کشکول کب ٹوٹے گا؟۔۔قیصر اقبال

کیا  آپ کو کسی بھی زاویے سے لگتا ہے کہ اس ملک میں آپ کا اور آپ کے بچوں کا حال اور مستقبل محفوظ ہے؟

کیا آپ کو لگتا ہے کہ جو تعلیم آپ نے حاصل کی ہے وہی تعلیم آپ اس ملک میں اپنے بچوں کو دلوا سکوگے؟ معاشی بحران کے شکار ملک میں اور ہر طرف سے چوروں لٹیروں کے بیچوں بیچ پھنسی ہوئی عوام آنے والے وقتوں میں حالات کا مقابلہ کر سکیں گے؟

مجھے کسی بھی زاویے سے نہیں لگتا۔

کیونکہ کہ آپ کے پاس ہر غم، خوشی، بیماری، سیلاب، بارشوں، ڈیمز، ہسپتالوں کی تعمیر اور مرمت زندگی کے شعبے کو چلانے کا صرف ایک ہی شاندار حل ہے۔۔

کشکول آگے کرو۔۔

سسٹم ٹھیک کرنے، لوٹی ہوئی دولت واپس لانے، چوروں کو جیلوں میں بند کرنے، بیرونی قرضوں سے نجات دلانے، سٹنٹیڈ گروتھ کے شکار عوام کی بنیادی ضروریات زندگی بہتر کرنے کے بعد ایک بار پھر وزیراعظم نے کرونا وائرس پینڈیمک سے نمٹنے کے لیے اوورسیز پاکستانیوں سے ڈونیشن کی اپیل کی۔

کیا واقعی آپ کے پاس ہر مسئلے کا حل یہ ہے کہ کشکول آگے کرو؟

دنیا بھر میں سب لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے، کاروبار کی بندش کی وجہ سے ،یا تو ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا آنے والے وقتوں میں بیٹھیں گے۔ ساری دنیا صرف کھانے پینے کی اشیاء خریدنے تک آ گئی ہے۔

اور آپ کو ڈونیشن کی سوجھی ہے۔

وزیراعظم صاحب اور اس کے کارندوں سے پوچھنا تھا کہ صرف متحدہ عرب امارات میں پینتیس ہزار پاکستانی بیروزگار ہو گئے ہیں۔ ایمبیسی میں رجسٹرڈ ہیں کہ وہ جلد از جلد پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں۔ کیا ان کے لیے ابھی تک کچھ کیا گیا ہے؟ کچھ کرنا تو درکنار، متحدہ عرب امارات کی حکومت سے اس بارے میں صرف بات بھی ہوئی ہے کہ نہیں؟
نہیں! بات نہیں ہوئی ہے کیونکہ کل وہاں کی حکومت کا ایک ٹویٹ نظر سے گزرا ہے۔

کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ٹائگر فورس کے لیے پرنٹ کیے جانے والی  شرٹس پر 450 ملین روپے خرچہ؟ کیا ہم ابھی اس حالت میں اس چیز کو افورڈ کر سکتے ہیں؟

کرونا وائرس سے بچنے کے لیے، اپنے لیے حفاظتی انتظامات کا مطالبہ کرنے پر کچھ دن پہلے بلوچستان میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل  سٹاف کی ڈنڈوں سے تواضع کی گئی۔کوئی بھی انسانی معاشرہ اس حالت میں اس کی اجازت دے سکتا ہے؟

پڑھی لکھی پاکستانی یوتھ کی اکثریت بیروزگاری سے لڑ رہی ہے۔ ان کے روزگار کے لیے حکومت نے کیا کچھ کیا ہے؟ وزیراعظم کا وفاقی وزیر بیروزگار نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ صرف بیوقوف اور کام چور لوگ نوکریوں کے لیے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں۔

ہمارا مستقبل محفوط بنانے کے لیے ڈیم کے نام پر کتنا پیسہ اس قوم سے اکٹھا کیا گیا؟ پیسوں کا کوئی حساب کتاب ہے؟ ڈیم پروجیکٹ کا کوئی منصوبہ ہے ابھی ؟

ڈونیشن سے کسی غریب کا گھر چل سکتا ہے مکان بن سکتا ہے علاج ہو سکتا ہے۔۔۔حکومتیں نہیں چلتیں
اس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے،سخت فیصلوں کی ضرورت ہے جو کہ ہم نہیں کر سکتے،کیوں کہ کوئی دوست ہے کوئی رشتہ دار ہے،کسی نے مالی مدد کی ہے وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کابینہ کو فارغ کرو،ان کی عیاشیوں پر خرچ ہونے والا عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کا رخ  کچھ عرصے کے لیے ہسپتالوں کی طرف کریں۔بڑی بھینسیں بیچیں ،بڑی گاڑیاں نیلام کیں ،وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا، بہت منجن بیچا ،بہت چورن بیچا۔مختلف جھوٹے منصوبوں کے لیے اربوں کے اشتہارات چلائے ،عوامی ٹیکس کا پیسہ ان میں جھونکا گیا ،عوام ستو  پی کر خوش ہو رہی تھی،اب کرونا پینڈیمک نے آ گھیرا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ آستین چڑھا کر خود اپنی کابینہ سے اور حکومتی حصہ داروں سے  پیسے اکٹھے  کرنے کی شروعات کی جائے۔۔نہیں تو عوام کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔اب ڈراموں کا وقت نہیں رہا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply