دوسری دنیا کے ذہنی مریض۔۔ماسٹر محمد فہیم امتیاز

میں نے مدارس کو بڑے قریب سے دیکھا ہے

روایتی مدارس کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے،جہاں باقاعدہ ایک سلطنت قائم نظر آتی ہے،جہاں پر لاٹھی بھی ناظمِ مدرسہ کی ہوتی  ہے اور بھینس بھی۔  مدارس کے مہتمم اور بڑے اساتذہ بادشاہوں کا سا رویہ رکھتے ہیں، جو اپنی پوجا کسی دیوتا کی طرح کرواتے ہیں ۔جن سے اختلاف یا سوال کا تصور گناہ بنا کر رکھ دیا جاتا ہے ۔

اس دنیا میں رہنے والوں کو باہر کی نارمل دنیا عجوبہ لگتی ہے،وہاں کے طالب علم عموماً ایک آزاد اور معاشرے کے عام انسان کی زندگی سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔

خاص طور پر ایسے روایتی مدارس جہاں ماں باپ اپنے بچوں کو مستقل بھیج دیتے  ہیں ،جہاں کھانا پینا رہائش سب مدرسے ہی میں ہو، وہ بچے سالوں تک اس بند گھٹے ہوئے خول میں رہ رہ کر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں،اس نفسیاتی عارضے کے عوامل میں وہاں کا ماحول، پھر اس پر فرقہ واریت کا زہر جو ان مدارس میں کوٹ کوٹ کر بھرا جاتا ہے، شدت پسندانہ ذہنیت کا پنپنا ،سالوں تک بدترین تشدد کا دیکھنا اور سہنا، بچوں سے بدفعلی کے مختلف درجات لواطت تک(سبھی نہیں لیکن کئی مدارس میں)، معاشی خودمختاری نہ ہونے کی وجہ سے صدقہ خیرات پر پلنا(جو مانگ کر کھانے والوں کو عزت نفس اور غیرت جیسی چیزوں سے عاری کر دیتی ہے) قدامت پرستی،اندھی عقیدت، عصری تعلیم سے دوری،شدید احساس کمتری میں مبتلا اور مسلسل اس محدود ترین دنیا میں مقید رہنا وغیرہ سر فہرست ہیں۔ اس سب ماحول کی پروڈکشن پھر ہمیں ایک شدت پسند،فرقہ پرست،تنگ نظر اور مجروح شدہ عزت نفس کے حامل روایتی مولوی کی صورت میں نظر آتی ہے۔

یہی مولوی پھر اپنا مدرسہ کھول کر اپنی تمام تر محرومیوں کا بدلہ اگلی نسل سے لینے لگتا ہے، یوں ان روایتی مدارس کے نظام کا ایک سائیکل چلتا رہتا ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ کہ اس ماحول کے زیر اثر تیار ذہنیت یہاں سے نکل کر اچانک ایسی جگہ پر آ جاتی ہے جہاں سے لوگوں کو انفلوئنس کیا جاتا ہے، ایسے ماحول سے ذہنی مریض بن کر نکلے لوگ منبر و محراب پر چڑھ بیٹھتے ہیں،ان لوگوں پر عوام اعتماد کرتی ہے، انہیں دین کا نمائندہ سمجھتی ہے، ان کی بات  اور سوچ کو دین سمجھا جانے لگتا ہے  کہیں نا کہیں۔ کہیں عقیدت میں،کہیں ڈر میں،کہیں کم علمی میں،کہیں لاپرواہی میں تو کہیں سادگی میں۔۔۔جو لوگ ان سب سے مبرا ہو کر معقول اپروچ اختیار کریں ان کے لیے پھر فتوے کا ڈنڈا بھی انہی  ملاؤں کے ہاتھ میں موجود ہوتا ہے ۔

حل کیا ہے؟

میری نظر میں حل مین سٹریمنگ ہے،جس پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، ارے بھائی لا الہٰ الاللہ پر بنے ملک میں اگر دینی تعلیم مین سٹریم نہیں ہوگی تو کہاں ہوگی۔۔؟؟ دین کے نام پر حاصل کی ریاست کو دین سے الگ کر کے کھڑا کرنے میں یہ بھی ایک بڑا عنصر رہا ہے، مدارس میں سٹریم ہوں، دینی اور عصری دونوں علوم پر مشتمل ادارے ہوں جو ڈائریکٹلی منسٹری آف ایجوکیشن کے انڈر آئیں اور باقاعدہ ایجوکیشن بجٹ ہو ان کا صدقہ خیرات پر پلنے والا معاملہ ختم ہو تاکہ عزت نفس بحال رہے طلباء کی اور کسی بھی یونیورسٹی کے طالب علم والا اعتماد لے کر مدارس سے نکلیں ۔

مدارس کے اندر معتدل اور غیر فرقہ وارانہ ماحول مہیا کیا جائے، نظریاتی شدت پسندی کا سدباب کرنے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور ذہنی تشدد کی بھی روک تھام کی جائے ۔

ہاسٹلز کا انتظام بالکل الگ ہو،ان کے سربراہان اور انتظامیہ  بھی الگ ہو اور رہائش گاہیں بھی الگ۔

جامعات میں اور مدارس کی سبھی ورک پلیسز پر کیمرے نصب کیے جائیں۔۔۔کسی بھی مجرمانہ اور غیر انسانی فعل پر باقاعدہ قانونی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے سزا و جزا کا فیصلہ ہو ،نہ کہ چند اپنے ہی پیٹی بھائی منصف بن بیٹھیں۔

ایجوکیشن کنسلٹنٹس، ایجوکیشن سپیشلسٹ، اور سبھی مکاتب فکر کے معتبر علما  کی ایک باڈی تشکیل دے کر نصاب بھی تشکیل دیا جائے اور اساتذہ کے لیے ایک کرائٹیریا بھی مختص کیا جائے،اساتذہ کی باقاعدہ تنخواہیں اور الاؤنسز ہوں ،نہ کہ قربانی کی کھالیں اکٹھی کرتے پھریں ۔عصر ِ حاضر کے حوالے سے دین حق کی عالمگیرانہ روح کو باقاعدہ طور پر پڑھایا جائے واضح کیا جائے،جدید طریق تعلیم اپنائے جائیں،ڈیجیٹل ٹیچنگ میتھیڈالوجی کو فالو کیا جائے،غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے، متعدد سیمیناز اور ورکشاپس کی صورت میں کریکٹر بلڈنگ اور پرسنیلٹی گرومنگ پر فوکس کیا جائے اور انہیں مدارس کے فاضل طلباء کو کنسلٹنگ میں آگے لایا جائے اور عملی طور پر عصر حاضر کے جدید پہلوؤں میں دین حق کی تعلیمات کی امپلیکیشنز کو واضح کیا جائے،کر کے دکھایا جائے، ملاں مسٹر خلیج کو ختم کرنے پر کام کیا جائے اور باہمی اعتماد کی فضا پیدا کر کے ان کا باہمی رابطہ بحال کیا جائے۔

سکولوں کی طرح مدارس کی بھی پیرنٹس ٹیچر میٹنگز کا انعقاد کیا جائے۔۔۔

مدارس اور یونیورسٹیز سے نکلنے والے طلباء کو کیرئیر کے روزگار کے یکساں مواقع مہیا کیے جائیں۔۔۔

اور یہ سب اقدامات اختیاری نہیں ،ضروری ہیں۔۔

اگر ہم واقعتاً نسل نو کو مزید مذہب اور مذہبی بیزاریت سے بچانا چاہتے ہیں،ملک میں بتدریج ہموار ہوتی سیکولرزم کی رائے کو بدلنا چاہتے ہیں،اور دین کی حقیقی ترجمانی کے خواہاں ہیں تو یہ اور ایسے کئی اور اقدامات ناگزیر ہیں۔۔کیونکہ یہ مسئلہ اساتذہ کا نہیں نہ طلباء کا اور نہ ہی معاذاللہ دین کا یہ مسئلہ نظام کا ہے نظام بدلیے ،نتائج خودبخود بدل جائیں گے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : سبھی مدارس کا یہ حال نہیں کچھ بڑے اچھے ادارے بھی موجود ہیں،لیکن اکثریت اسی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے،جس کے تحت یہ تحریر لکھی گئی ہے۔

Facebook Comments

ماسٹر محمد فہیم امتیاز
پورا نام ماسٹر محمد فہیم امتیاز،،ماسٹر مارشل آرٹ کے جنون کا دیا ہوا ہے۔معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،سائبر ٹرینر،بلاگر اور ایک سائبر ٹیم سی ڈی سی کے کمانڈر ہیں،مطالعہ کا شوق بچپن سے،پرو اسلام،پرو پاکستان ہیں،مکالمہ سمیت بہت سی ویب سائٹس اور بلاگز کے مستقل لکھاری ہیں،اسلام و پاکستان کے لیے مسلسل علمی و قلمی اور ہر ممکن حد تک عملی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply