وادی ء تیراہ کی یادیں۔۔۔عارف خٹک

تیراہ،خیبر پختونخوا  کا ایک دُور دراز پہاڑی علاقہ ہے۔ جو خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، اور کُرم ایجنسی میں واقع ہے۔سرسبز اور اُونچے اُونچے پہاڑوں میں گِھرا یہ ایک جنت نظیر ٹکڑا ہے۔ جس کی سرحدیں شمال میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے جا ملتی ہیں۔ اس علاقے میں آفریدی، شینواری اور ،اورکزئی قبائل کے پشتون رہتے ہیں۔

1996ء میں ایک دوست کے ہمراہ تیراہ جانا ہوا۔ خوبصورت وادی دیکھ کر یوں محسوس ہوا،جیسے جنت کے کسی حسین گوشے میں قدم رکھ دیے ہوں۔مہمان نوازی ایسی کہ میزبان کھانا کِھلا کِھلا کر موقع پر ہی مارنے کی ٹھان لے۔پھر مجال ہے کہ آپ ہاتھ روک سکو۔ جیسے ہی آپ کھانا کھانے سے ہاتھ کھینچتے ہیں، سامنے چارپائیوں پر بیٹھے پچاس بندوں میں سے دو فوراً ہی ساتھ دسترخوان پر بیٹھ جائیں گے۔اور کہیں گے کہ ابھی تو ہم ساتھ بیٹھے ہیں اور آپ نے ہاتھ روک لیا؟الغرض دس افراد دسترخوان پر نمبروار بیٹھتےہوئے اسی طرح مہمان کو کھلاتے رہیں گے۔جب تک وہ بد قسمت اَدھ مُوا ہو کر پیچھے کو گِر نہیں جاتا۔مہمان سوچتا ہے کہ قتل کرنا پشتونوں کی سرشت میں شامل ہے۔ مگر چونکہ مہمان کی عزت اور احترام واجب ہوتا ہے،لہٰذا گولی کی بجائے کھانا کھلا کر مارنے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔

ہمارے کُرک اور بنوں میں راہ چلتے ہوئے کوئی نسوار مانگے اور آپ مسکراتے ہوئے جواب میں فقط اتنا بول دیں، کہ میں نسوار نہیں رکھتا۔ تو آگے والا آپ کو عجیب لعنت اور ملامت زدہ نظروں سے گُھورنا شروع کردیتا ہے۔ جس کےلئے پشتو میں ایک بہت بُرا لفظ ہے۔ ہم نے تو عاشقی  معشوقی کا مرکزی کردار نسوار کو ہی دیکھا ہے۔ محبوب جب محبوبہ کو کالی نسوار آفر کرتا ہے،تو محبوبہ فوراً سے پیشتر پلو میں منہ چُھپا کر اپنے منہ سے چونڈی نکالتے ہوئےمحبوب کے مُنہ میں رکھ دیتی ہے۔ ہماری والدہ حضور ابا سے جتنی بھی ناراض ہوں۔ جیسے ہی ابا واسکٹ میں نسوار کی پُڑیا ٹٹولنے لگتے ہیں، تو اماں کہتی ہیں “عارف پلارہ یو چونڈئ نسوار خو رالہ جوڑ کہ پلیز”

یہاں تیراہ میں آپ چرس کو منع نہیں کرسکتے۔ باپ بیٹے سے پوچھے “کمال خانہ،خانہ خرابہ چرس شتہ؟آگے سے اگر کمال خان نے جواب دیا، کہ ابا ابھی جیب میں چرس موجود نہیں ہے،تو باپ کمال خان کو اپنا خون تسلیم کرنے سے فوراً انکار کردے گا،اور بیوی کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے دوسری بیوی لانے کا اعلان کردےگا۔

وادئ تیراہ کے مقامی باشندے محنت مزدوری کےلئے ملک کے ہر حصے میں موجود ہوتے ہیں۔ مگر چرس اور افیون کی فصل کٹائی جیسے اہم کام کے لئے ہر بندے پر فرض ہوتا ہے،کہ وہ دبئی کا ویزہ کینسل کروادے، کراچی میں ماڑی پور روڈ کے بیچ اپنا ٹرک چابی سمیت چھوڑ دے،یا پھر اسلام آباد کے ٹھنڈے  ٹھار دفتر سے بِناچھٹی لِیے   سب باجماعت تیراہ پہنچیں گے۔اور چرس کی فصل کٹائی کو ایک مقدس فریضہ جان کر اپنے کام میں جُت جائیں گے۔ میں نے چرس کے اس نشیلے موسم میں کراچی، لاہور، سکھر، کوئٹہ اور گلگت کے باشرع مسلمانوں کو یہاں تبلیغی جماعتیں تشکیل کرتے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ رائیونڈ سے خصوصی جماعتیں تیراہ کےلئے تشکیل دی جاتی ہیں۔ تاکہ لوگوں کو مسلمان کیا جاسکے،اور خود چرس کے فضائل چکھ کر دنیا کی بے ثباتی پر چار حروف بھیجے جاسکیں۔

میں جس حُجرے میں مہمان تھا۔ وہاں دس دن مدہوش ہی پڑا رہا۔ میں نے ایک دن میزبان سے لڑکھڑاتی زبان میں پوچھا کہ “یا ھلکہ یہ مُجھے ہوا کیا ہے؟دُنیا گول گول گُھوم رہی ہے۔ دل کررہا ہے کہ شیرباز خان سے شادی کرلوں ،اور اگلے دن طلاق کا داغ ماتھے پر سجائے نسوار کھاکر مر جاؤں۔ حالانکہ میں چرس ہی نہیں پیتا۔” تو میزبان نے جواب دیا کہ ہمارے حجرے کے جس کنوئیں سے آپ کو پانی پلایا جاتا ہے۔ اس میں بھنگ کے پودے اُگائے گئے ہیں۔ یہاں کے نشیلے پانی کو آب زم زم کی  چھوٹی  چھوٹی  بوتلوں میں ہم تبرکاً اور تحفتاً ملک کے دیگر حصوں میں بھی بھیجتے ہیں۔میں نے توبہ بول کر کہا،کہ کافر مت بنو۔ آب ِ زم زم مقدس پانی ہوتا ہے۔ جواب ملا،کہ 90 فی صد حاجی دو نمبر پانی پلاتے ہیں۔ اور ہمارا دعویٰ  ہے کہ ہمارا پانی اصلی ہوتا ہے۔

اگلی صُبح تیراہ کے کھیتوں میں گُھومنے نکلا۔۔ تو ہر شے گُھوم رہی تھی۔ کھیتوں میں کام کرنےوالے مزدور، گائے بکریاں جو بھنگ زدہ پانی پی کر شرابی فلم کے ہیرو امیتابھ کی طرح ڈولتے قدموں سے کبھی دائیں تو کبھی بائیں کو لُڑھک رہی تھیں۔اشرف المخلوقات کےساتھ ساتھ چرند پرند سب خوش اور مدہوش تھے۔اپنا حال بھی”قدم رکھتا کہیں، پڑتے کہیں ہیں”۔۔۔والا تھا۔میں نے تو باقاعدہ ایک مُسرت شاہین ٹائپ گائے کے کولہوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔ کہ کیسی ہو جانو؟آگے سے گائے نے بُرا سامُنہ بنا کر رُخ موڑتے ہوئے کہا، شرم کر شادی شُدہ ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کل حیات پریغال اور عابد آفریدی کی لڑکھڑاتی ہوئی تقریر سُنی۔جس میں دونوں جوان چیف آف آرمی سٹاف سے درخواست کررہے ہیں،کہ مقامی مسجد کو فوج سے خالی کراکے علاقہ مکینوں کے حوالہ کردیا جائے۔
سُن کر پتہ نہیں کیوں مجھے  گزرا ہوا زمانہ یاد آگیا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply