اسلامی ریاست پاکستان اور غیر مسلم اقلیتوں کا حال۔۔سفیر رشید

اسلام ایک امن پسند مذہب ہے، اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور معافی پر دیا گیا ہے اور یہ بار بار قرآن پاک میں فرمایا کہ اللہ پاک معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے، نبی کریم ؑکا ارشاد پاک ہے کہ معاف کرنے سے عزت گھٹ جائے تو  قیات مے دن مجھ سے لے لینا، اور جہا ں پر اسلام حقوق اللہ کادرس دیتا ہے وہیں یہ حقوق العباد پر  بھی زور دیتا ہے۔ حقوق العباد کے معا ملے میں یہ اتنا حسّاس ہے کہ حقوق اللہ تو اللہ تعالیٰ چاہیں تو معاف فر مادیں گے لیکن حقوق العباد اس وقت  تک معاف نہیں ہو سکتے جب تک وہ بند ہ خود معاف نہ کر دے ،جس کے حقوق تلف کیے گئے ۔

حقوق العباد میں پڑوسی کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق،والدین کے حقوق،دوست احباب حتی کہ ہر وہ بندہ جسے آپ سے  لین دین ہو ،سب کے اسلام نے حقوق رکھے ہیں۔ اسلام حقوق العباد میں نہ صرف اپنے ماننے والوں کے حقوق کا تعین کرتا ہے بلکہ دیگر مذاہب کے لو گوں کو بھی امن وسلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ حضورؐ کا خطبہ حجتہ الوداع جو انسانی حقوق کے لیے سب سے بڑی مثال ہے اور یہ ایک ایسا منشور ہے کہ اس سے پہلے نہ ایسا منشور کسی نے دیا ہے اور نہ اس کے بعد کوئی دے سکتا ہے۔ یہ منشور اسلامی ریاست کی بنیادی  حیثیت رکھتا ہے، جس میں رہنے والے باشندے دو حصوں سے تعلق رکھتے ہیں، ایک وہ جو اسلام کے ماننے والے ہیں ،یہ مسلمان کہلاتے ہیں دوسرے وہ جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کو مانتے ہیں ،جیسے مسیحی ،یہود،ہنود،سکھ وغیر ہ ان کو غیر مسلم کہا جاتا ہے   یا ان کو اقلیت سے بھی تعبیر کیا جا تا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ دین اسلام کے ما ننے والوں نے ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان حقوق کا خیال بھی رکھا، فاتح بن کر جب مسلمان کسی ملک میں داخل ہو ئے تو انہوں نے نہ صرف ان لو گو ں کی عبادت گا ہوں کا خیال رکھا بلکہ ان کے گھروں اور ان کے جان ومال ،عزت وآبرو اور ان کی زرعی زمینوں کے تحفظ کو بھی نقصان نہیں پہنچایا۔ دین اسلا م نے اپنے ماننے والوں پر ابتدا ء سے ہی یہ واضح کر دیا جو بھی غیر مذاہب تمھارے مقابلے پر نہ آئے اور تمھارے خلاف سازشیں نہ کرے اور تمھارے دشمنوں کا ساتھ نہ دے اور تمھیں نقصان پہنچانے میں ملوث نہ ہو اور تمھارے ساتھ معاہدے کے مطابق پا سداری کرتے ہوئے امن وآشتی سے رہے تو اس کی عزت وآبرو ،جان ومال اور املاک کاتحفظ تم پر ایسے ہی فر ض ہے جیسے ایک ادنی مسلمان کی جان ومال ،عزت وآبرو کا تحفظ ہے۔ اگر تم ذرہ برابر بھی فر ق کرو گے تو کل تمھیں اللہ تعا لی کی عدالت میں جواب دینا ہو گا، حضور پا ک ؐ نے تو یہاں تک اپنے ماننے والوں کو فر ما یا کہ کسی بوڑھے پر ،عورتوں پر،بچوں پر حتی کہ وہ شخص جس کے خاندان کے لوگ تم سے مقابل ہوں اور وہ تمہارے خلاف میدا ن میں نہ آئیں تو ان پر تمھیں ہاتھ اٹھا نے کی اجازت نہیں ہے۔

اسی طرح وہ شخص جو اپنی عبادت گاہ میں عبادت میں مصروف ہو تو اس پر بھی تم ہتھیا ر نہیں اٹھا سکتے ۔اگر تم فاتح بن جا ئو تو پھربھی ان لو گوں کی عبادت گاہوں اور املاک کو نقصان پہنچانے ، کھیتیوں اور پھل دار  سر سبز وشاداب درختوں کے کاٹنے سے بھی میں(خدا کا پیغمبر) تمھیں منع کر کے جا رہا ہوں۔ حا لت جنگ میں ہر حریف کی کوشش ہو تی ہے کہ دو سرے حریف کو زیا دہ سے زیاد ہ نقصان پہنچائے لیکن نبی دوعالم ، حا لت جنگ میں بھی صحابہ کرام ؓ کو جو ہدایات دے رہے ہیں وہ انسان تو انسان چرندوں پرندوں کو بھی تحفظ فراہم کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔کوئی جر نیل بھی اپنی فو ج کو ایسی ہدایات نہیں دیتا جو سر کار دو عالمؐ نے صحابہ کرام ؓاور اپنے ماننے والوں کو دی ہیں۔ یہ تعلیمات سب کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔نبی کریم ؑ نے غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے اور ان معاہدوں پر عمل بھی کروایا۔ کیا ہم موجودہ اسلامی ریاست میں ان غیر مسلموں کی اسی طرح حفاظت کرتے ہیں ؟؟ یا انکی عبادت گاہیں اسی طرح محفوظ ہیں ؟؟

خلیفہ دوم ، سید نا حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور خلافت میں ایک یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو بلا کر اس کی وجہ پو چھی تو اس یہودی نے جواب میں کہا کہ امیر المومنین ؓ ! کوئی کام میں اس عمر میں کر نہیں سکتا اور معاہدے کے مطابق مجھے جزیہ بھی دینا ہے کیونکہ میں ایک اسلامی ریاست کا باشندہ ہو ں اور اسلامی ریاست بھی میرے حقوق کا تحفظ اسی طرح کرتی ہے جیسے ایک مسلمان فرد کے حقوق کا کرتی ہے چنانچہ جزیہ ادا کر نے کے لئے بھیک مانگتا ہو ں ۔حضرت عمر ؓ نے جب اس بوڑھے غیر مسلم کے الفاظ سنے تو آپ نے شوریٰ کو بلا یا اور متفقہ طور یہ فیصلہ فر ما یا کہ آج کے بعد کسی بھی بوڑھے غیر مسلم سے جزیہ نہیں لیا جا ئے گا اور اس کی ادائیگی سے وہ بری ہو گا ۔

محمد بن قاسم جب سندھ فتح کر کے واپس جا نے لگے تو یہاں کہ غیر مذہب باشندے ان کی واپسی پر رورہے تھے اور یہ جملہ ان کی زبان پر تھا کہ محمد بن قاسم کے دور میں ہمیں جو سکون میسر ہوا تھا وہ اپنے حکمرانو ں نے کے دور میں بھی نصیب نہ ہو سکا ۔

ہمارے مذہب اسلام کے خلاف ہر دور میں اشتعال انگیز لٹریچر شائع ہو ا اور معاذاللہ قر آن مجید کو جلانے اور حضور نبی کر یم ؐ جیسی عظیم اور مقدس ہستی کے خاکے شائع کر نے کی نا پاک اور مذموم جسارت کی گئی لیکن امت مسلمہ نے اس کے بدلے میں کسی دوسرے شخص ،گروہ یا جماعت کو نشانہ نہیں بنا یا اور نہ ہی کسی گر جے یا کلیسے کو نقصان پہنچا یا بلکہ اس اصول کو مدنظررکھا کہ سزاء صرف اس شخص کو دی جا ئے جو مجرم ہے نہ کہ ان لو گو ں کو جو مجرم کے خاندان ،قوم ،قبیلے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔

امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کا ایک پڑوسی جو کہ غیر مسلم تھا ہر وقت آپ کو پریشان کرنے کی کو شش کرتا تھا یہاں تک کہ گھر کا سارا کوڑا کرکٹ اور گند جمع کر کے رات کو آپ کے گھر میں پھینک دیتا صبح اٹھ کر آپ کو صفائی کرنی پڑتی۔ چنددن گذرے وہ نظر نہ آیا امام اعظم نے اس کے بارے میں جب پو چھا تو بتا نے والوں نے بتا یا کہ کسی قرض کے سلسلے میں اس کو پو لیس پکڑ کر لے گئی ہے امام اعظم سیدھے قرض خواہ کے پا س پہنچے اور اس کا قر ض ادا کیا اور اس کو جیل سے رہا کر واکر لے آئے اور فر ما یا غیر مذہب ہے تو کیا ہے پڑوسی بھی تو ہے، میں نے تو پڑوس کا حق ادا کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا ہم اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کا حق ادا کررہے ہیں ؟؟کیا وہ پاکستانی نہیں ؟ جتنا حق ہمارا ہے اتنا ہی انکا ہے ۔ یہ میں نہیں بلکہ یہ ہمارا اسلام ہمیں درس دے رہا ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کا کیا حال ہے ہم کسی ایک کی سزا دوسرے کو کیوں دینے لگ جاتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم خود اسلام کو کتنا فولو کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply