میرے قابل قدر دوست راجہ زوہیب صاحب ہیں ‘ایک وقت تھا جب انکو پرندوں اور جانوروں کا بہت شوق ہوا کرتا تھا ‘ اسی شوق کی تکمیل کے سلسلے میں ،انہوں نے مختلف قسم کے پرندے اور جانورگھر میں پال رکھے تھے .
ایک دفعہ کسی نے ان کو ایک اعلیٰ نسل کا کتا تحفہ میں دے دیا ‘ وہ چھوٹا سا کتے کا بچہ انتہائی قیمتی اور اعلیٰ نسل کا تھا ‘ ان کے گاؤں میں ایک اور صاحب رہتے تھے’ جن کو کتوں کا بہت زیادہ شوق ہوا کرتا تھا ‘ راجہ صاحب نے اپنا کتا خوش ہوتے ہوئے اور بڑے فخر کے ساتھ صاحب کو دکھایا ‘چند لمحے وہ دیکھ کر ششدر رہ گئے اور پھر ان کے دل میں کسی طرح کی کمی کا احساس ہوا’وہ تعریف کرنے کی بجاۓ بول اٹھے تحفہ تو اچھا ہے’ مگر اسکی آنکھوں پر دو نشانات ہیں ‘ایسے نشانات نحوست کی علامت ہوتے ہیں’ گھر بار اور آپ کے لیے مسائل کے کھڑے ہونے کا اندیشہ ہے ۔
راجہ صاحب سن کر تھوڑے گھبرائے اور گویا ہوئے کہ تحفہ ہے اور واپس بھی نہیں کیا جاسکتا ‘ پھر کیا کیا جائے ؟ دوسرے بھائی بولے آپ ایسا کریں کہ مجھے دے دیں ‘ پوچھا آپ اس کا کیا کروگے ؟ کہنے لگے میں کونسا گھر میں رکھنا ہے ‘میں علیحدہ جگہ بنائی ہوئی ہے’ وہاں رکھ لوں گا ‘نحوست گھر تک نہیں پہنچ سکے گی ۔
یہ واقعہ ہمارے معاشرے میں کسی کی برتری کو نہ دیکھ سکنے اور اس کی برتری کو چار و ناچار چھیننے کی ایک چھوٹی سی مثال ہے.آپ پاکستان میں ہونے والےالیکشن کو ہی دیکھ لیجیے؛بہت سے لوگ ان کے نتائج کو تسلیم کرنے کی بجائے ان کو نخوست قرار دیے جانے پر تلے نظر آتے ہیں،جس کی وجہ ان کی ذاتی شکست یا ان کی سیاسی پارٹی کی موت ہے ۔ آپ مولانا فضل الرحمان کوہی لے لیں’ جو صرف اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے ہماری آزادی کے دن کو نہ منانے کا اعلان کرتے ہوئے اسکو نحوست زدہ قرار دینے کی کوشش میں نظر آتے ہیں ۔
جب کہ 14 اگست اللہ پاک کی مہربانی سے پاکستان کیلئے ایک بابرکت دن ہے اللہ یہ دن ہمیں مناتے رہنے کی توفیق دیتا رہے . ملک پاکستان تادیر قائم اور شاد باد رہے ۔جشن آزادی مبارک ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں