دوسرا پہلو۔ آگے کیا ؟۔۔۔۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز

گزشتہ دنوں کا سب سے گرما گرم ٹاپک تقریر تھی !

عمران خان کی تقریر۔۔

ہمیشہ کی طرح یہاں بھی بے مقصد بحث نظر آئی، ایک گروہ تنقید در تنقید پر لگا ،دوسرا دفاع پر اور تعریف پر، اس کی وجہ کل بیان کی تھی کہ ہمارا مسئلہ ہماری قومی سطح کی کنفیوژن ہے، کانسیپٹ (concept)کلیئر نہیں ہیں۔

ہم چیزوں میں موجود واضح تفریق کو بھی سمجھ نہیں پاتے اور جو سمجھ پاتے ہیں ،وہ اپنی اپنی پارٹی ،اپنی اپنی جماعت کی پرستش میں اس حد تک پہنچے ہوتے ہیں کہ سمجھ کر بھی نہ سمجھ رہتے ہیں۔

خیر یہاں پہلے ان دو چیزوں کا فرق واضح کریں گے کہ عمران خان کی تقریر کا ایک پہلو(سفارتی) ہے، جس پر حقیقی معنوں میں پاکستان کی ترجمانی کا حق ادا کیا عمران خان نے، جس پر آپ اور مجھ سمیت بہت سے جید علماء نے بھی تعریف کی اور اس پر تنقید کا کوئی جواز بنتا بھی نہیں تھا!

اس کے بعد ہے دوسرا پہلو کہ اگر سفارتی محاذ پر اتنا مضبوط سٹانس رکھنے کے باوجود بھی کامیابی نہیں ملتی تو؟ باقاعدہ جنگ ، گوریلا وار فئیر، جہادی گروپ یا اندرونی مسلح جدو جہد یہ سارے آپشن ہیں ، جن کے ہم خواہاں ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی کیا جائے مگر کیا ضرور جائے اور جلدی کیا جائے، کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ گورنمنٹ کو کس چیز کا انتظار ہے لیکن یہ معلوم ہے کہ کشمیریوں کو 60 دن سے پاکستان کا انتظار ہے۔

تقریر بہترین تھی، سراہا گیا لیکن وہ ایک پہلو تھا ۔۔

اب دوسرا پہلو یہ جو بتا دیا، اب اس میں سے کچھ نہیں کیا جاتا یا دیر کی جاتی تو آپ کو اور مجھے اس پر آواز بلند کرنی ہے۔ یہاں پر اگر کوئی تنقیدی رویہ بھی اپنائے تو کم از کم اس تنقید کو بے تکی نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اسے ڈیفنڈ کرنے اور بلاوجہ کا دفاع کرنے کا جواز ہوگا! بلکہ کام کریں اس پر حکومت کی حوصلہ افزائی کریں کہ خدارا جیسے سفارتی محاذ پر مردانہ وار کشمیر کا مقدمہ لڑا، اب گراؤنڈ پر بھی کشمیریوں کے دکھوں کے مداوے کا باعث بنیے، طریقہ کوئی سا بھی اپنائیں آپکی مرضی۔

یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ہمارے پاس بڑے کلیئر آپشنز موجود ہیں۔

جیسے کہ اگر ہم کشمیر میں انٹرنلی مسلح جدو جہد کھڑی کر دیتے ہیں تو یہاں عالمی قوانین کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کی اجازت دیتے ہیں۔ جی بالکل عالمی قوانین کے تناظر میں مقبوضہ علاقے میں مسلح جدوجہد دہشتگردی نہیں کہلائے گی، اس حوالے سے آصف محمود بھائی کا ایک مفصل آرٹیکل بھی موجود ہے، جس کا خلاصہ یہاں بیان کر رہا ہوں۔

1949 ء کے جنیوا کنونش کے ایڈیشنل پروٹوکول 1کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میں کہا گیا ہے کہ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے اگر کوئی کسی غاصب قوت سے لڑ رہا ہے تو اس مسلح تصادم کو بھی دیگر جنگوں کی طرح (انٹرنیشنل آرمڈ کانفیلکٹ) بین الاقوامی تنازعہ سمجھا جائے گا، اہم بات یہ کہ اسے دہشت گردی نہیں تصور کیا جائیگا بلکہ یہ بین الاقوامی تنازعہ قرار پائے گا۔ اس کے علاوہ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314 بھی کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کا حق دیتی ہے۔ اس قرارداد میں ’ جارحیت‘ کے لفظ کی تشریح کرتے ہوئے آرٹیکل 7 میں کہا گیا کہ حق خود ارادیت اور غاصب قوت سے آزادی کے لیے جو جدوجہد کی جا رہی ہو گی اس پر اس قرارداد کا اطلاق نہیں ہو گا یعنی اسے ناجائز تصور نہیں کیا جائے گا۔

اس پر تصدیقی مہر ثبت کرنے والی ایک اور قرارداد(نمبر 37/43) 3 دسمبر 1982 ء کو جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی اور اس کی کلاز 2 میں نہایت واضح انداز سے لکھ دیا کہ حق خود ارادیت اور غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد ایک جائز اقدام تصور ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سب تفصیل سے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کر سکتے ہیں، اگر جنگ سے گریز بھی کرنا چاہے حکومت تو بھی ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں، سفارتی محاذ پر عالمی برادری کی بے حسی دیکھنے کے بعد یہ دوسرا پہلو ہمارے سامنے ہے، جس پر کام کرنا ضروری ہے اور اگر اس میں تاخیر کی جاتی تو میرا اور آپکا کام ہے آواز بلند کرنا ان کے لیے جو دو ماہ سے پنجروں میں قید ہمیں آوازیں دے رہے ہیں، جو 70 سالوں سے ہماری آواز میں آواز ملائے ہوئے ہیں۔ تو اٹھیے کشمیر ایشو کو کم از کم سوشل میڈیا پر مردہ نہ ہونے دیں، حکومت کو ،اداروں کو اپروچ کریں اور انہیں بوسٹ کریں کہ کشمیریوں میں آپکی تقریر سے نئی امید جاگی ہے، اسے مردہ نہ ہونے دیا جائے۔

Facebook Comments

ماسٹر محمد فہیم امتیاز
پورا نام ماسٹر محمد فہیم امتیاز،،ماسٹر مارشل آرٹ کے جنون کا دیا ہوا ہے۔معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،سائبر ٹرینر،بلاگر اور ایک سائبر ٹیم سی ڈی سی کے کمانڈر ہیں،مطالعہ کا شوق بچپن سے،پرو اسلام،پرو پاکستان ہیں،مکالمہ سمیت بہت سی ویب سائٹس اور بلاگز کے مستقل لکھاری ہیں،اسلام و پاکستان کے لیے مسلسل علمی و قلمی اور ہر ممکن حد تک عملی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply