تھر کا سفر۔۔محمد احمد/قسط3

تھر کا سفر۔۔۔ محمد احمد/2

Advertisements
julia rana solicitors london

سفر اپنی آب وتاب سے جاری تھا، بس سارے سفر کی رونق اور روح ہماری محفلیں اور مجلسیں تھیں جن سے سفر کا مزہ دوبالا محسوس ہو رہا تھا، لطیفے، چٹکلے اور تاریخی واقعات اور آپس میں ہنسی مذاق نے سفر کی تھکاوٹ محسوس  نہیں ہونے   دی، حالانکہ تھر کا سفر عمومًا کٹھن اور مشکل ہوتا ہے لیکن ہماری سنگت کے ظریفانہ طبع اور حسین گلدستے نے ساری مشکلات کو آسان کردیا تھا۔
اسلام کوٹ سے ہماری منزل ننگر پارکر تھا، زمانے کی تبدیلی نے تھر میں بھی بڑی جدت لائی ہے، اب وہ مشکلات اور تکالیف نہیں جن کا تصور ہمارے ذہنوں میں ہوتا ہے۔ وہاں بھی زندگی جدید طرز پر استوار ہونے لگی ہے، پہلے کچے مکانات ہوتے تھے اور تھری لوگ بیلوں اور گدھوں کے ذریعے اپنے کنوؤں سے پانی نکالا کرتے تھے اب سولر سسٹم کے آنے کے بعد سولر کے موٹر پر پانی نکالنے کا انتظام تھا، پہلے تھر میں راستے اور سڑکیں کچی تھیں اب ہر طرف سڑکوں کا جال بچھ گیا ہے، کچھ تو حکومت نے ملازمتوں کے بعد کام کیا ہے اور کچھ فوجی چیک پوسٹس کی برکت سے ہوا ہے اور کچھ این جی اوز نے اپنے مفادات کی خاطر ڈیویلپمنٹ کی ہے۔ شام کا وقت ہورہا تھا گہرے بادل چھائے ہوئے تھے عجیب اور دلکش نظارہ تھا، اب راستے میں ہندوؤں کا مشہور گوری مندر آرہا تھا ہم نے اس کا رخ کیا، یہ مندر قدیم ہے جسے گوری مندر کہا جاتا ہے، یہ ننگر پارکر کے قریب ویرواہ مندر سے شمال مغرب میں 14 میل دور واقع ہے اس کی تعمیر 1375-1376ع میں ہوئی ہے، اس مندر کا کل رقبہ 125×25 فٹ ہے، سنگ مر مر سے بنا ہوا یہ مندر ایک اسٹیج کا احاطہ بھی کرتا ہے، اور مندر کی دیواروں پر ہندوؤں کی مذہبی رسومات اور عقائد کی عکاسی کرتے نقش و نگار کی گئی ہے۔ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے قدیم دور میں اتنی مضبوط اور شاندار عمارت، یہ مندر جین مذہب کے فرقے شویت امبر کے پیروکاروں کا مانا جاتا ہے۔ اور جین مذہب کے پیروکار اس کو مذہبی ادارے کے طور بھی استعمال کرتے رہے  ہیں۔ ہم جب داخل ہوئے تو مندر کے اندر ایک عجیب قسم کی سخت بدبو تھی جس نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہمارے اندر مندر گھومنے کی سکت نہیں رہی، ایک عجیب سی وحشت اور نحوست تھی لہٰذا واپسی میں ہی عافیت محسوس کی۔اب پھر اگلا ہمارا پڑاؤ قدیم تاریخی گاؤں بھالوا سے ایک کلومیٹر کی مسافت پر واقع ماروی کا کنواں (ماروی جو کھوہ) تھا، جس کے لیے مشہور ہے کہ اس کنویں سے ماروی نامی ایک تھری خوبصورت عورت پانی نکال کر ایک مٹی کے گھڑے میں بکریوں کو پلاتی تھی، ایک دن ماروی کنویں سے پانی بھر رہی تھی ادھر اس وقت کا بادشاہ عمر سومرو گزر رہا تھا جیسے ہی ماروی پر نظر پڑی تو خوبصورتی کی انتہا دیکھ کر ششدر رہ گیا، اور ماروی کو قید کرکے اپنے ساتھ عمر کوٹ لے گیا، شادی کے لیے بڑی منت سماجت کی مگر ماروی اپنے اعزہ و اقارب کو یاد کرکے روتی رہتی تھی، جب ماروی شادی کے لیے راضی نہ ہوئی تو اسے قید و بند کی صعوبتوں میں رکھا مگر پھر بھی ماروی اپنے موقف پر ڈٹی رہی، جب بادشاہ مایوس ہوچکا تو اسے آزاد کرکے اس کے گاؤں چھوڑ کر آیا، اس واقعے کو یہاں سندھ میں لوک داستان کی حیثیت حاصل ہے، جس کے لیے کئی ایک کتابیں لکھی گئی ہیں، سندھ کے مشہور شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے اپنے رسالے میں اس پر خوب شاعری کی ہے، اور اس پر شاہ جو رسالو میں ایک مستقل داستان شامل ہے، جسے داستان عمر ماروی کہا جاتا ہے اور جس سوز و انداز سے یہ داستان پڑھا جاتا ہے اسے سُر ماروی کہا جاتا ہے. اب یہ کنواں اپنی اصلی حالت میں برقرار نہیں ہے حکومت کے مرمتی کام کے بعد اس کی ساخت اور بناوٹ تبدیل ہوچکی ہے۔ یہاں محکمہ ثقافت کی طرف سے میلے بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں جس میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کے بعد قافلے کا اگلا پڑاؤ بھوڈیسر کی مسجد پر تھا، یہاں بہت حسین اور خوبصورت منظر تھا، کارونجھر کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع اس مسجد کا منظر قابلِ دید تھا۔ جہاں ہمیں عصر کی نماز پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی. 1026ع میں محمود غزنوی نے سومنات کے مندر کی فتح کے بعد راجاؤں کی آپس کی لڑائی کا سن کر تھر کا رخ کیا، پھر پانی کی تلاش میں اس بستی میں واقع تالاب پر بھی آئے تھے، اس کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے، ایک قول یہ ہے کہ ظفر شاہ نے مندر کو مسجد میں تبدیل کیا تھا، یہ مسجد چھوٹی ہے۔ اس کے متصل بھوڈیسر کا تالاب ہے جس کی تاریخ بھی قدیم ہے، چھٹی صدی عیسوی میں یہ بنایا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس بستی میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے برہمنوں کے کہنے پر راجا نے اپنے بیٹے کو ذبح کیا تھا پھر بارش ہوئی تھی، اس تالاب کا طول چار سو اور عرض دو سو فٹ ہے۔ اس کی طرف جانے والی سیڑھی میں تیس قدم ہیں۔ سابقہ حکومت نے تالاب کی مزید کھدائی کے بعد پتھر کا مضبوط بند باندھا ہے۔ اسے تالاب کہیں یا ڈیم سمجھ لیں۔ اس میں سال کے اکثر مہینے پانی موجود رہتا ہے، لوگ اپنی ضروریات پوری کرتے رہتے ہیں، دوسری بات جو اس ڈیم کے لیے مشہور ہے کہ یہاں پاؤں بہت جلد پھسل جاتے ہیں، کیونکہ یہاں پر پتھر بہت چکنے ہیں اس وجہ سے دور سے ہی نظارہ کرنے میں عافیت ہے۔
اب اس تالاب کے بعد جین مندر ہے جو ایک قدیم عمارت ہے۔کہتے ہیں پونی نامی خاتون نے اپنے شوہر کے یادگار کے طور پر بنایا تھا۔ مندر کا رقبہ
6 .39×10. 32 فٹ ہے۔ اس کی اونچائی 10.32
ہے. اس کی حالت اتنی نازک تھی کہ اس کو سہاروں کے ذریعے کھڑا کیا گیا ہے، شاید دو تین موسلادھار بارشوں کے بعد دھڑام کرکے گرجائے۔ مندر گھومنے سے ہماری کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی بس اس زمانے کی صنعت اور کاریگری دیکھنے کا ذوق تھا، بڑے کمال کے معمار تھے جنہوں نے پتھر پر اتنی شاندار عمارتیں قائم کی ہیں، دوسری طرف بنوانے والوں کے حسنِ ذوق کا بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ بھی اعلی ذوق رکھتے تھے۔ کارونجھر کے دامن میں واقع سارے منظر نامے اور آثارِ قدیمہ پر نظر ڈالنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں بڑی ریل پیل تھی اور یہاں کے باشندے بڑے خوشحال تھے۔
اب مغرب ہوچکی تھی کارونجھر پر سورج کے الوداع اور غروب شمس کا منظر ہی کچھ اور تھا۔
سورج کے غروب کے ساتھ ہم بھی اجازت لے چکے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply