میں اور کرسمس۔۔۔مبارکہ منور

پانچ ماہ پہلے ہماری ڈوئیچ کورس کی کلاس شروع ہوئی  تو بہت سارے نئے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور بہت ساری نئی کہانیاں معلوم ہوئیں غرض ہر شخص ہی کہانی ہے اپنی الگ زبان، لباس، ثقافت، اور مسائل کے ساتھ۔
کلاس کے شروع شروع میں تو لگتا تھا جیسے سب ہی گونگے ہیں ایک آدھ  لفظ  منہ سے نکالنے کے بعد زیادہ تر انحصار اشاروں پر ہی ہوتا یا پھر خاموشی ہی رہتی ،یہ ہماری اساتذہ کا کمال ہے کہ انہوں نے کس محنت اور جانفاشانی سے ہم گونگوں کو زبان عطا کی۔

ہماری کلاس میں سری لنکا، افغانستان، ایران، عراق، سیریا، پولینڈ ،ترکی، آذربائیجان، بوسنیا ، اور میں پاکستان سے شامل تھی۔کچھ لوگ تھوڑا عرصہ ہوا آئے تھے جرمنی میں اور کچھ دو دو یا تین تین سال پہلے کے آئے ہوئے تھے، اور اسی طرح کچھ تو ٹوٹا پھوٹا بول لیتے تھے اور کچھ میری طرح ڈوئیچ زبان سے بالکل ہی ناواقف تھے۔

ہماری دو کلاس ٹیچرز مقرر ہوئیں دونوں ہی بہت لگن اور محنت سے ہمیں اپنی زبان سیکھاتیں، کلاس شروع ہونے کے قریباً ڈیڑھ ماہ بعد یہاں کرسمَس کی چھٹیاں ہوئیں، چھٹیوں سے پہلے ہماری آخری کلاس تھی جس میں ٹیچرز نے weinachten ( کرسمَس) کے حوالے سے ایک چھوٹی سی تقریب رکھی جس میں چاکلیٹ، مشروبات، بسکٹ سے تواضع کے علاوہ انہوں نے اپنی روایات کے بارے میں آگاہی دی اور اپنی رسوم کو تفصیل سے بیان کیا۔
اس کے بعد انہوں نے ایک ایک کرکے ہر فرد سے پوچھا کہ وہ کرسمَس کس طرح سے مناتے ہیں۔۔
کلاس میں چونکہ مسلمان بھی تھے غیر مسلم بھی اور بعض ایسے بھی تھے جو اپنے ملکوں میں تو مسلمان تھے لیکن یہاں آکر انہوں نے مذہب بدل لیا۔
ٹیچر نے جہاں سے بات شروع کی وہاں پہلے نمبر پر ایک ترک باشندہ تھا جو کہ مسلمان ہے اس نے اتنی اور ایسی ایسی گرم جوش تقریبات کے انعقاد کا بتایا کہ خود ٹیچرز بھی حیران ہو کر مختلف سوالات پوچھ رہی تھیں کہ مثلاً یہ کہ گھروں میں رہ کر مناتے ہو؟
تو کہا نہیں ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ وغیرہ میں جاکر پھر پوچھا فیملی کے ساتھ جاتے ہیں یا دوستوں کے ساتھ؟ تو کہا فیملی کے ساتھ پھر پوچھا رات کو گھر واپس آجاتے ہوں گے؟
تو کہا نہیں بلکہ رات ہوٹل میں ہی گزارتے ہیں۔۔۔ اس کے بعد ٹیچر نے schöne یعنی (اچھی بات ہے ) کہہ کر اس شخص سے گفتگو ختم کی۔

اگلی مخاطب عراق سے آئی  ہوئی  ایک مسلمان خاتون تھیں اس نے بھی اقرار کیا ،وہ بھی کرسمس پر اہتمام کرتے ہیں اسی طرح دو افغان خواتین نے بھی اپنے معمول بتائے۔

ٹیچر کے اگلے کئی  مخاطب غیر مسلم ہی تھے اور ہر ایک   اپنے رسوم و رواج کے بارے میں بتاتا  رہا ، جن میں سے ایک نائجیریا سے آیا ہوا سیاہ فام شخص( جو دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں کا زاویہ ایسا بنتا ہے کہ مخاطب شک میں ہی رہتا کہ یہ مجھے دیکھ رہا ہے یا کسی اور کو) پیشے اور شوق کے لحاظ سے خود کو گلوکار بتاتا ہے اس نے بتایا کہ وہ weinachten کی ساری رات گا کر بسر کرتا ہے۔

مجھے اپنی فکر تھی کہ میری باری آنے پر میں کیا کہوں گی کیونکہ زبان ٹھیک سے آتی نہیں ہے اور کرسمَس ہم مناتے نہیں ہیں۔ آرزو تو تھی کہ میں ٹیچر کو دکھائی ہی  نہ دوں یا خود ہی وہ مجھے رہنے دیں اور کوئی سوال نہ کریں لیکن ایسا نہ ہوا اور آخر میری باری بھی آگئی اور پوچھا گیا کہ آپ weinachten کیسے مناتے ہیں؟
بولنا چاہا تو گلے سے آواز نہ نکلی زور سے کھنکارہ بھرا اور صرف “نہیں” کہہ سکی حالانکہ میرا جواب نامکمل اور محجول سا  تھا لیکن پھر بھی ٹیچرز نے اسے مکمل مانا اور دونوں ٹیچرز نے یک زبان ہو کر میرے بارے میں مسلم کہا اور ایک دوسرے کو بتانے لگیں کہ مسلمان ہے اس کے بعد دونوں نے مجھے ایک مسکراہٹ سے نوازا اور اگلے اسٹوڈنٹ کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

میں خوش تھی کہ بھری کلاس میں جہاں اور بھی مسلمان بیٹھے ہوئے تھے لیکن مسلم کا سرٹیفکیٹ صرف مجھے ہی ملا۔۔۔لیکن فکر اس بات کی بھی تھی کہ میں کوئی واضح جواب نہیں دے سکی اور اپنا نکتہ نظر ٹھیک سے بیان نہیں کرسکی یعنی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی۔۔۔

والی بات تھی مسلم مجھے ٹیچرز نے ایک لمحے میں مان لیا لیکن اسلامی تعلیمات کے بارے میں بتانا ابھی باقی تھا لیکن زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے خود کو گونگی سمجھتی رہی اور گونگے لوگوں کا دکھ اور بے بسی میں نے پوری طرح سے محسوس کیا۔۔
اگلے دن سے دو ہفتوں کی چھٹیاں تھیں لیکن بات میرے ذہن میں رہ گئی ، بہت سوچ بچار کے بعد آخر میں نے گوگل ٹرانسلیٹر کی مدد سے ایک مضمون لکھنے کا فیصلہ کیا اور باقی کے پندرہ دن میں نے اسی ایک صفحے کے خط لکھنے میں گزار دئیے، کیونکہ ایک زبان سے دوسری زبان میں بات کو ترجمہ کرنا اتنا سادہ سا کام نہیں ہے جتنا کہ لگتا ہے ہر زبان کا ایک الگ قائدہ اور الگ اسلوب ہے،پھر جو احباب گوگل ٹرانسلیٹر استعمال کرتے ہیں ان کے تجربے میں بھی یہ بات ہو گی کہ کبھی کبھی ترجمے کا اصل مضمون سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا جو گوگل ترجمہ کرکے دیتا ہے.
بہرحال میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی اساتذہ اور کلاس فیلوز کے نام ایک خط لکھ ہی لیا جو کہ میں نے چھٹیاں ختم ہونے کے بعد اسکول کے پہلے روز اساتذہ کی اجازت سے پڑھ کر سنایا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ

میری محترم ٹیچرز اور سب کلاس فیلوز جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ میری ڈوئیچ ابھی بہت کمزور ہے اور میں کوئی بھی بات وضاحت سے بیان نہیں کرسکتی اسی لئے میں نے یہ مضمون لکھا ہے اور اس کے لکھنے کے لیے میں نے گوگل ٹرانسلیٹر کی مدد لی ہے اور میں جانتی ہوں کہ اس طرح لکھنے سے مضمون میں ربط نہیں رہتا جس پر مجھے افسوس ہے لیکن فی الحال یہ میری مجبوری ہے۔
میرا اس مضمون کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں بتانا چاہتی ہوں کہ جب مجھ سے میری ٹیچر نے پوچھا کہ آپ وائناخٹھن کیسے مناتے ہیں؟ تو میں کچھ کہہ نہ سکی جس پر میں شرمندہ ہوں اور میں آج آپ کو کرسمَس کی مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
اور میں بتانا چاہتی ہوں کہ قرآن کریم میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت بی بی مریم کا بہت احترام سے ذکر کیا گیا ہے اور سب مسلمان حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں،لیکن ہم لوگ ان کی پیدائش کے دن کو جشن کے طور پر نہیں مناتے۔
میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن افسوس کہ مجھے زبان پر دسترس حاصل نہیں۔۔
نیک خواہشات کے ساتھ مبارکہ۔

جب میں اپنا لکھا پڑھ رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ ٹیچرز بہت شوق اور دلچسپی سے میری طرف متوجہ تھیں جب میری بات ختم ہوئی  تو ٹیچرز نے تالیاں بجائیں جس کا پوری کلاس نے ساتھ دیا اس کے بعد میرے لکھے کو سراہا اور وائناخٹھن کی مبارک باد پر میرا شکریہ ادا کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ بہتر جانتا ہے کہ میرے اس خط میں ایسی کیا بات تھی میں نے تو اپنی تعلیمات اپنے  دفاع میں بیان کی تھیں نہ کہ کسی داد و تحسین کی خاطر لیکن اس کے بعد میری اساتذہ مجھ پر بہت مہربان رہنے لگیں اور ان کی توجہ میرے لئے خاص ہوگئی ۔
جسے کلاس فیلوز نے بھی نوٹ کیا اور جو افراد پڑھنے اور ڈوئیچ سمجھنے میں مجھے سے کہیں زیادہ بہتر تھے وہ مجھ سے نالاں رہنے لگے اور بعض مجھے رشک  سے دیکھنے لگے!

Facebook Comments

مبارکہ منور
واقعات اور ماحول، ہاتھ پکڑ کر مجھ سے اپنا آپ لکھوا لیتے ہیں. اپنے اختیار سے لکھنا ابھی میرے بس میں نہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply