متحدہ ہندوستان کے تناظر میں قومیتی نظریات پہ بحث کرتے ہمارے انڈین دوست ایک ڈنڈی مار جاتے ہیں اور ایک ایسا مہین مغالطہ پیدا کرتے ہیں کہ ہمارے بہت سے لوگ انجانے میں اس مغالطہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ہمارا اشارہ قومی ریاست یا نیشن سٹیٹ کے جغرافیہ کی بنیاد پہ قومیتی نظریہ کی طرف ہے۔ تصور یہ کیا جاتا ہے کہ گویا برٹش انڈیا ایک نیشن سٹیٹ یا قومی ریاست تھی جس کی حدود میں رہنے والے سبھی لوگ ایک قوم تھے جس کے لئے ہندوستانی قوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ ہندوستانی کا لفظ تاریخی طور سے صرف گنگا جمنا کی اردو سپیکنگ آبادی کے لئے ہی شروع سے استعمال ہوتا آیا اور برطانوی ہند کے دور میں بھی یہ لفظ عوامی سطح پہ صرف انکے لئے مخصوص تھا ۔۔
حقیقت یہ ہے کہ برطانوی ہند یا متحدہ ہندوستان ایک سلطنت یا ایمپائر تھی ناکہ ایک نیشن سٹیٹ یا قومی ریاست، قوم کا لفظ سیاسیات میں نیشن سٹیٹ کے پس منظر میں ہی استعمال ہوتا ہے ایمپائر یا سلطنت کے افراد کے لیے subject یا رعایا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور وجہ یہی کہ انہیں ایک قوم شمار نہیں کیا جاتا سلطنت کے اندر ایک سے زائد اقوام بھی ہوا کرتی ہیں۔
انگریز اس نکتہ میں واضح تھے انہوں نے ہر قانونی سیاسی دستاویز میں مقامی افراد کے لئے رعایا یا سبجیکٹ کا لفظ ہی برتا اسی طرح برٹش انڈیا کے پاسپورٹ بھی برٹش انڈین ایمپائر British Indian Empire کے الفاظ درج تھے کبھی برٹش انڈین سٹیٹ کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔
لہذا متحدہ ہندوستان کے باسیوں پہ ایک قوم ہونے کا مفروضہ تھوپنا سرے سے ہی غلط ہے لیکن وہ یہ نظریاتی بے ایمانی اس ہوشیاری سے کرتے ہیں کہ عام آدمی اس کو سمجھ نہیں پاتا اور وہ لاشعوری طور پہ نیشن سٹیٹ کے ذیلی مفروضات ، قومی تصور یا ریاستی جغرافیہ کا اطلاق کرجاتا ہے اور بحث کا ڈسکورس ہی مختلف رنگ لے جاتا ہے اور یہی انکا مقصد ہوتا ہے۔۔
اسی طرح انگریز کی آمد سے قبل بھی برصغیر میں مختلف سلطنتیں قائم رہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی نیشن سٹیٹ نہ تھی بلکہ سلطنتیں ہی تھیں جس میں فرد اور حکمران کا رشتہ رعایا اور تاج کا ہی رشتہ تھا لہذا ان سلطنتوں کے جغرافیہ کو بھی کسی قومی ریاست کا جغرافیہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لہذا یہ سوچنا کہ انگریز سے قبل کوئی انڈین ریاست اور قوم موجود رہی یا اس کی آمد کے بعد کوئی متحدہ ہندوستان نام کی ریاست اور اسکی ہندوستانی قوم بھی موجود تھی ایک سفید جھوٹ اور بے بنیاد مفروضہ کے سوا کچھ نہیں، تاریخ اس جھوٹ کی کسی موڑ پہ تائید ہی نہیں کرتی۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ سلطنتیں جب ٹوٹتی ہیں تو انکے ملبہ سے قومی ریاستیں جنم لیا کرتی ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر سے دوسری جنگ عظیم تک کا زمانہ سلطنتوں کے ٹوٹنے اور قومی ریاستوں کے قیام کا زمانہ تھا۔
یہ برٹش انڈیا خالصتاً ایک انگریزی ایجاد تھا جب انگریز چھوڑ کر جانے لگے تو یہ سلطنت بہرحال ٹوٹنا ہی تھی اور اسکے مستقبل کے لئے انگریزوں نے عوام کی رائے لینا ہی تھی ،اس وقت قوموں نے اپنے قومی احساسات کی بنا پہ اپنی قومی ریاستوں کا فیصلہ بھی کیا جو جائز اور سمجھ آنے والی بات تھی۔
لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ برٹش انڈین ایمپائر کوئی قومی ریاست یا سٹیٹ تھی اور اس کے اندر کوئی ایک نیشن یا قوم موجود تھی ،سِرے سے ہی غلط ہے اور اسی طرح برٹش انڈیا کا جغرافیہ کوئی ریفرنس نہیں ہے جس سے آپ کسی ریاست اور اس کی قوم کی موجودگی کا مفروضہ قائم کرسکیں یہ محض دوسرے کو بیوقوف بنانے والی بات ہے۔۔
اس کی ایک دلچسپ مثال برما ہے جو ۱۹۳۷ تک متحدہ ہندوستان کا حصہ تھا اور اس سال انگریزوں نے اسے الگ کالونی کا درجہ دیا۔ اگر متحدہ ہندوستان کا جغرافیہ کسی قومیت کی بنیاد بنتا ہے تو اس صورت میں برمی بھی اس قوم کا حصہ ہیں پھر برما کو اس قومیتی بحث میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا ؟
ہاں جب یہ سلطنت ختم کی گئی اور اس کی بجائے قومی ریاستوں کا قیام عمل میں آگیا تو اس کے بعد سے انہیں قومی ریاستیں ہی شمار کیا جائے گا اور انکا جغرافیہ قومیت کے تعین یا تعریف کے لئے بالکل ایک ریفرنس ہوگا لیکن اس سے قبل ہرگز نہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ سلطنت اور قومی ریاست ، ایمپائر اور نیشن سٹیٹ دو بالکل الگ الگ سیاسی تصورات ہیں اور ایک کے نتائج دوسرے پہ منطبق نہیں کیے جاسکتے قوم کا تصور صرف نیشن سٹیٹ کے لئے مختص ہے سلطنت میں قوم نہیں بلکہ رعایا موجود ہوتی ہے ، ۱۹۴۷ سے قبل ہندوستان میں برطانوی رعایا ہی موجود تھی ایک برطانوی ہندوستانی قوم ہرگز نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں