نسلی، لسانی، علاقائی یا مذہبی تعلق۔۔۔مرزا مدثر نواز

مسٹر جناح اور اُن کے پیروکاروں نے اس طرف بالکل دھیان نہیں دیا کہ جغرافیہ ان کے حق میں نہیں، ہندوستانی مسلمانوں کو ایسے طریقے سے تقسیم کیا گیا کہ ایک علیحدہ ریاست کا قیام جو کہ علاقائی اعتبار سے مستحکم ہو، بالکل ناممکن تھا۔ مسلم اکثریت کے علاقے شمال مغرب اور شمال مشرق میں تھے اور ان دونوں علاقوں کا کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، ان علاقوں میں بسنے والے لوگ سوائے مذہب کے ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔ علاقائی، معاشی، لسانی اور ثقافتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف عوام کو اس بات کا یقین دلانا کہ مذہب آپ کو متحد رکھ سکتا ہے، سب سے بڑا دھوکا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل پر زور دیا ہے جس میں نسلی، لسانی، معاشی اور سیاسی سرحدوں کی کوئی گنجائش نہیں لیکن اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو چند دہائیوں یا پھر ایک صدی بعد اسلام صرف مذہب کی بنیاد پر تمام مسلم ممالک کو متحد رکھنے میں ناکام رہا۔ کوئی بھی یہ اُمید نہیں رکھ سکتا کہ مشرقی و مغربی پاکستان اپنے تمام تر اختلافات کو باہمی طور پر حل کر کے ایک قوم بن جائیں گے حتیٰ کہ مغربی پاکستان میں بھی تینوں صوبے سندھ، پنجاب اور سرحد اندرونی تضادات و اختلافات کا شکار ہیں اور الگ الگ مقاصد و مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں (آزادی ہند، از ابو الکلام)۔

ایک جاننے والے نے کالج کی تعلیم کراچی اور یونیورسٹی کی تعلیم خضدار سے حاصل کی، کالج کی تعلیم کے دوران اس نے اپنے ہی ملک میں لسانی تعصب کا سامنا کیا اور یونیورسٹی کے دنوں میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بڑی مشکل سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوا۔ تقریباََ سات سال تک لسانی و علاقائی تعصب کو نہایت ہی قریب سے دیکھنے اور سامنا کرنے کے بعد وہ خود قوم پرست خیالات کا بہت بڑا حامی ہو چکا ہے جس کی گفتگو میں ہمیشہ لسانی تعصب کا غلبہ رہتا ہے جبکہ مذہبی تعلق کے بارے میں  محمد ﷺ کے فرمودات کہیں دور دور اس کی بحث کا حصہ نہیں بنتے۔

دنیا کے نقشے پر موجود تقریباََ سبھی ممالک کی بنیادیں نسلی، لسانی، علاقائی یا معاشی تصورات پر کھڑی نظر آتی ہیں جبکہ اس کے برعکس مملکت خداداد پاکستان وہ واحد نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد قومیت، علاقہ یا زبان نہیں بلکہ کلمہ اسلام ہے۔ اسی بنیاد کی بدولت یہ ملک اپنے قیام سے لے کر آج تک اندرونی و بیرونی سطح پر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ سیکولر و لبرل طبقہ کبھی بنیادی حقوق کا واویلا کرتا ہے، محمد بن قاسم کے مقابلے میں راجہ داہر کو اپنا ہیرو بناتا ہے تو کبھی رنجیت سنگھ کو دھرتی کا بیٹا کہہ کر اپنے قوم پرست خیالات کو تسکین بخشنے کی کوشش کرتا ہے، براہ راست مذہب کو برا بھلا کہنے کی بجائے دوسرے حیلوں سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھا جائے تو وہ آج بھی اپنے سیاسی مفادات کی خاطر قوم پرستی کو پروان چڑھانے میں مصروف عمل ہیں اور اکثر و بیشتر ان کے قائدین اپنے قوم پرستانہ بیانات سے وفاق کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ حقوق و محرومیوں کے نام پر یہ لوگ عوام کی حمایت و توجہ حاصل کر لیتے ہیں؟ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ارباب اختیار سے بہت بڑی بڑی غلطیاں سر زد ہوئی ہیں، غلطی ہونا کوئی بڑی یا بُری بات نہیں مگر غلطیوں کے دفاع میں ڈٹ جانا اور ان سے سبق نہ سیکھنا کسی جرم سے کم نہیں۔ مشرقی پاکستان میں بوئے گئے نفرت کے بیجوں کو ہم نے محبت و پیار سے تلف کرنے کی بجائے انہیں مزید پروان چڑھایا اور اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو محرومیوں و حقوق کی تلوار نے دو ٹکڑے کر دیا۔ اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی ہم نے روش نہ بدلی اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں پر ہمیشہ غداری کے فتوے لگائے۔ آج بھی جب کسی علاقے کے پڑھے لکھے محب وطن لوگ ،اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں گلے لگانے اور ان کے مطالبات سننے کی بجائے ان پر غداری کے الزامات لگائے جاتے ہیں جن سے نفرتیں مزید پروان چڑھتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذہب اسلام تو نسل، علاقہ، زبان وغیرہ سے قطع نظر تمام کلمہ گو مسلمانوں کو ایک ملت قرار دیتا ہے اور سب کے ساتھ مساوات سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے لیکن جب اسی مذہب کے نام پر بننے والے ملک کے چوہدری و ارباب اختیار مذہب کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے لگیں اور اپنی چودھراہٹ و بادشاہت کے استحکام کو مد نظر رکھیں جس کے نتیجے میں محرومیاں جنم لینے لگیں اور حقوق کے نام پر نفرتیں پیدا ہونا شروع ہو جائیں تو اس میں مذہب کا کیا دوش ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مختلف عوامل کی بدولت نسلی، لسانی، علاقائی تعصب جیت جاتا ہے اور مذہبی تعلق ہار جاتا ہے۔ ہر لحاظ سے مضبوط اور تعصب سے بالاتر وفاق کے لیے ریاست کو سمجھنا ہو گا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور ماں اپنی تمام اولاد کو صرف ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply