اقبال اور مستقبل ۔۔ حافظ علی حسن شامی

مردِ قلندر، مردِ درویش، سُخن دلنواز، جانِ پرسوز، محرمِ راز جسے دنیا تو علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتی ہے، لیکن تاریخِ اسلام اور تاریخِ پاکستان اُسے اللہ کے ایک ولیِ کامل اور مجددِ وقت کے نام سے یاد کرتی ہے، جس کی مٹھی میں اس امتِ مسلمہ کی تقدیر لکھ دی گئی ہے۔

جب اس محرمِ راز پر اللہ کے رازوں میں سے راز کھلتے ہیں، تو پھر اس کی صدا پیغامِ سکون بھی سناتی ہے اور محفل کا دل بھی تڑپا دیتی ہے، اس کے الفاظ ترجمانِ ماضی بھی بن جاتے ہیں شانِ حال بھی اور جانِ استقبال بھی، پھر وہ اپنی شاعری سے اس امتِ مسلمہ کو آنے والے خوش گوار دور کی ایک دھندلی سی تصویر دکھا دیتا ہے۔

حضورِ حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا

اس تحریر کو میں نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، جس میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے چند اشعار پہلے ترجمانِ ماضی کے حوالے سے پیش کروں گا، پھر حال یعنی موجودہ دور کے حوالے سے اور آخر میں مستقبل کے حوالے سے پیش کروں گا۔

ترجمانِ  ماضی:-

ترجمانِ ماضی کے حوالے سے جو چند اشعار میں آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں، وہ اُس وقت تو ناقابل یقین پیشنگوئیاں تھیں، لیکن پھر تاریخ نے ان پیشنگوئیوں کو پورا ہوتا بھی دیکھا، جس سے آپ کو یقین ہو جاۓ گا کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ واقعی میں ایک محرمِ راز اور مردِ پُراسرار تھے۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے

یہ اشعار اقبال رحمۃ اللہ علیہ ٢١-١٩٢٠ کی دہائی میں کہہ رہے ہیں، جب چینی لوگ افیون کے نشے میں ڈوبے ہوئے تھے اور نہ ہی چین اپنی موجودہ شکل میں موجود تھا، اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس وقت یہ صدا دے رہے تھے کہ چینی اب خوابِ غفلت سے بیدار ہونے والے ہیں اور ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ہیں، یعنی مشرق کی تہذیبیں اب اٹھنے لگی  ہیں اور آنے والے دور میں وہ مغرب کا مقابلہ کریں گی، اگر آپ آج دیکھیں تو چین کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، یہ بات اس وقت ناممکنات میں سے تھی، لیکن وہ مردِ درویش سو سال آگے دیکھ رہا تھا۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ تعمیرِ پاکستان کے حوالے سے پیشنگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد

میری نگاہ کوفہ و بغداد کی جانب نہیں دیکھ رہی، میں نئی بستیاں آباد ہونے کی بات کر رہا ہوں، یعنی میری نظر دیکھ رہی ہے کہ اہلِ نظر ہندوستان میں نئی بستی آباد کرنے والے ہیں، یہ بات علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس دور میں کر رہے ہیں، جب کسی کے دماغ تک میں یہ خیال نہ آیا تھا کہ کبھی پاکستان نامی کوئی ریاست بھی ہو گی، اس دور میں تو مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنا وجود تک برقرار رکھنا مشکل نظر آرہا تھا، مگر اس وقت بھی یہ مردِ درویش آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر دکھا رہا تھا۔

اس کے علاوہ  اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بے شمار اشعار اور بھی ہیں، جو ماضی کی پیشنگوئیوں پر مشتمل ہیں اور سچ ثابت ہو چکے ہیں۔

ترجمان حال:-

ترجمانِ حال یعنی موجودہ دور کی صورتحال کے حوالے سے بھی اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے بے شمار اشعار ایسے ہیں، جو آج سچ ثابت ہو رہے ہیں، ان میں سے چند اشعار پیشِ خدمت کروں گا۔

آسی ا یک پیکر آب و گل است
ملتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فساد او فساد آسیا
در کشاد او کشاد آسیا

اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایشیا اور افغانستان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایشیا ایک جغرافیائی اکائی ہے اور افغانستان کو اس میں دل کی حیثیت حاصل ہے، اگر افغانستان میں فساد ہو گا، تو پورے ایشیا میں فساد ہو گا اور اگر افغانستان میں امن ہو گا تو پورے ایشیا میں امن ہو گا، اقبال رحمۃ اللہ علیہ یہ اشعار بیسویں صدی کے اوائل میں کہہ رہے ہیں، جب کسی کے تصور میں بھی یہ بات نہ تھی، لیکن پھر تاریخ نے اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اس بات کو بھی سچ ہوتے دیکھا۔

١٩٧٩ء میں جب افغانستان میں فساد برپا ہوتا ہے، تو اس کے نتیجے میں پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک میں بھی اس کے شعلے گرتے دیکھائی دیتے ہیں اور جب افغان طالبان کی وہاں اسلامی حکومت آتی ہے، جس کے نتیجے میں افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے، تو پورے خطے میں امن قائم ہو جاتا ہے، اس کے بعد جب ٢٠٠١ء میں دوبار افغانستان میں فساد برپا ہوتا ہے جو آج تک برقرار ہے، جس کے نتیجے میں آج تک پورے خطے میں فساد برپا ہے۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک اور جگہ موجودہ دور کے بارے میں پیشنگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر

پوری دنیا میں آج امتِ مسلمہ میں رنگ و نسل، فرقہ ورانہ فسادات اور قومیت کی بنا پر جنگیں برپا کی جارہی ہیں، پوری امتِ مسلمہ کو تقسیم کر کے ان کے ملکوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ان فتنوں کے بارے میں امتِ مسلمہ کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا، آپ ایک اور جگہ اسی حوالے سے امتِ مسلمہ کو خطرے کے متعلق ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش

ترجمانِ استقبال:-

ترجمانِ استقبال میں، میں آپ کے پیشِ خدمت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے چند اشعار کروں گا، جس میں انھوں نے امتِ مسلمہ کے آنے والے دور کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے، جسے آپ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی مستقبل کے متعلق پیشنگوئیاں بھی کہہ سکتے ہیں۔

مسلمانوں کی تاریخ کی نہایت کالی راتیں، جو تاریخِ اسلام میں آج تک نہیں دیکھی گئیں تھیں، سب مسلمان بے یار و مددگار پڑے تھے، جب اولیاء اللہ راتوں کو اٹھ کر رو رو کر اپنے رب سے فریاد کرتے تھے، اس وقت ایک مردِ قلندر، مردِ درویش اسلام کا جھنڈا اٹھائے ان کالی تاریخ راتوں میں اذانِ فجر دے رہا تھا۔

عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہوچکی
اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ

اے مسلمان! عشق نے جو فریاد اس رب العالمین کی بارگاہ میں کئی تھی، وہ مقبول ہو چکی ہے، اے مسلمان! تو اب بس دل تھام اور اس فریاد کی تاثیر دیکھ، اب پاکستان بھی بنے گا، مسلمان دہلی اور کشمیر کو بھی فتح کریں گے، فلسطین میں جا کر جھنڈے بھی گاڑیں گے، بیت المقدس کو بھی فتح کریں گے اور پوری دنیا میں اسلام کا پرچم بھی لہرا دیں گے۔

عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ!

عام حریت کا خواب جو اسلام نے دیکھا تھا، ہم تو اس وقت زندہ نہ ہوں گے، مگر اے مسلمان! تو وہ خوش نصیب ہوگا جو اس خوش گوار خواب کی تعبیر دیکھے گا، پھر تجھے ہماری وہ سدا یاد آئے گی، جو ہم نے اس اندھیری وادیوں میں دی تھی، جب تو مایوس ہوچکا تھا۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد دوبارہ مسلمانوں کو حوصلہ دیتے ہوئے، ایک اور بشارت دیتے ہیں۔

کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

یعنی اے مسلمان! بے شک تو آج بے یار و مددگار ہے، تجھے پوری دنیا میں قتل و غارتگری کا سامنا ہے اور تجھے آ کر فتنوں نے گھیر لیا ہے، لیکن مایوس مت ہو، کیونکہ مایوسی کفر ہے، تو بس اپنی آنکھیں کھول کر میرے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر دیکھ، کہ وہ دور کتنا خوش گوار ہو گا، جب تیرا اس عالم میں ایک دفعہ پھر چرچا ہو گا، تیری ہاں اور ناں میں اقوام عالم کے فیصلے ہوا کریں گے۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

اے مسلمان! وہ مردِ قلندر جنہوں نے صحرا سے نکل کر اس وقت کی سپر پاور کے تخت کو الٹ کر زمین بوس کر دیا تھا، یہ میں نے فرشتوں سے سنا ہے کہ وہ مردِ درویش، مردِ قلندر، مردِ مجاہد دوبارہ آنے لگے ہیں، وہ قہاری بھی ہوں گے، غفاری بھی، قدوسی بھی ہوں گے، جبروت بھی اور وہ گفتار و کردار میں اللہ کی برہان بھی ہوں گے، جس وقت وہ نعرہ لاتزر لگائیں گے تو زمین پھٹ جائے گی، دریا راستہ دے دیں گے اور پہاڑ ان کی ہیبت سے کانپ اٹھیں گے۔

یہ غازی، یہ تیرے پر اسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

آج مسلمان فرنگیوں سے بہت متاثر ہیں، ان کے ساتھ دوستی کے خواہشمند ہیں، ان کے لیے دین سے بغاوت کرنے تک کو تیار ہیں، اقبال رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر کہتے ہیں کہ اے مسلمان! فرنگیوں سے متاثر مت ہو، میں وہ راز جانتا ہوں جو تو نہیں جانتا، اس زمرے میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ یہ اشعار کہتے ہوئے، مسلمانوں کو ایک اور بشارت دیتے ہیں۔

خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے

یعنی اے مسلمان! خشکی و تری کے خدا سے مجھے یہ خبر ملی ہے کہ فرنگیوں کی ساری کی ساری تہذیبیں سیلاب کی زد میں ہے، وہ انقریب تباہ و برباد ہونے والے ہیں، ان کی جدید تہذیبوں کا دنیا میں نام و نشان بھی نہ بچے گا۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک اور جگہ مسلمانوں کو بشارت اور فرنگیوں کو تباہی کی نوید سناتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور
کھا گئی روحِ فرنگی کو ہوائے زروسیم

اے مسلمان! تو نے اب صدا نہیں لٹنا، فرنگیوں نے اب صدا تجھ پہ حکمرانی نہیں کرنی، اب تو نے صدا غلام بن کر نہیں رہنا، کیونکہ فرنگیوں کو ہوائے زروسیم نے کھا لیا ہے، وہ اب اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں، لیکن تیرا سورج طلوع ہو گیا ہے، اب تیرا دور دوبارہ آنے والا ہے، تجھے وہ بلند و بالا مرتبہ دوبارہ ملنے والا ہے۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک اور جگہ اس خطہ سرزمین پاکستان کے مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

یعنی اے مسلمان! سچایٔ ، عدل و انصاف اور بہادری کا سبق پڑھ، کیونکہ مستقبل میں اس خطہ سرزمین پاکستان کے مسلمانوں کو دنیا کی امامت ملنے والی ہے، اب اللہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس ملک پاکستان سے عروج دلوائے گا اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی میراث دوبارہ دلوائے گا۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک اور جگہ اسی زمرے میں پاکستان کے مستقبل میں اہم کردار کے مطلق فرماتے ہیں۔

عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نطقِ اعرابی

یعنی چودہ سو سال کی اسلامی میراث، پاکستان کے مسلمانوں کو عطا ہونے والی ہے، مسلمانوں کی تہذیب میں جو بھی خیر ہے، اللہ تعالیٰ وہ سب جمع کر کے پاکستان کے مسلمانوں کے ذریعے سے امت کو عروج دلوائے گا، چاہے وہ خلافتِ عثمانیہ کا جلال ہو، ہند کے مسلمانوں کی عقل و دانش یا عربی تہذیب کی فصاحت و بلاغت۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک اور جگہ مسلمانوں کو بشارت دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

یعنی اے مسلمان! بے شک تو آج فرقوں میں تقسیم ہو چکا ہے، تجھے دشمنوں نے پارہ پارہ کر دیا ہے، تیری خلافت کو تجھ سے چھین لیا گیا ہے، لیکن مایوس مت ہو، خدا نے فیصلہ کرلیا ہے وہ دوبارہ اس امت کو عروج دینے لگا ہے، دوبارہ حضور اکرمﷺ کی امت کی شیرازہ بندی کررہا ہے، دوبارہ اس کتاب کی جلد بندی ہو رہی ہے اور امتِ مسلمہ کو دوبارہ خدا اپنے کرم سے متحد کرنے لگا ہے اور وہ شاخِ ہاشمی پھر برگ و بار، مردِ مجاہد پیدا کرنے کو تیار ہے۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کو ایک اور خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا، گیا دور گراں خوابی

مسلمانوں کی غفلت کا دور ختم ہو چکا، ایک نیا سورج طلوع ہو چکا ہے اور یہ بات مسلمانوں کے نئے دور کے آغاز کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

اختتام سے پہلے آپ کے سامنے میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے چند اشعار رکھوں گا، جس میں انھوں نے امتِ مسلمہ کو جھنجھوڑ کر کچھ نصیحتیں کیں ہیں، آپ فرماتے ہیں۔

خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے

اے مسلمان! خدا نے تجھے حضورﷺ کے وسیلے سے دستِ قدرت عطا کیا ہے اور وہ حضورﷺ ہی کے وسیلے سے تجھ سے ہمکلام ہوا ہے، اے موجودہ دور کے غافل مسلمان! تو بس یقین پیدا کر، اگر تو اپنا مستقبل اور عروج حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، تو اللہ تجھے بدل کر آوروں کو لے آئے گا، لیکن وہ اپنا وعدہ اسلام کو پوری دنیا پر نافذ کرنے کا پورا کر کے ہی رہے گا۔

تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی
جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے

یعنی اے نوجوان مسلمان! تیری فطرت اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی چیز ناممکن نہیں، خدا کی کائنات میں بہت سے راز مدفون ہیں، تو ان رازوں سے استفادہ حاصل کر، یہ تیرا امتحاں ہے، یاد رہے یہ سب اشعار اردو میں ہیں، اس لیے ان سے مخاطب پاکستان کے مسلمان ہیں۔

جہانِ آب و گل سے عالمِ جاوید کی خاطر
نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے

اے مسلمان! اس ختم ہو جانے والی دنیا سے سدرۃ المنتہیٰ کے پار معراج کی رات نبوت جس کو اپنے ساتھ لے کر گئی تھی، وہ ارمغاں تو ہے، تو اپنی خودی کو پہچان، اپنے رب پر بھروسہ رکھ، یہاں اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضور اکرمﷺ کی اس حدیث مبارکہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، کہ نماز مومن کی معراج ہے، حضور اکرمﷺ کے وسیلے سے اب یہ مقام امت کو عطا کردیا گیا ہے، اب یہ اس امت کا امتحان اور ہمت ہے کہ کون اس مقام کو حاصل کرتا ہے۔

آخر میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے سارے کلام کا خلاصہ پیشِ نظر کر کے اختتام کروں گا، اگر اے مسلمان! تو دوبارہ عروج حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ مقام جو اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہے، حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اس کا راستہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خود بتا دیا ہے، اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری
ماسوی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

بس یہ ہی اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے سارے کلام کا خلاصہ ہے اور یہی کامیابی کی کنجی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

و آخر دعوانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِين۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اقبال اور مستقبل ۔۔ حافظ علی حسن شامی

  1. السلام علیکم
    میں اس تحریر کے ہر لفظ سے بری الزمہ ہوں۔ میرا اب اس محکمے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس ویب سائٹ سے۔ اس لیے آئندہ کے لیے قارئین اس تحریر کو پڑھنے سے گریز کریں اور اس کو آئندہ کے لیے میری طرف منسوب نہ کریں۔ تحریر کو ڈلیٹ کرنے کا اختیار ویب سائٹ کے مالکان کے پاس ہے۔ وگرنہ میں خود تحریر کو ڈلیٹ کردیتا۔
    (منجانبِ تحریر نگار حافظ علی حسؔن شامی)

Leave a Reply