زاویہ(ایک حکایت)اُستادیاں۔۔۔۔جواد بشیر

یہ لفظ ہماری تحریروں میں تو کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتا ہے،لیکن ہماری گفتگو میں اس لفظ کا استعمال معمول کی بات ہے۔
جب بھی کوئی شاگر استاد کے معاملے میں زیادہ ہوشیاری سے کام لے،تو اکثر سُننے کوملتا ہے(پُتر،استاد نال استادیاں)۔

خیر آج کی تحریر میرے اساتذہ اور معاشرے کی مِلی جُلی نصیحتوں پہ ہونے والے اعتراضات پر ہے۔
میں بے ادب نہیں،اس لیے کبھی استادیاں دکھانے کا وقت نہیں آیا،مگر کچھ باتوں کو وقت کے ساتھ پرکھنے کی ضرورت اور اُن میں کچھ کمیاں کوتاہیاں یا کہہ لیجیے کہ اختلافی سی بات نظر آنے لگتی ہے۔

مجھ میں اتنی جسارت نہیں کہ اساتذہ سے اختلاف کرسکوں لیکن اپنے نقطہ ء نظر کوآپ لوگوں کی نذرکرنا مناسب سمجھ رہا ہوں۔

پہلی بات جو آپ نے اکثر اپنے اِرد گرد موجود افراد سے سُنی ہوگی،کہ “یارمجھ سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی”۔۔
اور دو سری بات”اپنا حق چھوڑنا نہیں،دوسرے کا حق رکھنا نہیں ”

پہلی بار سُننے پر دونوں باتیں بہت معقول معلوم ہوتی ہیں۔اورکانوں پر اچھا اثرچھوڑتی ہیں۔لیکن میرے نظریے کے مطابق۔۔
صحیح بات کو برداشت تو نہیں کیا جاتا،اُسے تو پَلّے باندھا جاتا ہے،کیونکہ برداشت تو کیا ہی غلط بات کو جاتا ہے،صحیح کو سب سُن لیتے ہیں،یہ تو کوئی بہادری نہیں۔

دوسری بات اپنا حق ہی تو چھوڑا جاتا ہے،پہلے ہی جو کسی کا ہو،اُس پردھیان دینا تو ویسے ہی نامعقول سی بات ہے۔اپنا حق چھوڑنا ہی توبڑا پن ہے۔

چلتے چلتے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ دونوں میری “استادیاں “نہیں،اختلافِ رائے ہے!

زاویہ(ایک روایت)بِلّے اور بِلّیاں۔۔۔۔جواد بشیر

Advertisements
julia rana solicitors

زاویہ(ایک حکایت)نیا رنگ۔۔۔جواد بشیر

Facebook Comments

جواد بشیر
تحریر بارے اپنی رائے سے کمنٹ میں آگاہ کیجیے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply