سوویت یونین کا انہدام — مغالطے اور حقائق۔عمیر فاروق

 سوویت یونین کا انہدام عصر حاضر کی تاریخ کا تہلکہ مچا دینے والا واقعہ تھا۔ اس کے اسباب و وجوہات پہ اردو میں سنجیدہ بحث نہ ہونے کے برابر ہوئی بلکہ عالمی میڈیا میں بھی سوویت یونین کے انہدام کی بحث کو کیمونزم کے خاتمہ کی بحث سے خلط ملط کردیا گیا۔ ہمارے ہاں یہ نظریہ مقبول ہوا کہ افغان جنگ کے اخراجات نے معیشت تباہ کرکے رکھ دی یوں معاشی کمزوری کو مہیب فوجی طاقت بچا نہ پائی اور سوویت یونین زمین بوس ہوگیا۔ یہ نظریہ مقبول تو بہت ہوا لیکن اس میں حقیقت موجود نہیں۔ افغان جنگ کے اخراجات چار سے پانچ بلین ڈالر کے قریب تھے جو اتنی بڑی معیشت کے لئے کوئی ناقابل برداشت بوجھ بھی نہ تھا۔
یاد رہے ۱۹۸۹ تک روسی معیشت کی شرح افزائش منفی نہ تھی بلکہ دو فیصد کے قریب شرح سے بڑھ رہی تھی۔ اور ۲۰۰۸ کے معاشی بحران نے امریکہ کی معیشت کو کہیں زیادہ نقصان پہنچایا تو یہ عمل امریکہ میں کیوں نہ ہوا؟
دوسرا مقبول نظریہ گورباچوف اور یلسن کی باہمی کشمکش کا ہے جو حصول اقتدار کے لئے جاری رہی لیکن اس صورت میں سربراہ کی تبدیلی تو سمجھ آتی ہے ملک ٹوٹنا نہیں۔
راقم الحروف خود ابتدا میں جس نظریہ کا قائل تھا وہ یہ تھا کہ گلاسنوسٹ اور پریسٹرائیکا کو ایک ساتھ شروع کرنا تھا( چین نے یہ غلطی نہیں کی) یہ مرکب دھماکہ خیز ثابت ہوا اور اس نے ریاست منہدم کردی۔ یہ بہت مقبول تھیوری تھی اور اس پہ اب بھی بحث ہوتی ہے۔ لیکن غور کریں تو یہ مرکب دھماکے سے نظام تو تبدیل کرسکتا ہے البتہ روس کے ٹوٹنے کی وجہ کی وضاحت سے قاصر ہے۔
ایک اور مقبول عام تھیوری یہ ہے کہ سوویت یونین بہرحال ایک ایمپائر یا سلطنت تھا جو کیمونزم کے آہنی شکنجہ کے ٹوٹنے کے بعد خود کو براقرار نہ رکھ سکا۔ لیکن اس سلطنت میں نظام پہلے بھی بدلا تھا اتنی طاقتور ریاست اب بھی خود کو یکجا رکھ سکتی تھی اب کیا نیا ہوا؟ سازشی نظریہ بھی موجود ہے کہ یہ مغرب کی سازش تھی لیکن ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ مغرب خود بھی ششدر رہ گیا تھا وہ تو اس کی ایسی منظم اور جامع رپورٹنگ بھی نہیں کرسکے کہ آنے والے طوفان کا اندازہ تو کیا رونما ہوتے حالات کی ہی واضح توجیہہ کی جاسکتی۔ بعض اوقات واقعات کو ان کے تاریخی تسلسل میں دیکھنا اور ان کے ربط کو سمجھنے کی کوشش بہت سی گتھیاں سلجھا دیتی ہے۔ یہاں ہم اس واقعہ کو اسی زاویہ سے لینے کی کوشش کررہے ہیں۔
۱۹۸۹ کے جون تک سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ گلاسنوسٹ اور پریسٹرائیکا پہ عمل کب کا شروع تھا چھوٹی سطح پہ نجکاری کا عمل جاری تھا گلاسنوسٹ کے نتیجہ مین اختلاف رائے کی مکمل آزادی تھی یونین اور سوویتوں کی نئی پارلیمانوں( کانگریس آف ڈپٹیز) کے انتخابات ہوچکے تھے جو آزادانہ تھے اور معیشت بھی ایک اعشاریہ نو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی تھی۔ مرکزی پارلیمان( کانگریس آف ڈپٹیز آف سوویت یونین ) میں اسٹونیا کے نمائندگان نے تحریک پیش کی کہ ربن ٹراپ مولوٹوف پیکٹ کو منسوخ کردیا جائے۔ یہ تحریک باآسانی کامیاب ہوئی اور اس پہ گورباچوف نے بھی دستخط کردیے۔ گورباچوف سوویت یونین کے اتحاد کا کٹر حامی تھا لیکن دستخط کرتے اسے بھی احساس نہ ہوا کہ وہ سوویت یونین کے ڈیتھ وارنٹ پہ دستخط کررہا ہے۔ ربن ٹراپ ، مولوٹوف پیکٹ کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
۲۳ اگست ۱۹۳۹ کو روسی وزیرخارجہ مولوٹوف اور نازی جرمن وزیرخارجہ ربن ٹراپ کے درمیان معاہدہ امن ہوا جو اس نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاہدہ میں ایک خفیہ شق بھی تھی اور وہ یہ کہ اگر ہٹلر پولینڈ پہ قبضہ کرلیتا ہے تو سٹالن کو اعتراض نہ ہوگا اور اس کے بدلے سٹالن بالٹک ریاستوں، لٹویا، لتھوانیا اور اسٹونیا پہ قبضہ کرے تو ہٹلر مزاحم نہ ہوگا۔ اس کے ایک ہفتہ بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ ہٹلر نے پولینڈ پہ اور سٹالن نے بالٹک ریاستوں پہ قبضہ کرلیا۔ لیکن سوویت نصاب اور تاریخ معاہدہ کی اس شق کا انکار کرتی تھی ان کے مطابق ان ریاستوں کے انقلاب نے یونین سے آزادانہ الحاق کیا تھا۔
اسٹونیا کے بوڑھے سیاستدانوں کو خوب یاد تھا کہ یہ درست نہیں ہے بلکہ سٹالن نے باقاعدہ حملہ کرکے ان ریاستوں کو بزور سوویت یونین میں شامل کیا تھا لیکن اس کو ثابت کیسے کیا جائے کیونکہ کریملن اس کی کاپی دینے پہ ہی آمادہ نہ تھا بلکہ اس کے وجود سے ہی انکاری تھا۔ اسٹونیا کے ڈپٹی اینڈی لپا کا اندازہ تھا کہ شاiد اس معاہدہ کی جرمن کاپی امریکہ میں موجود ہو کیونکہ نیورمبرگ ٹرائل میں ربن ٹراپ نے اس شق کا اعتراف کیا تھا۔ توقع کے مطابق اسے امریکہ کے نیشنل آرکائیوز سے اس کی مصدقہ کاپی مل گئی۔ لیکن ایسٹونی سیاستدان بہت محتاط تھے کہ مولوٹوف ربن ٹراپ معاہدہ کی منسوخی کی تحریک میں اس کے قانونی مضمرات پہ بحث سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اگر یہ واضح ہوگیا کہ اس کی منسوخی کے بعد سوویت یونین کا بالٹک ریاستوں کو ساتھ ملائے رکھنے کا حق ہی ختم ہوجایے گا تو یہ تحریک متنازع ہوجائے  گی اور اسمبلی کبھی اس کی منظوری نہ دے گی۔
ان کی یہ احتیاط کارآمد ثابت ہوئی  نازی جرمنی اور ہٹلر کے ساتھ تلخ ماضی کی یاد کے پیش نظر ان سے کیا گیا معاہدہ یکم دسمبر ۱۹۸۹ کو باقاعدہ طور پہ منسوخ کردیا گیا اور یہ یونین کے خاتمے کا آغاز تھا۔ یہ بات درست ہے کہ مولوٹوف، ربن ٹراپ پیکٹ کی منسوخی کے بعد سوویت یونین کو بالٹک ریاستوں پہ قبضہ براقرار رکھنے کا کوئی قانونی یا آئینی جواز حاصل نہ تھا لیکن یہ عملاً علیحدگی آسان بھی نہ تھی۔ اس کے فوری بعد ایسٹونیا کے نمائندگان مزید مطالبہ جات لئے گورباچوف سے ملے۔ تب تک گورباچوف کی بھی علم ہوچکا تھا کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے اور اس کی پوزیشن کافی کمزور ہے اس نے سوویت یونین سے علیحدگی اور سوشلزم سے انکار کے علاوہ ہر مطالبہ پہ بات کرنے کا عندیہ دیا۔
اس مرحلے پہ ایسٹونیا کو اپنا بینک قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔ جس کے بعد اس نے اپنی کرنسی کرون کے نام سے جاری کردی یوں سوویت یونین پہلا ملک تھا جس میں بیک وقت دو کرنسیاں رائج ہوگئیں۔ لیکن اس مرحلے پہ بھی یہ پیشنگوئی نہیں  کی جاسکتی تھی کہ بالآخر سوویت یونین ہی ٹوٹ جائے گا اور نہ کسی نے ایسی پیشنگوئی کی بالٹک ریاستوں میں البتہ اجتماعات اور جلسے جلوس نکلنا شروع ہوگئے تھے۔ اس مرحلہ پہ ایک اور کردار بورس یلسن کو بالٹک ریاستوں کے نمائندے اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بورس یلسن کو گورباچوف ہی آگے لایا تھا لیکن اس کے پاپولسٹ رجحانات کی وجہ سے پیچھے دھکیل دیا تھا ۱۹۸۹ میں وہ دوبارہ کامیاب ہوکر روسی فیڈریشن کے سربراہ کے طور پہ واپس آچکا تھا۔
بورس یلسن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی نظریہ کیپٹلزم یا سوشلزم وغیرہ موجود نہیں تھا ا س کی سوچ تھی کہ عوام جو پسند کرتے ہیں اس کی ہاں  میں ہاں ملاؤ اور مقبولیت اور اقتدار حاصل کرو۔ واپسی کے بعد اس کی گورباچوف کے ساتھ زیادہ سے زیادہ  اختیارات کے حصول کی جنگ بھی جاری تھی۔ بالٹک سیاستدانوں کا خیال تھا کہ یلسن کو ساتھ ملانے سے ان کی پوزیشن بہت طاقتور ہوجائے گی اگر سوویت یونین کا مرکز یعنی روسی فیڈریشن کا صدر ہی علیحدگی کی راہ پہ چل نکلے تو ان کا کام بہت آسان ہوجائے گا۔ ایسا ہی ہوا اور یلسن نے ٹالی آکے ایسٹونیا کے نمائندگان کی حمایت کا اعلان کردیا۔ تب یہ مظاہرے ماسکو تک پھیلنا شروع ہوگئے۔ گورباچوف اس مرحلہ پہ بہت تنہا ہوچکا تھا۔
فوج اور کیمونسٹ پارٹی کے ہارڈ لائنر اس کی اصلاحات کی پالیسی کے خلاف تھے ا ن کی نظر میں وہ یونین کو انتشار کی طرف دھکیل رہا تھا جبکہ دوسری طرف جمہوریت پسند اس کی سوشلسٹ سوچ کی بنا پہ اس کو مسترد کررہے تھے وہ دونوں کا اعتماد کھو چکا تھا عالمی سطح پہ اس کو ایک مدبر رہنما کے طور پہ دیکھا جارہا تھا لیکن اس کی ملکی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے گر رہا تھا۔ لیکن آخری قدم روسی فوج کے ہارڈلائنرز نے اٹھایا جب گورباچوف تعطیلات گزارنے کریمیا گیا ہوا تھا تو ان کے حکم پہ اسے نظر بند کردیا گیا اس کے بعد ہنگامے شروع ہوگئے  افسران کے حکم پہ روسی فوج کے ٹینکوں نے پارلیمنٹ کا محاصرہ کرلیا اس پہ پاپولسٹ لیڈر یلسن نے عوام میں آکر اس کو ماننے سے انکار کردیا۔ یہ وہ موڑ تھا جس کی پوری دنیا میں تشہیر ہوئی۔ باغی افسران کو پسپا ہونا پڑا اس کے بعد عملاً اختیار ، طاقت مقبولیت یلسن کے پاس جا چکی تھی۔ تب سوویت یونین کو سی آئی ایس بنایا گیا تو گورباچوف نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی سوویت یونین کے انہدام کا عمل مکمل ہوگیا۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply