تھر کا سفر۔۔۔ محمد احمد/2

تھر کا سفر۔۔۔محمد احمد/قسط1

تاریخی اور قدیمی صحراء تھر پاکستان کے جنوب مشرق اور بھارت کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ 22 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا نویں نمبر پر بڑا صحرا ہے۔ غیر سرکاری اعداد شمار کے مطابق اس کی کل آبادی پندرہ لاکھ ہے، یہاں کے باشندے سادہ لوح اور عام طرز پر زندگی بسر کرتے ہیں ان کا گزر  سفر بارانی پانی اور مال مویشی پر ہے۔ ان کی نظریں ہمیشہ آسمان میں لگی رہتی ہیں، بس خدا کرے بارش ہوجائے۔

یہاں گھر بنانے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے جسے “چؤنرا” کہتے ہیں، جو سردی میں گرم اور گرمی میں ٹھنڈا رہتا ہے۔بارش کے پانی سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ تھر سندھ میں دودھ، گوشت، چمڑے کی صنعت کی ستر فیصد کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ ہمارے میزبانوں نے تھر میں ہمارا پہلا سفر ملکی بارڈر پر واقع آخری گاؤں کیتار کا رکھا تھا جسے “مولوین جی بستی” بھی کہتے ہیں۔ یہ گاؤں عمر کوٹ سے ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ گاؤں کی کل آبادی بیس سے پچیس ہزار پر مشتمل ہے۔ اور بیس مساجد ہیں۔ بس رات کا وقت اور صحرا تھر کا نہ ختم ہونے والا سفر جاری تھا۔ تیز رفتار سے گاڑی چلتی رہی، ہر طرف جھاڑیاں، جنگل، اور صحراء تھا، سفر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، پورے دن کے سفر سے چکناچور ساتھیوں کے حوصلے جواب دے رہے تھے، اور اوسان خطا ہورہے تھے، لیکن کیتار نامی گاؤں آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ جو رہبر ہماری رہنمائی کررہا تھا وہ رہزن (از راہِ تفنن) نکلا، یعنی  سیدھا سادہ  تھری انسان تھا، جو ہمیں صحیح گائیڈ نہیں کر پارہا تھا، بس وہ اڑھائی گھنٹے کا سفر آدھا گھنٹہ اور، پندرہ بیس منٹ اور، وغیرہ وغیرہ کرکے ہمیں بتاتا رہا، جس کو کلومیٹر اور مسافت کا درست اندازہ نہیں تھا۔

راستہ بھی کچا پکا تھا، اکثر تو سڑک پکی لیکن کہیں کہیں سے  ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، آخر میں دس پندرہ کلو میٹر تو ریت تھی اور کچا راستہ تھا۔ بیچ میں  ایک بڑے شہر چھاچھرو کے علاوہ صحرا اور ریگستان ہی ریگستان تھا، چھوٹے چھوٹے گاؤں آرہے تھے، بالآخر ہم رات گیارہ بجے اپنی منزل پر پہنچے۔ میزبان حضرات ہمارے استقبال کے منتظر تھے، آمد پر بڑا پُرتباک استقبال کیا، اور اپنے مدرسے میں لے آئے جہاں پر سندھی روایت کے مطابق حال احوال پوچھا، اس کے بعد پُر تکلف عشائیہ کا اہتمام تھا جس میں تھری ثقافتی کھانوں سے بھرپور تواضع کی گئی تھی۔ اب ہم پورے دن کے تھکے ہارے تھے اور  ہمارا سفر وادی نوم کا تھا، پھر ہم نے عالمِ منام میں خوب مزے لیے۔ جس مدرسہ میں ہمارا قیام تھا اس کی بنیاد 1903 میں رکھی گئی تھی۔ مدرسہ کے منتظم گاؤں کے زمیندار بھی تھے، بزرگ، بااخلاق اور مہمان نواز بھی تھے ادارے کے اساتذہ بھی معیاری اداروں کے فاضل ملنسار اور متواضع تھے۔

آپ محسوس نہیں کرسکتے کہ ہمیں کتنی خوشی ہوئی ہوگی جب ہم نے صحرائے تھر میں خوش الحان اور خوبصورت آواز میں قاری صاحب کی تلاوت سنی، اور ساٹھ سے زیادہ بچے قرآن کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ سبحان اللہ ریگستانوں اور بیابانوں میں درویش اور  لوگ اپنا فرض پورا کررہے ہیں۔ یہاں پر وہ پروپیگنڈہ بھی دم توڑ دیتا   ہے کہ سندھ کے دیہات جہالت کا شکار ہیں اور ضروری دینی تعلیم سے بھی محروم ہیں۔

صبح ناشتے میں روایتی، دیسی اور ثقافتی تھری ناشتے مکھن، شہد اور سویوں سے تواضع کی گئی۔ اب ناشتے کے بعد ہماری منزل ہندوستانی بارڈر کے قریب ایک گاؤں تھا۔ ہم نے اپنی گاڑی مدرسہ میں چھوڑی، وہاں سے فور وہیل جیپ  کرایہ پر لی، اور انڈیا کے بارڈر کے قریب گاؤں کی طرف بڑھے، بارش کے بعد تھر صحرا نہیں رہتا، ایک سرسبز اور شاداب منظر پیش کرتا ہے۔ ہر طرف ہریالی اور سبزہ ہوتا ہے، بڑا حسین منظر ہوتا ہے، رات کو بارش بھی ہوئی تھی، اس لیے موسم بڑا سہانا تھا، اور ہوائیں بھی چل رہی تھیں۔ تھر کا سفر اور بارش ہوجائے تو کہتے ہیں سونے پر سہاگہ۔ سوا گھنٹے بعد ہم انڈیا کے قریب اس گاؤں پہنچے جہاں درگاہ گل محمد غازی بھی ہے۔ یہاں کے لوگوں نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا اور درگاہ کے اس پار لے گئے جہاں سے انڈیا کا بارڈر آدھے کلو میٹر کی مسافت پر تھا، انڈیا کی  فوجی، باڑ ھ اور چوکیاں صاف نظر آرہی تھیں، ہندوؤں کے ڈرنے کا یہ عالم ہے کہ اس ویرانے میں بھی ہر کلو میٹر کے فاصلے پر چوکیاں قائم کی ہوئی  ہیں، جب کہ ہماری چوکیاں میلوں کے بعد ہیں۔ بارڈر کے اس پار بھی مسلمان آبادی اکثریت میں ہے، نہڑی قوم کا بندہ کانگریس کی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا ممبر بھی ہے۔ مہر برادری کی اکثریت ہے، اور وہ بھارتی لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوتے رہتے ہیں۔ مقامی آبادی کا کہنا تھا کہ یہ جگہ بارڈر کے دوسرے نمبر پر قریب ترین جگہ ہے۔ ویسے عام حالات میں یہاں آنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن درگاہ کے زائرین کی وجہ سے چیک پوسٹ والے اجازت دیتے ہیں، اس درگاہ کی تاریخ اور بزرگ کا تعارف معلوم نہ ہوسکا بس ایک بورڈ لگا تھا جس پر صرف نام درج تھا۔ وہاں ہم نے ایک عجیب بات دیکھی کہ جتنی قبریں تھیں ان پر الٹا لوٹا پڑا ہوا تھا۔ اب یہ کیوں؟ وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ واپسی پر ہم نے اپنے میزبانوں سے اجازت چاہی اور ان کی محبتوں کا شکریہ ادا کیا۔

اب ہم مزید سفر کے لیے نکل پڑے۔ ہمیں اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق اسلام کوٹ میں ٹھہرنا تھا جہاں پر ہم نے تھر کی مقبول ترین چیز “کھمبی” کی کڑھائی اور پپ کھانی تھی، کھمبی جس کی فضیلت بھی احادیث میں وارد ہوئی ہے کہ:
الکمأة من المن وماءھا شفاء للعین
(کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا ہے)۔بخاری ومسلم، ترمذی اور مسند احمد میں مختلف الفاظ اور طرق سے یہ حدیث آئی ہے۔
ہم نے بازار سے جاکر خود یہ دونوں سبزیاں خریدیں اور آرڈر پر تیار کروائیں۔ باورچی نے اتنا لذیذ اور عمدہ کھانا تیار کیا تھا کہ سفر کی شرائط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے سب نے سیر ہو کر کھایا  ۔ کھانے کے عمدہ اور لذیذ بنوانے میں ہمارے انتہائی محترم دوست حضرت مولانا عبد الباری صاحب کا بھی اہم کردار تھا جنہوں نے  ایک گھنٹے تک خود کھڑے ہوکر اپنی پسند کے مطابق کھانا تیار کروایا۔
کھانے کے بعد جو ہم نے لسی پی اس کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔

اس کے بعد نماز ظہر پڑھ کر پھر ہمارا قافلہ رواں دواں ہوا۔ اب ہمارا پڑاؤ ننگر پارکر تھا لیکن طے یہ ہوا تھا کہ راستے میں جتنے تاریخی مقامات آئیں گے وہ سب گھومتے جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply