شرمناک واقعات!لوگ چپ سادھ لیں؟۔۔۔غازی سہیل خان

گزشتہ ہفتے سے مسلسل  ایسی خبریں سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہیں کہ ایک عام انسان کا سر شرم سے جھک جانا فطری بات ہے۔حال ہی میں  ایک تین سالہ معصوم بچی کے والدین کے مطابق ایک بیس سالہ نوجوان نے ٹھیک افطار سے پہلے بچی کو اپنی ہوس کا شکار بنا ڈالا۔ ابھی اس واقعہ کو چند ہی دن گزرے تھے کہ ایسی ہی ایک اور خبر سوشل  میڈیا  پر گردش کرنے لگی جس میں گاندربل سے تعلق رکھنے والے ایک کنبے  کو روتے اور بلکتے ہوئے دکھایا جا رہا تھا،جس میں ایسے ہی شرم ناک سانحہ کی کہانی سُنائی جا رہی تھی۔
فی الوقت اس طرح کے   واقعات کا رونما ہونا ہمارے سماج کا اب حصہ بنتے جا رہے ہیں، جو کہ انتہائی تشویش ناک امر ہے۔انسانیت کو شرمسار کر دینے والے اس جیسے واقعات کے بعد ان درندہ صفت مجرموں کے خلاف ابھی تک قانون کوئی کارروائی نہیں کر پایا، جس کی وجہ سے اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے جسمانی لذت کے پُجاریوں کے گھناونے عزائم کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ قانون ایسے مجرموں کو عبرتناک سزا دینے میں اب تک مکمل طور سے ناکام ہو چکاہے۔بلکہ آنکھ کھول کر بلا کسی تعصب کے اگر دیکھا جائے تو ایسے مجرموں کے لئے قران مجید نے جو سزا مقرر کی ہے وہ قابل عمل ہی نہیں مانی جاتی، حالانکہ اس شرمناک وبا کا واحد علاج قانون قرآن ہی ہے۔
”زانیہ عورت اور زانیہ مرد،دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارواو ران پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخرپر ایمان رکھتے ہواور اُن کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے“۔(النور:۲)
اگر  اسی  قرآنی قانون کے مطابق  زانیوں اور ہوس کے پُجاریوں،کنن پوشپورہ میں درجنوں ماوں اور بہنوں کی عصمتوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں،آسیہ اور نیلوفرکی عزت کو تار تار کرنے والوں،رسانہ کی آصفہ جیسی ہزاروں بیٹیوں اوربہنوں کی عصمتوں کو لوٹنے والوں کو سزائیں دی جاتیں تو آج ایسی خبریں دیکھنے کو نہ ملتی۔حال یہ ہے کہ اب ہم بھی ایسے دردناک واقعات پر جذباتی ہو کر وقتی ردعمل دکھا کر خاموشی اختیار کر کے روزانہ معمولات میں مست ومگن ہو جاتے ہیں۔ اس جیسے واقعات پر ہمارا وقتی شوروغل کرنا اگرچہ غیرت کی ہی نشانی ہے تاہم ہم نے اخلاقی تعلیم اور اسلام سے اپنی نئی نسل کو نابلد و نا آشنا رکھا ہے، ہم نے اپنے سماج میں اسلام پسندوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں،ہم مسلکی اور گروہی جھگڑوں میں اُلجھ گئے ہیں،آٹھ اور بیس پر مناظرہ بازیاں اور فتویٰ دینا اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا ہے، اسلام کو بحیثیت مکمل نظامِ زندگی تسلیم کرنا تو دور کی بات اس پر رہی سہی موجودہ ہماری خود کی بنائی ہوئی عمارت بھی ہمیں عملاً قبول نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں جدیدیت کے نام پرایسی آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئی ہیں جن پر بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں کہ وہ ”اصل“ کو ”خراب“ کرنے کے لیے کافی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ:
”بچوں کو سیکس ایجوکیشن بھی دی جانی چاہیے،گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کا علم بھی ان معصوم نونہالوں کے ذہنوں میں اُتار دیا جانا چاہے۔وائے حسرت !
ہمارے سماج کا مایوس کن دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کو ہمارے سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر بیٹھے جانبازوں نے بغیر حقائق کے پیش کرنے کی جیسے قسم کھا رکھی ہو۔چند نے تو مبینہ طور پر  زیادتی کی شکار تین سالہ بچی کے بدلے فلسطین کی زخمی حالت میں ایک بچی کی تصویر  سوشل میڈیا پر اتنی وائرل کر دی کہ لوگوں نے اپنے جسموں پر کفن باندھنے   شروع کر دئیے تھے۔ سکول کی  طلبہ وطالبات نے  سکولوں سے نکل کر توڑ پھوڑ شروع کر دی اس توڑ پھوڑ میں وردی پوش اہلکار بھی  پیچھے نہیں رہے۔بلکہ اس احتجاجی وقتی جذباتی سلسلے کے دوران کئی نوجوان پلٹ وغیرہ لگنے سے شدید زحمی ہو گئے، جن میں سے ایک ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں رہ کر آخر کار زندگی کی جنگ ہار گیا۔ حالانکہ ابھی اس بچی سے ہوئی زیادتی کی میڈیکل رپورٹ آنی باقی تھی۔“ لیکن کشمیر ی عوام کا کیا کہنا پر امن احتجاج کے دوران چند سر پھروں نے آو دیکھا نہ تاؤ،نہ صرف عام گاڑیوں بلکہ ایمبولینسوں و دیگر گاڑیوں پرسنگباری کر کے ان کے شیشے وغیرہ چکنا چور کر دیے جس سے کئی مسافر، بیمار اور تیمارداروں کو سیدھا ہسپتال کا رخ  کرنا پڑا۔ ایک اور ستم ہمارے کچھ ” نام نہاد صحافیوں“ کا ہے جو نہ تو صحافتی اُصول مدنظر رکھتے ہیں اور نہ ہی قانون کی پاسداری۔۔ گاندربل کے مذکورہ بالادوسرے واقعے میں ایک جرنلسٹ صاحب نے رپورٹنگ کی آڑ میں متاثرہ لڑکی سے اس کا نام و پتہ اور زیادتی کی ساری تفصیل عوام الناس تک حرفاً حرفاً پہنچا دی۔یہ صاحب ایسے اس کی تفصیل حاصل کر رہے تھے جیسے اس خبر کو اس صحافی کے علاوہ اور کوئی نہیں دیکھ رہا تھا، حالا نکہ  اگر دیکھا جائے تو کسی جسمانی زیادتی کا شکار لڑکی کا نام ظاہر کرنا اخلاقاً  وقاًنوناً جُرم ہے۔ یوں توآج کشمیر میں صحافی بننا کوئی بڑی بات نہیں کیوں کہ ہر گلی اور محلے والے دکاندار اور مزدور نے یوٹیوب چینلز اور نیوز پورٹل بنا   رکھے ہیں۔کوئی روک ٹوک نہیں جس کے بس میں جو آئے وہی کرتا ہے۔صحافت ہے کیا؟زبان و قلم کا کیسے استعمال کرنا ہے؟ اس کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی کوئی روک ٹوک۔ آج کل سوشل میڈیا یعنی فیس بک اور یوٹیوب وغیرہ پر ایسے نامی گرامی رپورٹرز  کی خبریں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں جن میں وہ زبان و ادب کا ستیاناس کر دیتے   ہیں   اور ساتھ حقائق کو توڑ مڑوڑ کر عوام کو گمراہ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اس نام نہاد صحافتی یلغار کو روکنے کے لیے ہمارے یہاں کی صحافتی برادری کو اس طرح کے معیار کو ختم کر کے اصل معیار پر واپس لانے کے حوالے سے اقدامات اٹھانے کی  ضرورت ہے تاکہ معیاری اور حقیقی صحافت کے ساتھ ساتھ عوام کے سامنے حقائق صحیح معنوں میں پہنچ سکیں۔سما جی رابطہ کی ویب  سائٹس  پر بیٹھے نوجوانوں کو اپنی حدود میں رہ کر ہی اپنی رائے دینی چاہیے،اشتعال انگریزی سے اجتناب کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے کوششیں ہونی چاہئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہر حال اس تین سالہ بچی سے زیادتی اگر ثابت ہوتی ہے تو بحیثیت مسلمان ہمارا یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ اس درندہ صفت شیطان کو ایسی دردناک سزا دی جائے  کہ جس سے دوسرے لوگوں کے دل کانپ اٹھیں اور آئندہ کوئی ماں،بہن اور بیٹی اس درندگی کا شکار نہ ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply