستگی میں ہوا یا یہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کی ایک سازش ہے کہ ہم نے ایک ایسی نسل تیار کی ہے جو معاشرے میں نوکریاں پیدا نہیں کرتی بلکہ صرف اس سے مستفید ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور نوٹوں کے حصول کی جنگ میں صرف خریدار کی حیثیت رکھتی ہے۔جب خریداری کی بھوک مقامی پروڈکٹ سے نہیں بھرتی تو دنیا بھر سے نت نئی چیزیں غیر ضروری طور پر درآمد کرکے اپنے گھر بھرتے چلے جاتے ہیں۔

زیادہ دور کیوں جاتے ہیں گزشتہ سال پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں ۔ہم جیسے مقروض اور غریب ترین ملک نے گزشتہ سال 60ارب ڈالر کی تو صرف درآمدات کی ہیں۔ان میں ضروری کتنی تھیں اور غیر ضروری کتنی تھیں، اور کیسے اس رجحان کو کم کیا جاسکتا ایک علیحدہ مضمون ہے ۔ یہاں آپ کی آسانی کے لیے محض یہ بتاتے چلیں کہ اس کے مقابل گزشتہ سال ہماری برآمدات کا کل حجم 23ارب ڈالر تھا۔ درآمدات اور برآمدات کے اس تفاوت کو ہی اصل میں تجارتی خسارہ کہتے ہیں۔گویا ایک سال کا خسارہ ہوا 37ارب ڈالر اور یہ سارا خسارہ کہاں سے پورا کیا جاتا ہے؟بیرونی دنیا سے قرض میں ڈالر لے لے کر اور یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہوتاچلا جارہا ہے ۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ دفاعی بجٹ کا رونارونے والے حیران ہوں گے کہ گزشتہ سال 12ارب ڈالر دفاع پر خرچ ہوئے جس میں دفاعی سازوسامان اور سات لاکھ فوج کی تنخواہیں وغیرہ سب شامل تھیں جبکہ 24ارب ڈالر محض روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور کم رکھنے پر صرف ہوئے۔

اس قومی تن آسانی کو یہی نااہل سیاست دان استعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔ جو قرض برآمدات بڑھانے کی شرط پر لیا جاتا ہے، غیر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ دیا جاتا ہے جہاں کمیشن بھی کھلا ہو ، عوام سے داد بھی ملے ، ووٹ کے حصول اور الیکشن جیتنے میں بھی آسانی ہو۔ قوم کے مستقبل کی فکر کسے ہو، کہ اس اشرافیہ کا تعلق خواہ کسی جماعت سے ہو یا اسٹبلشمنٹ سے ، اپنا سرمایہ باہر محفوظ کیے جاتی ہے اور اپنی اگلی نسل کو اس نوکرپیشہ قوم پر مسلط رکھنے کی تیاری بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات نہ ہوتی تو پانچ سالہ منصوبہ جو ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوا، کسی نہ کسی شکل میں جاری رہ سکتا تھا۔ حکومتیں بدلتی بھی رہتیں ، ریاست تو اپنی جگہ تھی، فنانس کے محکمے تھے، بیوروکریسی تھی، عدالتیں تھیں، یہ پابند کیا جاتا کہ ہر پانچ سال بعد تمام اہداف اور وسائل کا تعین ہو ، آمدنی خرچ کا حساب ہو،تمام گزشتہ قرضہ کی ادائیگی ہو، ورنہ اگلے پنج سالہ میں کفایت شعاری ہو تاکہ سبق حاصل کیا جاسکے۔ جنوبی کوریا نے یہی منصوبہ ہم سے لے کر دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں اپنی جگہ بنا لی اور ہماری اشرافیہ نے قرض کی مے پلا پلا کر پوری قوم کو مدہوشی کی نیند سلادیا۔ بقول شاعر،

قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

یہ ہیں ان معاشی حالات کی  اصل وجوہات ۔ ہمیں نام نہاد دانشوروں اور سیاسی کینہ پروروں کی طرح سنسی خیز سرخیوں میں ذرا دلچسپی نہیں کہ ناظرین وہ دیکھیں ڈالر کی بڑھتی ہوئی سطح ، مہنگائی کا طوفان ، کہاں گئیں لاکھوں نوکریاں وغیرہ وغیرہ۔ کتنا مشکل تھا کہ قوم کو ذیلی مسائل میں الجھا کر  رکھنے کی بجائے، اس  آنے والے ناگزیر بحران سے  آگاہ کرتے مگر شاید ان کی اپنی ذہنی سطح صرف نجومیوں کی طرح تکے لگا کر پیشنگوئیاں کرنے تک محدود تھی۔

ایک گھر کی دو نسلیں قرضہ لے لے کر پوری زندگیاں گزار گئیں ، اب تیسری نسل جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نوکر ہوئی اور اُسے سب نے نشانے پر رکھ لیا کہ اب اُتارو نا قرضہ ۔اسی طرح موجودہ حکومت سے کیا گلہ کہ یہ اجتماعی غیرت اگر ذرا پہلے جاگتی تو زیادہ بہترہوتا۔

دوسری طرف جب سے موجودہ حکومت آئی ہے تب سے یہ بیانیہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں بیرونی قرضہ 6 ہزارارب روپے سے 30ہزار ارب روپے تک جاپہنچا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ معیشت کا جتنا شعور آج عوام میں اجاگر ہوا ہے شاید ہی کبھی ہوا ہے۔ مگر دوسری طرف یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جتنا قرضہ پاکستان نے پہلے 60سالوں میں لیا تھا۔ اس کا آدھا اس حکومت نے محض 7ماہ میں لے لیا ہے اور ابھی اور لینے کی بھی تیاری ہے۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ آپ کا ارادہ گزشتہ حکومتوں کی طرح پاکستان کو ایک بند گلی کی طرف دھکیلنا نہیں ہے بلکہ آپ واقعی اس رقم کو بتدریج برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر دوسری طرف آپ کے قول و فعل کا تضاد یہ باور کرانے سے قاصر ہے۔

اسد عمر صاحب کو بھی اُن کے ماضی کے دعوے لے ڈوبے ۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ اسد عمر اسمبلی کے فلور پر یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے اتنے ارب قرض بڑھ جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اقتدار میں آنے کے بعد اچانک سے ان پر منکشف ہوا کہ ڈالر کو مصنوعی طور پر نیچے رکھنے سے ملکی معیشت کو سالانہ کتنا نقصان ہوا اور اس کے تدارک کے لیے پہلا کام ڈالر کی قدر بڑھا کر کیا ۔پہلے پٹرول پر ٹیکس انہیں گراں گزرتا تھا تو پھر ناگزیر معلوم ہونے لگا۔ آئی ایم ایف کی طرف نہ جانے کے دعوے پھر اس پر نظر ثانی؟ آئی ایم ایف نے قرض میں امریکی شہ پر تاخیر کی یا سی پیک کی سزا دی، یہ بھی ایک ذیلی حقیقت ہے، جسے فراموش کرنا بے وقوفی ہوگی، مگر انہیں نون لیگ نے گردشی قرضے اور واجب الادا بل تھما کر جس بند گلی میں دھکیل کر اقتدار ان کے حوالے کیا وہ بھی ایک کڑوا سچ ہے اور اس سیاسی دھکم پیل کا خمیازہ عام عوام بنے۔ دوسری طرف یہ تحریک انصاف کی نابالیدگی تھی یا خوش فہمی، کہ انہوں نے اس حسنِ سلوک کی نہ توقع کی تھی اور نہ تیاری۔

البتہ ایک قابل قدر بات یہ ہے کہ اقتدار میں آتے ہی انہوں نے غیر ضروری درآمدات کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی کئے اور شعور بھی اجاگر کیا مگر دوسری طرف دو تین بنیادی باتیں بھول گئے۔ اس درآمدات پر منحصر ملک میں کئی لاکھ لوگوں کا مستقبل درآمدات سے منسلک تھا۔ جاپانی گاڑیوں کی ایک مثال لے لیں اور دیگر بھی کئی ، ان کے لیے متبادل انتظام کرنے تک ایسے اقدامات کو موقوف کیا جاسکتا تھا۔ دوسری طرف درآمدات پر ڈیوٹی اور ڈالر کی قدر کے اضافے سے خام مال بھی متاثر ہوا جسے استعمال کر کے ہی تو برآمدات بڑھانی تھیں۔ دوسرا یہ سب اتنا اچانک کیا گیا کہ اس سے جو بے یقینی کی فضا پیدا ہوئی  اس سے نہ صرف معیشت کا پہیہ رک گیا بلکہ سب نے اپنا سرمایہ روک لیا اور سٹاک ایکسچینج اور افراط زر زمین پر آ رہے۔
قابلِ قدر بات یہ ہے کہ تجارتی خسارہ کافی حد تک کم کیا اور فارن کرنسی ریزرو بہت بہتر کیا مگر سرمایہ دار کا اعتماد حاصل کرنے میں وقتی طور پر ناکام رہے۔

گزشتہ کئی سال سے اس ملک کو جس ہیجان کی کیفیت میں رکھا گیا وہاں قوم تھوڑی بہت خواب غفلت سے بیدار تو ہوئی مگر دوسری طرف بیرونی سرمایہ کار بھاگ گیا۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں آپ کسی ایسی سو سائٹی میں پلاٹ لینا پسند کریں گے جس کی آدھی انتظامیہ پر بدعنوانی کے الزام ہوں اور باقی آدھی فرارہو؟ اس میں شک نہیں کہ کرپشن کا سدباب ہونا چاہئے مگر اس پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور جانبدارانہ احتساب بالکل ایسے ہی بے جیسے پہلے آپ اپنے بچے کی چھوت کو بیماری کا پورے محلے میں ڈھنڈورا پیٹیں اور پھر اگلے دن وہیں رشتہ لینے چل پڑیں۔

منیر نیازی کے بقول کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی، معاشی ترقی کے لیے جس استحکام کی ضرورت تھی وہ ہرگز فراہم نہیں کیا گیا اس لیے اگر گزشتہ حکومت نے بھی وہ قرض بالفرض نیک نیتی سے ہی لیا ہو، اسے معاشی طور پر پنپنے کا موقع بہر حال نہیں دیا گیا اور قرض اس ریاست پر بوجھ کی صورت میں لدتا چلا گیا اور نشانہ عوام بنے۔

آج اسد عمر کو ہٹا کر اُسی عدم استحکام کی روایت کو مزید ہوا دی گئی ۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس مہنگائی اور دگرگوں معاشی حالات کے ذمہ دار کیا واقعی اسد عمر ہیں یا ہمارے معاشرتی رویے؟ برآمدات میں اضافہ تو دور کی بات ، ہم یا تو جاہلیت کی وجہ سے یا شعوری طورپر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس معیشت کا تمام تر دارومدار اس کسان پر ہے جو چند ہزار کا بیچ خرید کر اپنی محنت اور پسینہ بہاکر کئی لاکھ کی زرعی پیداوار حاصل کرتا ہے اور وہ زرمبادلہ کے وسائل پیدا کرتا ہے جس سے ہم اپنی درآمدات کا قرض چکاسکیں۔اس معیشت کا اصل معمار وہ مزدور بھی ہے جو چند سو کے خام مال کو اپنے ہنر اور فن سے کئی ہزار کے پروڈکٹ میں بدل دیتا ہے تاکہ برآمدات کی مَد سے وہ ڈالر کمائے جاسکیں جو ہمارے نظام کو رواں رکھ سکے، یا وہ بیرون ملک پاکستانی جو اپنا خون پسینہ ایک کر کے غریب الوطنی کاٹ کراس ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہاہے۔

جیسے ایک گھر میں کمانے والے کو اکثر گھر کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور دیگر کئی لوگ اس کے کپڑے، جوتوں ، کھانے پینے کا خیال رکھ کر اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں تا کہ وہ اپنا کام پورے انہماک سے کر سکے اسی طرح ہم ملازم پیشہ لوگوں چاہے وہ ڈاکٹرہوں، پولیس والے ہوں، جج ہوں، سرکاری مشینری کا حصہ ہوں، غرض کسی بھی حیثیت سے ہم اسی معاشر ے کی ترقی کی ضمانت ہر گز نہیں ہیں بلکہ صاف الفاظ میں بوجھ ہیں کیونکہ ہمارا اصل کردار گھر کے سربراہ کی دیکھ بھال اور تعاون تھا۔اور ہمارا کام معیشت کے جن اصل معماروں کے جوتے سیدھے کرناتھا اُنہیں ہم نے جوتے کی نوک پر رکھ لیا ہے۔

غرض اس طبقاتی نظام میں جو جتنا ناکارہ ہے وہ اتنے ہی بڑے عہدے پر فائز ہے۔ آپ یا ہم ، اپنے تئیں بہت ذہین اور کارآمد ہوں گے مگر معاشی نظام میں سرکاری ملازم کی وہی حیثیت ہے جو ہم نے یہاں بتائی ہے۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی ترقی یافتہ ملک چلے جائیں اور وہاں اپنے طورپر سروے کرلیں، ہزاروں میں کوئی ایک آدھ سرکاری ملازم ہو گا مگر معیشت پھر بھی ہم سے کہیں بہتر چل رہی ہے۔ امریکہ میں گزشتہ کئی ماہ سے متعدد سرکاری مشینری جبری چھٹی پر ہے مگر ڈالر کی قیمت برقرار ہے ، نظام زندگی رواں ہے۔

میرا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ملازمت کوئی بری چیز ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے وہی ملازمت کارآمد ہے جو مزید ملازمت کے مواقع لائے۔ اسے عرف عام میں کاروبار کہتے ہیں۔ہمارا استاد ، جو کسی معاشرے کا معمارہوتا ہے، آج کل طلباءکو مچھلی پکڑ کر دیتا چلاجارہا ہے۔ مگر کبھی مچھلی پکڑنے کا فن سکھانے کا روادار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طالب علم ایم بی اے کرکے، اگلے دن نوکری کے حصول کے لیے جوتے چتخاتا پایا جا رہا ہے۔ بندہ پوچھے آپ نے بزنس کی تعلیم میں ماسٹر کیا ہے مگر آپ کو اپنی تعلیم پر اتنا بھروسہ نہیں ہے کہ چند ہزار کا بزنس کر سکیں تو دوسرا اپنا لاکھوں کا بزنس آپ کے حوالے کیونکر کرے ؟ بقول شاعر،
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ آج بھی کئی بھولے بادشاہ اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ ادھر معاشی ترقی شروع ہو گی ادھر اخبارات اشتہارات سے بھر جائیں گے کہ فَلاں فَلاں محکمے کو اتنے ہزار ملازمین کی اشد ضرورت ہے۔ درخواست بھی دے کر احسان مندفرمائیں۔ قصور ان کا بھی نہیں ، جہاں ایک وفاقی وزیر فیصل واڈوا صاحب کی ذہنی سطح اتنی ہے کہ ہفتوں میں لاکھوں ملازمتوں کی نوید سنا رہے رہوں وہاں باقی کسی سے کیا شکوہ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر قصہ مختصر یہ کہ ایسے کسی معجزے کے انتظار میں رہنے کی بجائے اگر آ پ معاشی ترقی کے خواہشمند ہیں تو اس کی ابتدا خود اپنی ذات سے کریں۔اگر آپ  زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں تو کوئی فن سیکھیں۔ اگر آپ طالب علم ہیں تو علم کی اصل روح کو سمجھیں اور لطف لے کر پڑھیں۔جس کام میں مزہ نہ آئے وہ کام خود میں ہی کسی کام کا نہیں۔ اس لیے طالب علمی کی حیثیت سے آپ کا کام محض فیس بک پر سیاسی وابستگی میں خود سپردگی نہیں ہے، بلکہ آپ کی ڈیوٹی طالب عم کی حیثیت سے پڑھنا ہے۔ اگر آپ اس کام میں ڈنڈی مار رہے ہیں تو نہ صرف والدین کے وسائل ضائع کر رہے ہیں بلکہ اس غریب معاشرے پر مزید ظلم عظیم کر رہے ہیں۔ کیونکہ معاشرے کے جوان طبقے پر نہ صرف معاشرے کی تعمیر کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی بلکہ معاشرے کے اُن طبقات کی کفالت کا فرض بھی عائد ہوتا ہے۔ جو اپنی معمولات زندگی کے لیے دوسروں کے مرہون منت ہیں، جیسے بوڑھے افراد یا بچے وغیرہ۔اگر سرمایہ نہیں تو وقتی طور پر نوکری کریں مگر ساتھ ساتھ کاروبار کے مواقع پر دھیان دیں۔ اپنے اردگردکے غریب اور ہنرمند کے فن کو دنیا تک رسائی دلائیں۔

  1. مجھے اس ٹیکنیکل ایجوکیشن کی اصطلاح کی آج تک سمجھ نہیں آئی۔ وہ تعلیم ہی کیا جو ٹیکنیکل نہ ہو یا پریکٹیکل نہ ہو۔ اگر آپ تعلیم کو تکنیکی اعتبار سے استعمال کرنا نہیں جانتے یا استعمال کرنے کا مطلق ارادہ ہی نہیں رکھتے تو اس ساری کاروائی کا مقصد ہی کیا ہوا؟ یہی وجہ ہے کہ ہم نے دنیا کے سب سے  زیادہ بیروزگار پی ایچ ڈی پیدا کئے ہیں اور یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے ۔ اگر آج سے ان خطوط کی تلافی کا انتظام ہوا تو اس کے اثرات کئی سال بعد جاکر برآمدات میں بتدریج اور مستقل اضافہ اور فی کس آمدن میں اضافہ کی صورت میں دیکھے جا سکیں گے ورنہ معاشی تباہی کے دھانے پر جا پہنچیں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر صدیق العابدین
Medical Specialist by profession, working as consultant Internal medicine, writer by passion, editor and orator, had experience of leading various student literary clubs as literary secretary, in reputable institutions like Khyber Medical College, and worked as Editor in Chief in various magazines like Cenna, monthly educators, shehpar magazine..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply