میڈ ان کرائسس۔۔عارف انیس

ہم سب عام لوگ ہوتے ہیں، پر کوئی نہ کوئی بحران ہمیں ڈھونڈ نکالتا ہے اور پھر ہم خاص ہوجاتے ہیں.
میں مرد بحران کی لیڈر شپ تھیوری کا قائل اور گھائل ہوں. لاکھوں لوگوں سے بولنے اور ہزاروں کی کوچنگ کا موقع ملا تو یہی دیکھا کہ بحران کا غوطہ بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیتا ہے. ورنہ ہم میں سے اکثر لوگ تنویمی حالت میں زندگی گزار دیتے ہیں. دوسرے لفظوں میں کھلی آنکھوں سے سوتے ہیں. اب سوتے کو تو بندہ جگائے، جاگتے کو کون جگائے؟ یہ کام بحران کرتا ہے.
بحران ہر ایک کو راس نہیں آتا. کوئی ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے، کسی کے اندر روشنی در آتی ہے تو کوئی پتھرا جاتا ہے. آپ نے وہ مشہور کہانی تو سنی ہی ہوگی جس میں پانی ابال کر ایک مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے اور اس میں گاجر، انڈا اور چائے ڈالی جاتی ہے. گاجر، گرم پانی میں جا کر نرم ہوجاتی ہے، انڈا جو نرم ہوتا ہے، وہ ابل کر سخت ہوجاتا ہے آور چائے، ہاں چائے ایک عجیب و غریب کام کرتی ہے اور پورے پانی کی ماہیت کو ہی بدل کر رکھ دیتی ہے. جب آزمائش آتی ہے تو اسی طرح سے ہمیں الٹ پلٹ کر رکھ دیتی ہے. مگر کبھی کبھی یہ ہمیں راس آتی ہے اور پوری زندگی کو نئے سرے سے نئے صفحے پر لکھ دیتی ہے.
میں نے ان گنت مواقع پر بہت سے مختلف ملکوں میں بحران ٹیسٹر لگایا ہے اور کلچر اور تہذیب سے قطع نظر جواب ملتا جلتا ہی آیا ہے. جب بھی لوگوں سے پوچھا کہ وہ اپنی زندگی کی کایا پلٹنے والے لمحات کے بارے میں سوچیں، جن کے بعد ان کی دنیا زیر و زبر ہوگئی ہو اور پھر اس جے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہوں تو نوے فیصد افراد کو کوئی نہ کوئی بحران یاد آتا ہے. یہ بحران ہی ہے جو بقول اقبال بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا کرتا ہے. آپ اپنی زندگی پر بھی نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے چیدہ چیدہ لمحات یاد آجائیں گے. اس تھیوری کی رو سے ہم سب کسی نہ کسی بحران کی پیداوار ہیں. وی آر میڈ ان کرائسس.
ہم سب اپنی موجودہ زندگیوں کے سب سے بڑے بحران سے گزرے ہیں جسے ہم کورونا وائرس کے نام سے جانتے ہیں. سچ پوچھیں تو دسمبر 2019 سے لے کر دسمبر 2020 کا وقت ایک سائینس فکشن سے کم نہیں ہے. وائرس کے خوف نے کھربوں ڈالر کا نقصان کیا، مارکیٹیں اجاڑ دیں اور دنیا کے معرف ترین ملکوں میں سناٹے کا راج ہوگیا. نفسیات اور لیڈرشپ کے طالب علم ہونے کے ناطے یہ طلسم ہوش ربا میرے اور معروف مصنف قیصر عباس، دونوں کے لئے ہی ایک انوکھا تجربہ تھا. بنیادی طور پر وہی اس خیال کو لے کر آئے اور ہم دونوں نے اس پر سوچنا، تحقیق کرنا، کھوجنا اور جانکاری کرنا شروع کیا. مارچ سے لے کر اکتوبر تک ٹیموں کے ساتھ بلامبالغہ ہزاروں گھنٹے صرف ہوگئے، دو سو کے آس پاس بین الاقوامی اداروں اور کمپنیوں کا تقابلی جائزہ کیا اور درجنوں عالمی لیڈرز کے رویوں کا مطالعہ کیا. یہ ساری عرق ریزی ایک کتاب میں ڈھل گئی اور دنیا کے جانے پہچانے امریکی پبلشر “ہے ہاؤس” نے اسے چھاپنے کی حامی بھر لی.
اس کتاب کا عرق “پرائس” فریم ورک ہے جس میں ہم دونوں مصنفین نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح اس فریم ورک کو استعمال کر کے لیڈرشپ کرائسس کا حل نکالا جاسکتا ہے. یہ حل افراد اور کمپنیوں، دونوں کے لئے کارآمد ہے.
ہزار کتاب پراجیکٹ کی پہلی کتاب “میڈ ان کرائسس” دسمبر کے اواخر میں لانچ ہورہی ہے. کتاب انگریزی زبان میں ہے اور شاید کچھ عرصے کے بعد اردو میں دستیاب ہوجائے. آپ کو اگلے چوبیس گھنٹوں میں کتاب کے ٹائٹل کو مہورت کرایا جائے گا اور پھر اس کے چیدہ چیدہ نکات سے بھی روشناس کرایا جائے گا.
آپ سب کے لیے بہت سی دعائیں. دعا ہے آپ بحرانوں سے دور رہیں، مگر خدانخواستہ پالا پڑ جائے تو وہ آپ کے لیے خیر کا موجب بنیں. اگرچہ آپ کے بحر کی موجوں میں اضطراب آہی جائے تو پھر آپ سرکش موجوں پر سوار ہوسکیں. آمین.

Facebook Comments