کرتار پور راہداری، حقائق۔۔۔چوہدری عامر عباس

جغرافیائی اعتبار سے پاکستان خصوصی اہمیت کا حامل خطہ ہے مختلف مذاہب کے لوگ پاکستان کے طول و عرض میں رہائش پذیر ہیں تاریخ میں دیگر مذاہب کی طرح سکھ مذہب بھی اپنی پہچان رکھتا ہے۔سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو(اگر مکھی پنجابی) 1469ء کو پاکستان کے شہر کرتارپور میں پیدا ہوئے اور 1539ء کو وفات پائی۔ان کا عرس اکتوبر-نومبر میں پورے چاند کے دن یعنی کاتک کی پورن ماشی کو منایا جاتا ہے۔

گرو نانک دیو کی تعلیمات کے بارے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق ان کے اپنے سکھ مذہب کی تعلیمات ہیں جو بابا گرونانک نے سکھاٰئیں۔ اور دوسرے نظریہ میں ان کے نزدیک کسی خدا یا نبی کا کوئی تصور نہیں وہ ان تعلیمات کو بابا جی کی روشن قرار دیتے ہیں۔

کرتارپور پاکستان کا ایک علاقہ ہے جو نارووال میں واقع ہے۔بابا گرونانک کا مزار اسی کرتارپور میں واقع ہے۔ پاکستان اور انڈیا کی کشیدہ صورتحال اور بار بار سفارتی پابندیوں کے پیش نظر ہر سال سکھ برادری کوعرس میں شامل ہونے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے سکھ مذہب کے کروڑوں پیروکار اسی کرتارپورکو اپنا مکہ اور مدینہ مانتے ہیں اور ہرسال عرس میں شامل ہونے کےلیے انڈیا سے پاکستان آتے ہیں-

گزشتہ دنوں کرتار پور راہداری کے معاہدے پر پاکستا ن اور بھارت نے دستخط کیے ہیں اس کی تجویز پاکستان نے دی جو کہ بلاشبہ پاکستان کی طرف سے سکھ برادری کےلیے ایک بڑا تحفہ ہے جو کہ کرتارپور راہداری کی صورت میں انہیں دیا گیا ہے یہ ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس منصوبے کے تحت باہمی محبت اور مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان 1947ء کے بعد جو تعلقات خراب ہوگئے تھے انکی بحالی میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی۔

اس منصوبے سے پاکستان اور سکھ برادری کے تعلقات نئے سرے سے پروان چڑھیں گے
سکھ برادری پاکستان کو اپنا مکہ اور مدینہ تصور کرتے ہیں۔ان کے مذہبی پیشوا بابا گرونانک دیو جی کا مزار ان کے لیے اس قدراہمیت کا حامل ہے جس قدر مسلمانوں کیلئے خانہ کعبہ ہے۔ بلاشبہ کرتار پور راہداری کے منصوبے نے سکھوں کے دل جیت لیے گئے ہیں۔ آج تمام سکھ برادری کی خوشی دیدنی ہے اور ان کے جزبات اور احساسات کا اندازہ ان کے رویوں اور بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں ہندوستان نے بھی اس سلسلے میں ساتھ دیا جس سے یہ منصوبہ پایا تکمیل کو پہنچا۔

اس سلسلے میں 24 اکتوبر 2019 بروز جمعرات ننکانہ صاحب کی زیرو لائین پر دونوں ممالک کی طرف سے اس معاہدے پر دستخط ہوئے اور 9 نومبر 2019 کو وزیراعظم پاکستان اس منصوبے کا افتتاح کرکے بابا جی کے 550 ویں جنم دن پر سکھ یاتریوں کو کرتار پور راہداری کی صورت میں بیش بہا تحفہ دیں گے ۔
بھارتی پنجاب کے سکھ وزراء کا کہنا ھے کہ اس منصوبے سے مذہبی،معاشی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ ملے گا یہ منصوبہ پاکستان کےلیے معاشی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے لاکھوں کی تعداد میں سکھ یاتری ہر سال پاکستان آئیں گے، ایک یاتری کی فیس صرف بیس ڈالر رکھی گئی ہے اور روزانہ پانچ ہزار سکھ یاتری پاکستان آئیں گے یعنی ہر سال خاطرخواہ رقم ریونیو کی صورت میں پاکستان میں آئے گی۔ اس طرح معیشت پر بھی بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے

وزیراعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے معاشی،معاشرتی اور مذہبی رواداری کو فروغ ملے گا۔ دوسرے ملکوں میں مقیم سکھ یاتری پاکستان آ ئیں گے تو دنیا بھر میں پاکستان کےلئے امن پسندی کا تاثر ابھرے گا جو پاکستان کے سفارتی محاذ پر تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہو گا۔ لوگ باہر سے آئیں گے تو انھیں اندازہ ہوگا کہ حقائق کیا ہیں، پاکستان کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور ہم کیا سمجھتے رہے۔ شنید ہے کہ حکومتی سطح پر ایک ڈاکومنٹری بنائی جائے گی اس ڈاکومنٹری میں پنجاب کی ثقافت، مسلمانوں کے سکھوں کے ساتھ رویے، پاکستان کا امن پسندی دیکھائی جائے گی یعنی پاکستان کا حقیقی اور امن پسند چہرہ سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔

یہ راہداری پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کا وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے آگے چل کر یہ خطہ امن اور سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے اس راہداری کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں سکھ برادری کے لوگ اپنے مذہبی پیشوا بابا گرو نانک جی کے دربار پر حاضری دیں گے اور مذہبی رسومات آذادی سے ادا کریں گے جس طرح ہمارے لئے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ محترم ہیں اسی طرح سے کرتارپور یا بابا گرونانک کا دربار بھی سکھ برادری کے لئے بہت ہی مقدس اور احترام کی جگہ ہے۔
اگر پاکستان سکھ برادری کےلیے اتنی کوشش کر رہا ہے تو بدلے میں سکھ برادری بھی پاکستان کے لیے اپنی محبتیں نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں اس سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ کی کیفیت کو کسی حد تک کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ہمارے پاس ایک بہترین آپشن ہے کہ پاکستان کے اندر ہم ٹورازم کو فروغ دیں اور اپنے ملک کے اندر ایسے تفریحی مقامات اور ایسے سیاحت کے پروگرام متعارف کروائیں جس سے سیر و سیاحت کی غرض سے دنیا بھر سے لوگ پاکستان میں آئیں۔
کرتار پور راہداری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اس سے مراد وہ راستہ ہے جو کرتار پور کی طرف جاتے ہوئے انڈیا اور پاکستان کے درمیان بنایا گیا ہے ویسے تو سکھ دنیا کے طول و عرض میں مقیم ہیں لیکن بھارتی پنجاب ہی ان کا مرکز ہے دنیا بھر میں مقیم اکثر سکھ بھارتی پنجاب کے راستے ہی پاکستان آیا کریں گے۔ پہلے تو معاہدہ یہ تھا کہ بھارتی سفارت خانہ کسی بھی سکھ یاتری کی آمد کی بابت دس دن قبل مطلع کرے گا لیکن حال ہی میں مابین فریقین اس شرط کے خاتمے پر اتفاق ہوا ہے البتہ سکھ یاتریوں کے پاس پاسپورٹ اور سفری اجازت نامہ ہونا ضروری ہے تمام مذاہب کے لوگ اس راہداری سے استفادہ کر سکیں گے یہ راہداری سارا سال کھلی رہے گی سفر سے پہلے یاتریوں کی تصدیق کی جائے گی جس میں ان کی مکمل تفصیلات شامل ہوں گی
پاکستان ان یاتریوں کے لئے قیام و طعام کا مکمل اہتمام کرے گا۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply