ازدواجی بیوفائی۔۔تنویر سجیل

ازدواجی بیوفائی۔۔تنویر سجیل/یوں تو سماج کے پردے  پر انسان بہت سے رشتوں کی ڈور سے بندھا ہوا ہے جو  اس کو سماج میں  ایک پہچان کے ساتھ ساتھ سماج   کے متعین کر دہ دائروں میں اس کے عمل اور اختیار  کی شکل کو  بھی طے کرتا ہے  رشتوں کے اس انبار میں میاں بیوی کا رشتہ  ایک نازک رشتہ ہے جو ہر انسان کے  وجود او ر بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے سماجی اعتبار سے اگر دیکھا جائے جو یہ واحد رشتہ ہے جو مرد و زن کی ہر طرح  کی ضرورت کی تسکین  کے لیے  موزوں  ہے  جس کے بغیر زندگی  کی بہت سی خوبصورتی اور چاشنی ادھوری محسوس ہو تی ہے، محبت اور جنس کا پیاسا انسان جب اس رشتے میں جڑتا ہے  تو اس کو مذہب سے لیکر سماج تک جذباتی  و جنسی ضرورت کی تسکین کی غیر مشروط اجازت فراہم کرتا ہے۔

چاہے مرد ہو یا عور ت وہ اوائل جوانی سے ہی اپنی جسمانی تبدیلیوں،  جذباتی اور جنسی ضرورتوں کو  پس پردہ ڈالنے کی کوشش  میں مصروف رہتا ہے اور ہر قسم کے ہیجانی تغیرات کو صبر کی کنجی  کی مدد سے  بند تالے میں محفوظ کیے رہتا ہے ،بسا اوقات خواہشات کا اژدھا قابو سے باہر بھی ہو جاتا ہے اور اپنی جذباتی تشنگی کو رام کرنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈ لیتا ہے۔

مگر پھر بھی  لذت،  سہولت اور تسکین کا  جواحساس بچپن سے ہی اپنے شوہر یا بیوی سے وابستہ ہو جاتا ہے اور لاشعور کے دفتر میں   ڈیرہ جمائے ہوتا ہے اس کا مزہ شاید وقتی تعلق اور سہولت میں کبھی میسر نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریت  کا خیال ہوتا ہے کہ  اپنی ہر طرح  کی جذباتی اور جنسی ضرورت کو شادی کے بعد ہی پورا کیا جائے جس کی تڑپ برسوں سے  سنبھالے رکھی  ہوتی ہے اور اب خاوند یا بیوی ہی وہ واحد شخص ہو گا  جس کے ساتھ عمر بھر کی رفاقت  نبھائی جائےگی جو محبت کی اس پیاس کو اپنی چاہت کے احساس سے بجھا دے گا، جو حقیقت میں ایک ایسا فرد ہو گاجس کے تصرف میں زندگی کی ہر خواہش  اور ضرورت پورا کرنے کے تمام حقوق ہوں گے جو نہ صرف عمر بھر کا ساتھی ہو گا بلکہ اس سے جسم و روح کا وہ تعلق ہو گا جس کی ہوس تمام عمر ستاتی رہی ہے، جس کے سوچ کے سبھی دائروں کا  وہ ہی مرکز ہو گا جس کی ہر خواہش میرے وجود کی موجودگی سے پوری ہو گی۔

خوابوں  کی یہ تمثیل لا شعور کے پردے پر ایسے عکس مرتب کرتی ہے کہ مرد و زن  اس کے سحر سےکبھی آزاد ہی نہیں ہو پاتے اور جب حقیقت کا ناگ ان خواہشات کو ڈستا ہے تو یہ بندھن نیلا پڑجاتا ہے جس کی شروعات دونوں میں سے کسی ایک  یا دونوں ہی کی جانب سے بے توجہی ، بے قدری  یا نظراندازی سے ہوتی ہے جو تعلق کی گرہ کو کمزور کرنا  شروع کر دیتی ہے ۔

چہ جائیکہ شادی لو میرج ہو یا ارینج میرج اس سے اتنا فرق نہیں پڑتا، جتنا اس بات سے فرق پڑتا ہے  کہ شادی جیسے عمر بھر کے بندھن میں بندھنے  والے دونوں افراد جسمانی، جذباتی اور جنسی اعتبار سے صحت مند ہوں اور اس قابل ہوں کہ وہ اپنے پارٹنر کی پرسنل، ایموشنل اور سیکچئول ضرورت کو سمجھتے ہوں اور ان ضروریات کو بہترین انداز میں پورا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ۔

جب پارٹنرز میں سے کسی ایک کا بھی رویہ خود غرضی، خود آسائشی یا خود پسندی کی چادر میں لیپٹا ہو تا ہے تو دوسرا پارٹنر اس کی اس فطرت یا عادت کو لمبے عرصے تک برداشت نہیں کر پاتا  اور اپنے وجود کی حقیقت کو برقرار رکھنے کے لیے کسی دوسرے  فرد کا متلاشی ہو جاتا ہے ۔

شادی کے چند ماہ بعد ہی دونوں پارٹنرز اس بات کا اچھے سے تخمینہ لگا لیتے ہیں کہ ان کا جیون ساتھی کس معیار کی نفسیاتی ، جذباتی اور جنسی ضرورت کو پورا کرنے کا اہل ہے  اور اس تخمینہ کی بنیاد پر ہی وہ اپنے پارٹنر سے برتاؤ کی ایک  لائن کھینچ لیتا ہے جس کےپار اس  کو اپنی تشنگی  کا وہ صحرا نظر آرہا ہوتا ہے جس کو اس کا پارٹنر کبھی گلستاں میں نہیں بدل پاتا اور پھر وہی پارٹنر مایوس ہو کر نئے گل کھلانے کی ہمت پیداکرنے لگتا ہے۔

انسان کی اوّل روز سے ہی یہ نفسیاتی اور جذباتی ضرورت رہی ہے کہ اس کی زندگی میں  کوئی ایساشخص تو ہو جو اس کی بات کو سن لے  ، جذبات کو سمجھ لے اور کسی شرط کے بغیر اس کی ضرورت کو پورا کر دے  ۔اسی بنیادی  نفسیاتی وجذباتی  ضرورت کو پورا کرنے کا جو خواب وہ بچپن سے بُن رہا ہوتا ہے اس کا مرکز اس کا جیون ساتھی ہی ہوتا ہے  جس سے وہ اپنی تمام توقعات کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتا ہے اور جب اس کو علم ہو جاتا ہے کہ اس کا ساتھی ایسی کسی خوبی کےساتھ نہیں تو یہ صدمہ اس کی ذات کو ادھورا کر دیتا  ہے جس کی تکمیل کے لیے اس کو ایک نعم البدل شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ جو اس کی ان ضروریات کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو ۔

جہاں پر کھیل ذرا مختلف صورت اختیار کر لیتا ہے کہ نیا ساتھی ایک مشروط معاہدے کی صورت میں اپنی وابستگی اور دستیابی پیش کرتا ہے جس کا تعلق جذباتی اور جنسی  دستیابی   کے ساتھ جڑا ہوتا ہے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اکثر مرد و عورت جب اپنے لائف پارٹنر سے بیوفائی کرتے ہیں  تو ان کی سب سے بڑی وجہ جنسی تسکین  سے وابستہ ہوتی ہے  ،کیونکہ محبت کا  اظہار کرنے والا پارٹنر اگر جنسی عمل کو قابل تسکین بنانے کا ہنر نہ جانتا ہو  یا کسی  نقص کی وجہ سے تسکین کرنے کا اہل  نہ ہو تو وہ  محبت بھی پھیکی پڑ جاتی ہے اور پھر بدن کی ضرورت مجبور کر دیتی ہے کہ  اس کے حصے کی لذت کا کوئی  بندو بست ممکن ہو ۔

جبکہ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ  پارٹنر ہر ضرورت پوری تو کرے مگروہ شادی شدہ زندگی کےضروری  آداب سے ناواقف اور صرف اپنی جنسی تسکین کے لیے ہی پارٹنر کے بدن کو نوچتا ہو تو اس وقت بھی محبت کا خلا ایک ایسی قوت کے طور پر سامنے آتا ہے جو پارٹنر کو بے وفائی  کی راہ پر چلنے کا جواز فراہم کرتا  ہے ۔

ازدواجی بے وفائی یا ایکسٹرا میریٹل افئیرز میں نفسیاتی، جذباتی اور جنسی تشنگی کے علاوہ بھی  بہت سے ایسے محرکات  کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے جن کا تعلق مرد وعورت کی شخصیت کے اوصاف، شادی سے قبل معاشقہ کو شادی کے بعد جاری رکھنے کی تمنا  ، معاشی اور سماجی حیثیت کے اضافہ کی چاہ اور جنسی ہیجان کی غیرمعمولی خواہش  بھی  ہے  بعض دفعہ کوئی بھی فرد اپنے پارٹنر سے بے وفائی کا خواہاں نہیں ہوتا  مگر اس کی پرسنیلٹی کے ایسے اوصاف  جیسا کہ لوگوں سے جلدی گھل مل جانا، ان سے  شدید اور گہرے سماجی  رابطے بھی ایک محرک اور وجہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

جب کہ آج کل کے سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمالات نے بھی ایسے مواقعوں کی دستیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے جہاں پر  کوئی  بھی فر د اپنے کسی ورچول فرینڈ سے اس حد تک گہرائی میں چلا جاتا ہے جہاں پر اس کو اپنے ورچول فرینڈ کی عدم دستیابی ڈسٹرب کرتی ہے  اور اکثر ورچول فرینڈ بھی ایسی صورتحال پید ا کر دیتا ہے جس کے ایموشنل ٹریپ میں الجھ کر مرد یا عورت ایسی ڈگر پر چل پڑتے ہیں جس کی راہ بے وفائی کی   طرف  جاتی ہے۔

دوسری طرف سب سےا ہم اور سنجیدہ پہلو یہ بھی ہے کہ ہیجانی اور جنسی اعتبار سے تمام افراد مختلف طرح کے رجحانات اور پسند و نا پسند کے مالک ہوتے ہیں  جس سے ان کی  جنسی ضروریات  ایک غیر متوازن شکل اختیار کر لیتی ہیں ، جو ایک تکلیف دہ امر ہوتا ہے اور ازدواجی تعلق میں دراڑ کا سبب بنتا ہے ، جب دونوں میں سے کوئی بھی پارٹنر جنسی عدم دستیابی کا شکار ہو اور ساتھ میں  جنسی مہارت سے ناواقف  ہوتو  پھر جنسی نا آسودگی ایک ایسا محرک بنتی ہے  جو طلاق کی وجہ  نہ بھی بن سکے تو ازدواجی بیوفائی کی راہ   ضرور ہموار کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وجہ چاہے جو بھی ہو مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اکثریت شادی شدہ  جوڑے میریٹل ریلیشن کی الف ، ب سے نا واقف ہوتے ہیں، وہ اپنے لائف پارٹنر کو اپنی بد سلیقگی، جہالت اور بے توجہی سے اس حد تک مجبور کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس دوسری کوئی آپشن ہی نہیں ہوتی کہ وہ کسی اور کی زندگی میں رنگ بھر کر اپنی زندگی کو رنگین کرنے کے عادی ہو جائیں۔ البتہ  پری میریٹل کونسلنگ  یا کپل کونسلنگ بہت سے مسائل کو سلجھا سکتی ہے ۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply