اکبر حیدر آبادی۔۔۔۔آصف جیلانی

میں آنے والے شب و روز کا قصیدہ ہوں۔
مجھے ا س پر ناز ہے کہ میں نے اکبر حیدرآبادی کو دیکھاہے، ان کی پر تبسم شخصیت سے متاثر ہوا ہوں ، ان کی شاعری سے سر شار ہوا ہوں اور ان کے فکر انگیز کلام سے وجدان حاصل کیا ہے ۔ میرے ساتھ مجھے یقین ہے کہ برطانیہ کی ادبی دنیا کو بھی اس بات پر فخر ہے کہ اکبر حیدر آبادی اس کی شان رہے ہیں اور اس کی درخشا نی ان ہی کی مرہون منت رہی ہے۔
مشرقی تہذیب اور اردو ادب کے گہوارے حیدر آباد دکن میں پروان چڑھنے والے اکبر علی خان خوش قسمت تھے کہ جب وہ جے جے اسکول آف آرٹس میں تعلیم حاصل کرنے بمبئی پہنچے تو وہاں رومانیت کے خام دور کے بعد ان کی ذہنی نشو ونما ، ترقی پسند مصنفین کی کہکشاں کی ضو میں ہوئی جس میں ساحر، مجروح ، کیفی،  انصاری اور سردار جعفری ایسے تابندہ ستارے شامل تھے۔ ان کی قربت اور ترقی پسند تحریک سے گہری وابستگی نے انہیں مقصدیت اور رجائیت سے بھرپور مثبت اور توانا نقطہ نظر عطا کیا۔
ہر لحظہ مری ذات کی تشکیل و نمو میں
ہر موڑ پہ تاریخ کے دھارے ہیں مرے ساتھ
اور پھر جب اکبر حیدر آبادی سن پچپن میں فنِ تعمیر کی اعلی تعلیم کے لئے گہوارہ علم آکسفورڈ آئے تو ایک نئی دنیا سے روشناس ہوئے اور اس کی اقدار ، اس کے طرز زندگی اور اندازِ فکر سے فیض یاب ہوئے ۔ سونے پر سہاگہ انگلستان میں انہیں ن،م راشد اور فیض احمد فیض کی صحبت حاصل رہی جس نے ان کی شعری تخلیقات کو ایک نئی جلا بخشی، ان کی سوچ میں آفاقیت در آئی اور شاعری میں انہوں نے ایسے نایاب موضوع متعارف کرائے جو اس سے قبل اردو شاعری میں دور دور تک نظر نہیں آتے تھے، خاص طور پر سائینس اور ٹیکنا لوجی کا ارتقاء علم فلکیات، علم نفسیات اور فلسفہ۔
اپنی جوت سے جس کی تابش ، اپنی آگ سے جس کی تپش اپنے مدار میں جس کی گردش وہ میرا سیارہ ہے
اوزون تہہ کے موضوع کا انتخاب اس لحاظ سے اکبر حیدر آبادی کا دلیرانہ اقدام تھا کہ اب تک اردو شاعری میں اس موضوع پرکسی نے طبع آزمائی نہیں کی۔ یوں انہوں نے خلا اور سائنس کے شعبہ میں ہونے والے تجربات کو اپنی شعری تخلیقات کے آینہ میں عوام کو آگہی کا روپ دیا۔
اکبر کرہء ارض کی مسموم فضا سے
تہذیب کے اوزوں کی چادر کو بچائیں۔
اکبر حیدرآبادی کے ہاں فکر ایک رود پیہم کی مانند نظر آتی ہے۔ تجسسِ کاینات ، وجود و زندگی اور زندگی بعد از موت ، کے بارے میں وہ بنیادی سوالات کو نہایت سنجیدگی سے غورو فکر کے احاطے میں لاتے ہیں۔
ہے کیا فنا میں بھی رنگِ ثبات، سوچتا ہوں
حیات ہے کوئی بعد حیات ؟ سوچتا ہوں
اکبر حیدر آبادی نے برطانوی معاشرہ میں اردو شاعری کی اس روایت کو زندہ رکھا جو خود اردو کے سواد اعظم میں دم توڑتی نظر آتی ہے۔ انہیں اس بات کا دکھ تھا کہ آج کل زبان، محاورہ ، بندش اور قواعد سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے ۔ اپنے پانچویں مجموعہ ’’قرض ، ماہ و سال کے‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے۔’’شاعری آج کل ایک نئی اور انوکھی نہج سے کی جارہی ہے۔بہت سی  باتیں جو پہلے بدعت سمجھی جاتی تھیں اب تسلیم کی جانے لگی ہیں۔ فکر و خیال کے ارتقا میں جدت و انفرادیت کی بڑی اہمیت ہے مگر جہاں جدت برائے جدت ہو اور جس کا مقصد محض قاری کو چونکا دینا ہو وہ کسی غیر جانب دار اور صاحبِ نظر نقاد کو متاثر نہیں کر سکتی‘‘ ۔
جہاں اکبر حیدر آبادی اپنے دل کے لطیف احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔
یوں بھی اک جشن آرزو کرنا ، دل کو رو رو لہو لہو کرنا
جن سے اک آشنا مہک آئے ،ان ہواوں سے گفتگو کرنا
وہاں اکبر صاحب اپنے اردگرد کے حالات اور مسائل سے پیوست نظر آتے ہیں۔ Serbs اور Croats کے ہاتھوں بوزنیا کے مسلمانوں کے قتل و غارت گری اور اقوام متحدہ کی بے اعتنائی کے تناظر میں اپنی نظم ’’مقتل ‘‘ میں لکھتے ہیں۔
سینہ وقت کا رستا ناسور،
مقتل بوزنیا
اک خزاں دیدہ چمن ایک زمینِ بے نور
مقتل بوزنیا
ہر دھڑکتا ہوا دل، ہر چہرہ
ملک الموت کے چہرے کا بھیانک پرتو
خوفِ بے پایاں کی وحشت سراپا رنجور
نحیف و مجبور
خون کس کس کا بہا کیسے بہا؟
خوں بہا کس سے طلب کیجیے
قاتل ہے کہاں؟

اکبر حیدر آبادی نے اپنی عمر کے باسٹھ سال برطانیہ میں گذارے لیکن ان کی شعری تخلیقات میں ترک وطن کا درد تازہ اور نمایاں رہا۔ یہ درد کسک کا تو باعث رہا لیکن اندوہناک نہیں ثابت ہوا۔ یہ درد در اصل اپنی زمین سے رشتہ اور وابستہ یادوں سے عبارت رہا۔
عمر گزری یہاں آدھی سے زیادہ لیکن
اجنبیت ہے مقدر میرا
نہ زمیں میری نہ ہے گھر میرا
اس کے باوجود اکبر حیدر آبادی کے کلام میں بلا کی رجائیت ہے او مستقبل کے مثبت اور توانا امکانات کی نوید نمایا ں ہے ۔ مری نظر میں ہے ماضی کا طمطراق مگر۔۔۔میں آنے والے شب و روز کا قصیدہ ہوں۔
اک کسک اکبر صاحب کے ہاں نمایاں رہی ہے۔
دولت ملی ، مکان ملا ، نوکری ملی
شہرت ملی، وقار ملا ، دوستی ملی
اک جسم تھا کہ جس کوملیں ساری نعمتیں
اک روح تھی کہ جس کو فقط تشنگی ملی
اکبر حیدر آبادی نے اردو شاعری کے کئی ادوار دیکھے اور نئی تحریکوں کو ابھرتے اور غروب ہوتے دیکھا ۔ انہوں نے وہ دور بھی دیکھا تھا جب نظم کا دور دورہ اور شاعری پر اس کی حکمرانی تھی لیکن اکبر صاحب نے غزل کا ساتھ نہیں چھوڑابلکہ اسے نت نئے موضوعات اور نئے انداز سے آراستہ کرکے اسے جلا دی اور ایک نئی تازگی بخشی۔ غزل کے میدان میں انہوں نے نئے اور منفرد موضوعات سے روایت پرستی کو للکارا۔ اس طرح انہوں نے نئی ترکیبوں اور استعاروں کا انمول اضافہ کیا۔
کسی سے پہلے پہل ہم جوآشنائے گئے
امید و بیم کے کتنے دیے جلائے گئے
کسے خبر کہ پرستش کے ہیں عوامل کیا
نہ جانے کیسے صنم تھے کہ جو خدائے گئے
کہاں وہ پہلا سا احساس گرم و سرد اکبر
کہ اب مزاج ہمارے بھی موسمائے گئے
اکبر حیدر آبادی کے پانچ شعری مجموعے ہیں۔ رہگزر ، نمو کی آگ، آوازوں کا شہر، ذروں سے ستاروں تک، اور قرض ماہ و سال کے ۔ ان کی انگریزی نظموں اور اردو نظموں کے منظوم انگریزی ترجموں کا مجموعہ جس کا پیش لفظ رالف رسل نے لکھا ہے چند سال قبل شائع ہوا ہے ۔
بلا شبہ اکبر حیدر آبادی کی یہ شعری تخلیقات عصری اردو ادب کا ایک انمول سرمایہ ہے جس پر برطانیہ کے رہنے والوں کو خاص طور پر فخر ہے کہ اکبر حیدرآبادی ان کے درمیان رہتے تھے۔
اے چرخ اپنا مد مقابل مجھے سمجھ میں عقل بھی ہوں تو نہ فقط دل مجھے سمجھ ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اکبر نہ ڈھونڈو مجھ کو حدوں کے حصار میں رہتی ہے جو سفر میں وہ منزل مجھے سمجھ۔
اکبر حیدرآبادی ۔1925تا2014

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply