فائر:فلم ریویو۔۔۔۔عامر کاکازئی

ہم عورتیں معاشرے کے رسم و رواج سے اتنی بُری طرح بندھی ہوئی  ہوتی ہیں کہ کوئی  ہمارا ایک بٹن دباتا ہے۔ (یہ بٹن ہماری قدیمی روایات ہوتی ہیں )اور ہم ایک سُدھائے ہوئے بندر کی طرح حرکتیں کرنا  شروع کر دیتی ہیں۔

میں ایک عورت ،ایک گھر میں پالے ہوئے جانور کی طرح ہوں، جو کسی بھی قسم کے سلوک کی مستحق ہو سکتی ہے۔ بری بات یہ ہے کہ میں وہ سلوک برداشت کر جاتی ہوں۔۔

سوامی جی کہتے ہیں کہ عورت کے ساتھ سیکس کرنے کی ایک ہی وجہ ہے، وہ ہے بچہ۔ بچہ بھی لڑکا کہ خاندان کے  نام کو اگلی نسل تک لے کر جائے۔

جوزے سراماگو جو کہ پرتگال کے ادیب ہیں اور نوبل انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کی ایک مشہور کتاب ہے، بلائنڈنیس۔ یہ کہانی ہے ایک معاشرے کی جہاں سب اندھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اندھا پن ایک وبائی  مرض اختیار کر جاتا ہے۔ان کی  آنکھیں درست نظر  تی ہیں مگر ان سے بینائی  غائب ہو جاتی ہے۔ مختصراً یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ کچھ معاشروں میں  آنکھوں میں بینائی  ہونے کے باوجود بھی لوگ اندھے ہوتے ہیں۔

فلم فائر کو بہت غلط طریقے سے لیسبین اور سیکس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ جبکہ یہ فلم بہت سے سوشل ایشوز پر بات کرتی ہے۔ یہ معاشرتی مسئلے برصغیر کے معاشرے کا حصہ ہیں، جس کی طرف ہم جان بوجھ کر اندھے بنے ہوئے ہیں۔ ہم بھی جوزے کے ناول کی  تھیم کا حصہ ہیں۔ جہاں سب  آنکھوں والے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ اور بجائے  کہ مسئلہ کو حل کریں، مسئلہ دیکھ کر جان بوجھ کر اندھے بن جاتے ہیں، اور پھر اس ایک مسئلے سے مسائل کا انبار لگ جاتا ہے۔۔۔ہم ایشیائی  لوگ جنم جنم کے اندھے ہوتے ہیں۔ جو پرانی فرسودہ روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ کبھی معاشرے کے نام پر، کبھی مذہب کے نام پر ،کبھی روایات کے نام پر، ہم نے اپنے چاہنے والوں کے جذبات پر پابندیاں لگانی ہیں۔ جب وہ جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں تو اپنی غلطی ماننے کی بجاے ان کو الزام دیناشروع کر دیتے ہیں۔ ان کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ یہ ہے اس فلم کی تھیم۔۔یہ کہانی ہے ایک انسان اشوک کی جو کہ مذہبی بن جاتا ہے اور اس کے  بعد وہ ہر قسم کی  معاشرتی پابندیوں سے اپنے اپ کو آزاد کروا لیتا ہے۔ حتٰی کہ جو حقوق اس نے اپنی بیوی کو دینے ہوتے ہیں۔ ان سے بھی  آزاد ہو جاتا ہے۔

یہ کہانی ہے جیتن کی جو کسی اور سے پیار کرتا ہے مگر اس کی شادی اس کا بھائی  زبردستی کسی اور عورت سے کروا دیتا ہے۔ جس پر وہ اپنی بیوی پر نہ تو کوئی  توجہ دے پاتا ہے اور نہ ہی اپنی ازدواجی  ذمہ داریاں پوری کرتا ہے۔

یہ کہانی ہے ایک گھر میں کام کرنے والے جوان نوکر نندو کی جو جذبات کے ہاتھوں خود لزتی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اور خوابوں میں اس کی اپنی ہی مالکن اس کی جنسی ملکہ ہوتی ہے۔
یہ کہانی ہے رادھا کی جو پچھلے پندرہ سال سے اپنے شوہر کے ساتھ کسی بھی جسمانی تعلق سے محروم ہے۔ جو ہر وقت صرف خدمت میں جُڑی ایک نوکرانی کی طرح مصروف ہے۔
یہ کہانی ہے سیتا کی جو کہ ایک نوجوان لڑکی ہے جس کے کچھ خواب ہیں، کچھ جذبات ہیں۔ جو جینز اور سکرٹ پہنا چاہتی ہے جو سگرٹ پینا چاہتی ہے۔ جو گانوں پر ڈانس کرنا چاہتی ہے جو اپنے شوہر کا پیار مانگتی ہے مگر شوہر کسی اور عورت کا دیوانہ ہے۔
یہ کہانی ہے ایک خاندان کی جو اپنے نوکر کی تو غلطی معاف کر سکتا ہے مگر اپنی خاندان کی عورت کی نہیں۔ کیونکہ وہ عورت ہے اور خاندان کی عزت صرف عورت سے منسلک ہے۔ مرد کچھ بھی کرے، وہ معاف ہے مگر عورت۔۔۔۔no way
شوہر: سوامی جی کہتے ہیں کہ خواہشات گناہ کی طرف لے کر جاتی ہے اس لیے ان کو دبا دو کہ یہ گناہ نہ کروا سکیں۔
بیوی: لیکن خواہشات کے بغیر انسان ایک مری ہوئ مخلوق ہے۔ خواہشات کے بغیر انسان کے دنیا میں رہنے کا کوئ مقصد نہیں۔ اگر تم اپنی خواہشات پر قابو پانا چاہتے ہو تو سوامی جی سے مدد لو نہ کہ مجھ سے
اگے سے ایک مرد جو اس وقت مجازی خدا کے روپ میں ہے، کہتا ہے کہ تمہاری جرات کیسے ہوئ میرے سامنے اس طرح بات کرنے کی۔ تم ایک بے شرم رنڈی ہو، بجاے اس کے کہ اپنے گناہ کی مجھ سے معافی مانگو، مجھے لیکچر دیتی ہو۔ مجھے نصحیت کرتی ہو۔ تم کس قسم کی عورت ہو۔ تمہیں میرے پاوں پر گر کر مجھ سے بھیک میں معافی مانگنی چاہیے۔میرے پاوں میں گرو اور مجھ سے معافی مانگو۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مرد کی عورت کے لباس کو اگ لگ جاتی ہے، مگر شوہر اس بیوی کو جس نے اس کی پندرہ سال خدمت کی نہ صرف اس کی بلکہ اس کی بوڑھی لاچار فالج زدہ ماں اور اس کے بھائ کی بھی ہاتھ پاوں کی خدمت کی۔ اس کے بزنس میں پوری طرح مدد دی۔ اس کا گھر چلایا مگر۔۔۔اسے آگ سے نہ بچایا ۔۔۔شاید یہ معاشرہ ابھی بہت دور ہے عورت کو سمجھنے کے لیے۔
ایک بہت خاص بات اس فلم کی کہ وہ دونوں بے سہارہ ہندو عورتیں پناہ کے لیے دلی میں حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر پناہ لیتی ہیں۔ یہ بزرگ جیتے جی بھی غریب اور بے سہارہ کو مزہب، زات پات سے الگ ہو کر پناہ دیتے تھے اور اب مر کر بھی ان کے مزار اور درگاہ پر لوگ پناہ کے لیے اتے ہیں۔ ان کا پیٹ بھرتا ہے، دل کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اب دھشتگردی کی وجہ سے یہ مزار اور درگاہیں بہت احساس ہو گئ ہیں اور یہ صرف پیسہ کمانے کی مشینیں بن چکی ہیں۔
یہ صرف فلم نہیں ہے یہ سب کے سب ہمارے معاشرے کے کردار ہیں جن کو ہم اپنے معاشرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ فلم ہمیں بتاتی ہے کہ کسی مسلہ کو ناسور مت بننے دو ورنہ پھر بات ہاتھ سے نکل جاتی ہے
لیسبین حصے کا اگر زکر کیا جاے تو ہمارے خیال میں یہ کوئ پیدائیشی نقص نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف حالات کا جبر ہوتا ہے کہ انسان غیر فطری جنسی خواہشات کی طرف بھاگتا ہے۔ اگر کبھی کسی نے قدرتی نالے دیکھے ہوں جو بارش کے پانی کے لیے قدرتی طور پر بن جاتے ہیں، اگر ان نالوں پر   یا ان قدرتی راستوں کو بند کر دیا جاے تو پانی اپنا راستہ ڈھونڈتا ہے اور پھر غیر فطری جگہیں سے گزر کر سیلاب کی صورت میں تباہی لاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی لڑکے یا لڑکی کے جذبات کے خارج ہونے کے قدرتی راستے بند کیے جایں گے۔ تو وہ غیر فطری راستے ڈھونڈیں گے۔ ان کو روکنا پھر ممکن نہیں۔ یہ فلم بتاتی ہےکہ کبھی بھی انسان کے فطری جذبات اور خواہشات کا راستہ نہ روکو۔ اس کو اپنے فطری راستے پر بہنے دو۔
سب سے پہلے بیک گرانڈ میوزک۔ اے ار رحمان کو اگر میوزک کا ان داتا کہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ اس کے تمام کام ایک طرف اور اس فلم کا بیک گراونڈ میوزک ایک طرف۔(خاص کر اختتامی میوزک) یہ بات اس کے ہر کام کے بارے میں کہی جا سکتی ہے
ڈاریکشن۔ لگتا یہ ہے کہ دیپا مہتا اس فلم کی کہانی میں ڈوب گئ تھی۔ جب نکلی تو یہ شاہکار سامنے ایا۔ انت ڈاریکشن اور کہانی ہے۔
سنیماٹوگرافی بھی بہت بہترین ہے کہ کافی فلم رات کی بنی ہوئ ہے مگر صاف دیکھائ دیتی ہے۔ ساونڈ بہترین ہے۔
ایڈٹنگ۔ فلم کی جان ایڈیٹنگ ہوتی ہے۔ اور بیری فارال نے یہ کام بخوبی سر انجام دیا۔
آخر میں ایکٹنگ شبانہ اعظمی، نندیتا داس، جاوید جعفری، کولبھوشن اور اگر رنجیت کی نندو کے رول کی تعریف نہ کی جاے تو بہت بڑی ناانصافی ہو گی۔
ریویو کو اگر اس گانے پر ختم کیا جاے تو شاید پوری فلم اس ایک گانے میں بند ہو جاۓ۔
سانسوں کی ضرورت ہے جیسے زندگی کے لیے
بس ایک صنم چاہیے عاشقی کے لیے

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply