• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مجھے تُم سے محبت ہے: رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

مجھے تُم سے محبت ہے: رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

میں ہاتھ میں یاد کی سوئیاں لگا کر گھڑی سے جوڑ بیٹھی ہوں۔میرے وجود کا اک اک خون کا قطرہ اس ماضی کی گھڑی میں منتقل ہو کر اس میں رُکا ہوا وقت پھر سے چلا دے گا۔نہ یہ کبھی وقت میرا تھا نہ ہی تم۔میرا دکھ یہ ہے کہ  میرے ہاتھ سے وقت بھی نکل گیا اور وقت سے پہلے میری زندگی سے تم نکل گئے۔اب اس گھڑی کو اپنا خون پلا کر اس طرح سینچوں گی کہ میرے خون سے سیراب ہو کر میرا گزرا ہوا وقت لمحے بھر کو گھڑی میں سے گزر جائے گا۔ اور میں فوراً اسے روک لوں گی۔وہ وقت کہ جب تُم صرف میرے سائے میں زندگی محسوس کرتے تھے۔۔۔اب اِس وقت میں اپنی اداسی کی اذیت کا خون بھر کر وہ ایک ایک لمحہ واپس لاؤں گی کہ جس لمحے تمہیں مجھ سے محبت تھی ۔جس لمحے تمہیں اظہار کے بدلے اظہار کی چاہت تھی اور جس لمحے میں اظہار سن کر گم سم ہو کر اظہار کرنے کی بجائے چاہت بھری نظروں سے تمہیں دیکھتی رہتی تھی ،جن میں پانی کچھ اس طرح سے لرزتا تھا کہ کہیں طوفان آنے کو ہے۔تمہارے ہر اظہار کا لمحہ واپس لا کر اسکا جواب دوں گی کہ شاید یہ اظہار کسی دن فضاؤں کے سنگ جھومتے ہوئے تم تک پہنچ کر تمہیں چھو کر میرا احساس دلا دے۔

تمہیں یاد ہے وہ تمہارا پہلا اظہار سردیوں کی شام میں جب دھوپ زمین سے ختم ہوتی ہوئی دیواروں اور آسمانوں کی طرف سفر شروع کررہی تھی۔تم نے کس طرح بے قرار ہو کر محبت کی شدت اور الفاظوں کی بیجا ترتیب مگر جذبات کا خوب اظہار کیا تھا تم کسی کشمکش میں تھے اظہار میں تھوڑا سا غرور اور بہت سی تمہاری ذات کی خواہش شامل تھی ۔ اور تم نے کہا تھا۔۔۔۔
“میں بہت تحمل سے کہہ رہا ہوں کہ  مجھے تمہارے ساتھ ہنسنے رونے ،تمہیں سمیٹنے کی اور تمہارے پاس آ کر بکھرنے کی خواہش ہے کہ  میں تمہارے دامن میں بکھر جاؤں اور تم پوری زندگی مجھے ذرا ذرا سا سمیٹتی جاؤ۔۔ اور میں بس یہی کہنا چاہتا ہوں اور کچھ بھی نہیں۔ اسے پیار سمجھو ،محبت سمجھو، بیوقوفی سمجھو یا کچھ بھی ۔۔۔یہ میں دماغ سے بھی کہہ رہا ہوں، دل سے بھی ،اور غیر جذباتی ہو کر بھی کہہ رہا ہوں۔ہاں مگر میں کہہ رہا ہوں۔۔کیونکہ کہے بنا اب میری ذات محبت کی تپش میں سلگتی جا رہی ہے۔مجھے اظہار کر کے، اظہار سن کر ،اس تپش سے نجات چاہیے۔

تم جانتی ہو مجھے زیادہ دعویٰ یا باتیں کرنا نہیں آتی۔میرے چار لفظوں کو تم چار ہزار تک پھیلا سکتی ہوں۔ تم مجھے عزیز ہو گئی ہو، ایک عجیب انداز میں۔مجھے تمہاری شرارتیں بہت پسند ہیں۔کبھی کبھی جب تلخیِ حالات سے اکتاہٹ ہو جاتی ہے نا تب بھی تمہاری موجودگی ،تمہاری باتوں سے میرے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔میں تمہاری شرارتیں تمہارے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔تمہیں اپنے سامنے بٹھا کر،تم کو ستا کر تمہارے چہرے پر بدلتے رنگ دیکھنا چاہتا ہوں۔تمہارا جھوٹ موٹ کا غصہ دیکھنا چاہتا ہوں۔تمہارا دل جو ہمیشہ وسوسوں اور خدشوں سے بے چین ہو کر ڈوبتا رہتا ہے نا اس کو بس اپنی محبت کی گرفت میں لے کر اپنے لیے دھڑکتا محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ہاں میں تمہارے دل کو صرف خود کے لئے دھڑکنا سکھانا چاہتا ہوں۔تمہارے ہر وسوسے کو دور کرنا چاہتا ہوں۔اور تمہاری زندگی میں خودکلامی کی اذیت لکھنے کی کبھی نوبت نہ آئے، اس لیے میں تمہارے ہر لفظ کو محبت کی خوشبو میں ابھی سے بدل دینا چاہتا ہوں کہ  میری محبت کی یہی خوشبو تمہاری اور تمہارے لفظوں کی پہچان بن جائے گی۔

میری جان ! میں تمہاے وجود کو اپنی محبت کے آمیزے میں گوندھ کر تمہیں محبت کی مورت بناتا چاہتا ہوں کہ تمہیں چھو کر ہوا گزرے تو ہر طرف گل و گلزار بن کر تمہارا  لمس مہکنے لگے ۔
میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر سردیوں کی شاموں میں خشک پتوں پر گھومنا چاہتا ہوں۔کبھی بھیگی  گھاس پر ننگے پاؤں تمہارے ساتھ ٹہلنا چاہتا ہوں۔کسی شبنم کے قطرے پر سورج کی پہلی کرن پڑنے سے پہلے ہی ہتھیلی میں رکھ کر تمہارے لبوں سے لگانا چاہتا ہوں۔بہار کا پہلا گُل تمہارے بالوں میں سجا کر تمہیں گُل سے حسین کہنا چاہتا ہوں۔ساون کی پہلی بارش, کوئل کی پہلی کوک ,ہر صبح کی پہلی کرن, چودہویں کے چاند کی چاندنی کی ٹھنڈک سمیت ہر خوبصورت احساس تمہارے سنگ جینا چاہتا ہوں۔

میں چاہتا ہوں کہ  میرے ہونے سے تیری آنکھوں سے گرنے والے موتی قید ہو جائیں۔آنسو اپنا رستہ بھول جائیں۔میں تم کو ،صرف تُم   رکھنا چاہتا ہوں۔یوں ہی بونگی، چلبلی, بیوقوف بہت زیادہ بولنے والی, لیکن میں تم کو دنیا کے لیے قابل قبول بنانا چاہتا ہوں۔میں دنیا کے سامنے تمہاری ہنسی کو قابو کر کے مسکراہٹ میں بدل کر اکیلے میں تمہارے ساتھ مل کر قہقہے لگانا چاہتا ہوں۔

میں تمہارے گالوں پر میرے کیے گئے محبت کے ہر اظہار سے بدلتے رنگ دیکھنا چاہتا ہوں۔میں چاہتا ہوں کہ  تم کو محبت کے تمام  رنگ دکھاؤں۔میں تم کو ٹھہرانا چاہتا ہوں۔ تمہارے غصے کو اپنے اطمینان سے ہرانا چاہتا ہوں۔اپنی ذات کی ساری محبت تم پر لٹا دینا چاہتا ہوں۔لیکن ہمیشہ تمہارے سامنے خود ہارنا چاہتا ہوں۔میں تم کو بتانا چاہتا ہوں کہ  میں تم کو جیتنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ہاں تم مل جاؤ یہ میرے وجود کی خواہش ضرور ہے۔وجود کہ  جس کو میں نے عقل کے دربان کے ہاتھوں قیدی بنایا ہوا ہے۔محبت کیا ہے مجھے پتہ نہیں ہے لیکن تم محبت ہو تم محبت ہو اور بس تم ہی محبت ہو۔۔۔

اُس وقت اس لمحے الفاظوں کا یہ خوبصورت سحر انگیز جال میرے وجود سے کچھ طرح لپٹا کہ میں بولنے کی سکت رکھتے ہوئے بھی کچھ کہہ نہ سکی۔میں کیسے اتنے حسین الفاظوں کے اثر کو اپنی آواز سے زائل کرتی۔میرے لرزتے ہونٹ خاموش تھے مگر میری آنکھوں میں لرزتے پانی کی بوندیں گال سے ہوتے ہوئے تمہارے ہاتھوں پر تھیں، جنہیں میں نے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ کاش اس وقت یہ بوندیں ہی تمہیں  میرے اقرار کا بتا دیتیں ۔کاش یہ بوندوں کی تپش تمہیں میری محبت کی شدت کا احساس دلا دیتیں۔کاش میری خاموشی سے بےزاری محسوس نہ کرتے اور سمجھ جاتے کہ تمہارے اظہار کے آگے احتراماً اپنی ذات کو خاموش کیے بیٹھی ہوں۔

مگر اے جانِ جاں۔ آج سنو !

میں میری حسرتوں سے تمہارے قدموں کو دھو کر میری محبت کا تاج پہنانا چاہتی تھی،اور اپنی نگاہوں سے تمہارے گرد حصار باندھ لینا چاہتی تھی۔حتی کہ اپنے الفاظوں کا سرمایہ تمہارے نام کر کے خود کو بے جان کر دینا چاہتی تھی کہ  یہی الفاظ ہی تو میرے جسم میں جان ڈالتے ہیں۔میں تمہیں کبھی یقین نہیں دلا سکی ۔ مگر ہاں مجھے یقین ہے میرے شعور کی ہر حد سے پار اور لا شعور کی ہر منزل سے دور کہیں نہ کہیں تُم مجھ سے میری خاموشی پر بہت خفا ہو ۔میں اب اگر یقین دلانے کی سعی کر لوں تو بھی تمہاری سوچوں تک رسائی  ممکن نہیں۔میرا وجود میری ذات میری سوچ میری فکر میرا سب کچھ آج بھی کسی بچے کی مانند کم عمر ,پاک اور معصوم ہی ہے اور اس وجود میں شامل صرف اور صرف تم ہی ہو۔۔

میری جان!
مجھے آج بھی محبت کا دعویٰ  نہیں ہے کہ  دعوے اکثر کھوکھلے لوگ کرتے ہیں۔میں دنیا سے لڑ کر بغاوت کر کے تمہیں حاصل کرنے کی تمنا بھی نہیں رکھتی کہ  بغاوت کرنے والے محبت کا سبق جانتے ہی نہیں۔مجھے محبت کا انتہائی شدت سے اقرار بھی نہیں کہ اقرار اکثر بے قرار رکھتے ہیں اور تم میری بے قراری نہیں بلکہ میرا سکون ہو۔

میں زمانے میں تم کو اپنا بنا کر نہیں بلکہ تمہاری بن کر جینے کی خواہش آج بھی رکھتی ہوں۔مجھے تمہیں اپنے رنگ میں رنگنے کی خواہش نہیں بلکہ میں دنیا کے تمام رنگ تیاگ کر صرف اور صرف اس ایک رنگ میں رنگی جانا چاہتی ہوں۔جو تمہارا رنگ ہے خواہ وہ گلاب سا سرخ ہو یا چاندنی سا روشن یا پھر کسی بہتے پانی سا شفاف حتی کہ کسی سیاہ رات سا سیاہ ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی اس رنگ کو اوڑھ کر تم سا بننا چاہتی ہوں۔

مجھے محبت کی  زیادہ طلب نہیں ،ہاں تھوڑی سی محبت, تمہاری تھوڑی سی ہنسی , تھوڑی سی تمہاری شرارت اور تھوڑی سی ہی تمہاری پیار کی نظر میرے تھوڑے سے وجود کو سراپاء محبت بنا سکتی ہے۔
اے میری جان! میں زمانے میں کوئی دنیاوی اونچا مقام نہیں بلکہ تمہاری نطر میں ہلکی سی عزت احترام اور محبت دیکھ کر خود کو  زمانے سے معتبر سمجھنے کی خواہش مند آج بھی ہوں۔

مجھے دنیا کے ساتھ قہقہے نہیں لگانے تھے، بلکہ تمہارے ساتھ ہلکی سی ہنسی چاہیے ۔مجھے زمانے کی تیزی کے ساتھ رفتار تیز کرنے کی خواہش نہیں بلکہ تمہارا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ ننگے پاؤں چلنے کی حسرت ہے۔

میری جان! میں تم سے ملنے کی خواہش رکھتی تھی مگر قدرت کا فیصلہ اگر اسکے برعکس آجاتا تو میری دعا تھی کہ میرے دل کی دھڑکن تمہارے دل میں شامل ہو جاتی۔میری آنکھوں کا نور تمہاری آنکھوں میں اتر جاتا۔میرےلبوں کی ہنسی تمہارے ہونٹوں پر سج جاتی اور کچھ اس طرح سے میں تم میں گُھل  مِل جاتی کہ کوئی تمہیں دیکھنا چاہتا تو “میں” نظر آ جاتی اور کوئی مجھے دیکھنا چاہتا تو “تم نظر آ جاتے۔اور کوئی محبت دیکھنا چاہتا تو “ہم” نظر آ جاتے۔اور آج بھی میں بس اتنی سی خواہش رکھتی ہوں۔

سنو! یہ قدرت کے فیصلے کچھ بھی ہو سکتے تھے۔مگر تمہارا فیصلہ مجھے ناگوارگزرا ۔تمہاری بدگمانی میرے وجود کو ریزہ ریزہ کر گئی ۔ میں تو کسی فیصلے کی گھڑی آنے سے پہلے تمہارے ساتھ میسر گھڑیوں کو سوچ کے طوفانوں میں ڈبو کر برباد کرنا نہیں چاہتی تھی۔بلکہ میری  زندگی میں جتنے تم میسر تھے میں اس کو جینا چاہتی تھی۔میں تمہیں “تم” میں جینا چاہتی تھی۔میں تمہیں “خود” میں جینا چاہتی تھی۔اور ہاں! میں خود کو بھی “تم” میں جینا چاہتی تھی اور آج بھی اتنی سی ہی خواہش لئے بیٹھی ہوں۔

قدرت جو فیصلہ کرتی وہ بہت بعد کی بات تھا مگر جانِ جاں میں تمہارے ساتھ میسر لمحات کو کسی غیر یقینی سوچ اور کیفیت کی نظر نہیں کرنا چاہتی تھی اور تم نے اس کے برعکس ہر فیصلہ اکیلے کیا۔اور ہجر و وصال کے دونوں موسموں میں تم نے ہمارے لئے ہجر کے موسم کو چُن لیا۔

مگر میں ہجر کے موسم میں یاد کے درخت پر اُگے اذیت کے پھل کو اکٹھا کر کے اب تھک سی گئی  ہوں۔۔
میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں وہ جو کبھی میں کہہ نہ سکی اور وہ جو نہ سننے کا تمہیں ہمیشہ ملال رہا۔۔میرا اظہار نہ کرنا تمہاری محبت کو رفتہ رفتہ خاموش کرتا گیا۔

مگر سنو ! میں اب بھی لمحہ لمحہ تمہارے ساتھ جینا چاہتی ہوں۔میں تمہاری سانسوں کے ساتھ سانس لینا چاہتی ہوں۔اپنی دھڑکن کو تم سے جوڑنا چاہتی ہوں۔میں تمہارا خیال رکھ کر خود کا خیال رکھنا چاہتی ہوں۔میں تم سے بات کر کے خود سے بات کرنا چاہتی ہوں۔میں تمہیں سن کر خود کو سننا چاہتی ہوں ۔میں تمہیں دیکھ کر خود کو دیکھنا چاہتی ہوں۔تمہارے ساتھ  یہ لمحات   ،تمہاری موجودگی اور یہ میری موجودگی تمہاری زندگی میں یہ سب کچھ کسی مستقبل کی پریشانی کی نذر  نہیں کرنا چاہتی۔میں آج میں جینا چاہتی ہوں۔اس آج میں جہاں تم لوٹ آؤ۔ جہاں پھر سے” تُم” جہاں پھر سے “میں” ہوں اور جہاں پھر سے ” ہم” ہوں۔اور جہاں میں تم سے آج کہہ ڈالوں “مجھے تم سے محبت” ہے اور جہاں تم پھر سے کہتے رہو “میری زندگی میں زندگی صرف تمہاری وجہ سے ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری جان!
ہاں میں ہجر کی اذیت اور کرب نہیں بلکہ تمہیں لمحہ لمحہ جینا چاہتی ہوں۔پل پل سننا چاہتی ہوں۔گھڑی گھڑی محبت کا اظہار کرنا چاہتی ہوں۔اور ہر پل محبت کا اظہار تمہارے ہونٹوں سے سننا چاہتی ہوں۔میں خودکلامی کی اذیت کا ہر لفظ محبت کی خوشبو سے معطر کرنا چاہتی ہوں۔۔کہ یہ لمحات میری  زندگی کا اثاثہ ہیں۔اور یہی لمحات مستقبل میں کبھی ساتھ بیٹھ کر بڑھاپے میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کھلے آسمان کے  نیچے ایک ہی کپ میں چائے پیتے ہوئے ہمیں خوشی   مہیا کریں گے۔اور میں تب بھی تم سے کہنا چاہتی ہوں اور آج بھی تم سے کہتی ہوں۔
سنو!
” مجھے تم سے محبت ہے”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply