جناب حزقیل علیہ السلام /تحریر و تحقیق- ہمایوں احتشام

موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع بن نون علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی حکومت اور نبوت کے فرائض کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور پھر بیت المقدس کو فتح کیا۔ بیت المقدس کو فتح کرنے والے پہلے مومن و نبی جناب یوشع بن نون علیہ السلام کو قرار دیا جاتا ہے۔ جناب یوشع بن نون علیہ السلام کی وفات کے بعد مختلف بادشاہ بنی اسرائیل کے حکمران رہے۔ جناب یوشع بن نون علیہ السلام کے بعد اسرائیلی تاریخ میں اہم نام جناب حزقیل علیہ السلام کا ہے۔

جناب حزقیل علیہ السلام 622 ق م کے لگ بھگ بیت المقدس میں پیدا ہوئے۔ جناب حزقیل علیہ السلام کے والد کا نام بوزی تھا، جو اسرائیلی عبادت گاہ میں کاہن تھے۔ تورات اور بائبل جناب حزقیل علیہ السلام کے والد کے نام ‘بوزی’ کی تصدیق کرتی ہے۔ جناب علیہ السلام کے والد کا انتقال، جناب حزقیل علیہ السلام کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ جناب حزقیل علیہ السلام کو لوگ ابن العجوز کے نام سے پکارتے تھے، جس کا مطلب “بوڑھی عورت کا بیٹا” ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جناب علیہ السلام کو جس وقت نبوت عطا کی گئی، اس وقت ان کی والدہ بہت زیادہ ضعیف تھیں۔

جناب حزقیل علیہ السلام جناب موسیٰ علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ تھے۔ پہلے خلیفہ جناب یوشع بن نون علیہ السلام تھے، دوسرے کالب بن یوحنا رحمۃ اللہ علیہ اور پھر جناب حزقیل علیہ السلام خلیفہِ موسیٰ مقرر ہوئے۔ جناب حزقیل علیہ السلام جناب یرمیاہ علیہ السلام اور جناب دانیال علیہ السلام کے ہم عصر تھے۔

حزقیل لفظ کا عربی زبان میں مطلب ہے، “قدرت اللہ”۔ تورات اور بائبل میں جناب علیہ السلام کو حزقی ایل کے نام سے پکارا گیا ہے۔ عبرانی میں حزقی کا مطلب “زور” اور ایل “اللہ” کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ‘اللہ کا زور’ بنتا ہے۔ بائبل کے انگریزی ترجمے میں جناب حزقیل علیہ السلام کو Ezekiel کے نام سے پکارا گیا ہے۔

خدا کے پیغمبر حزقیل علیہ السلام کا نزول اس وقت ہوا، جب بنی اسرائیل میں بدعات اور شرکیہ رسومات خوفناک حد تک بڑھ گئی تھیں۔ بنی اسرائیل بے شمار فرقوں میں تقسیم تھی۔ کاہن اور ربی مذہب (شریعت موسوی) کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرکے اس کی من مانی تشریحات کرتے تھے۔ انھوں (ربیوں اور کاہنوں) نے خدا کی خوشنودی سے زیادہ دولت اور پیسے کو اپنا مطمع نظر بنا لیا۔ کہتے ہیں، بنی اسرائیل نے خدا کی عبادت سے منہ موڑ لیا اور کف ار کی مانند بت پرستی کے مرتکب ہونے لگے۔ خدا نے بنی اسرائیل پر رحم کیا اور عطا نازل کی کہ ان پر حزقیل علیہ السلام کو نازل کیا، لیکن انھوں نے پیغمبر کی تکذیب کی۔

خدا کے پیغمبر حزقیل علیہ السلام نے شاہ یہوداہ کو اللہ کا راستہ دکھانے کی کوشش کی۔ اسے توحید کی جانب لانے کے لئے تبلیغ کی۔ جس پر بادشاہ نے حزقیل علیہ السلام کی تکذیب کی، ان کو برا بھلا کہا۔ انھوں نے پیغمبر کے ساتھ بدسلوکی کی۔ جس پر خدا کے پیغمبر نے اس کے اقتدار اور بنی اسرائیل سے متعلق پیشنگوئی کی۔ یہ پیشنگوئی صحیفہ حزقیل کے باب آٹھ میں موجود ہے۔

حزقیل نے کہا “خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ ملک خون ریزی کے گناہوں سے پر ہے اور شہر ظلم سے بھرا ہوا ہے۔ پس میں غیر قوموں میں سے بدترین کو لاؤں گا۔ وہ ان کے گھر کے مالک ہوں گے اور میں زبردستوں کا گھمنڈ مٹا دوں گا اور ان کے مقدس مقام ناپاک کئے جائیں گے۔ ہلاکت آئے گی۔ وہ سلامتی کو ڈھونڈیں گے۔ پر نہ پائیں گے۔ بلائیں نازل ہوں گی تب وہ نبی کی بشارت کی تلاش کریں گے۔ لیکن شریعت کاہن سے اور مصلحت، بزرگوں سے جاتی رہے گی۔ اور رعیت کے ہاتھ کانپیں گے۔ میں ان کی روش کے مطابق ان سے سلوک کروں گا اور ان کے اعمال کے مطابق ان کا فتویٰ دوں گا تا کہ وہ جانیں کہ خداوند میں ہوں۔‘‘

550 ق م میں بخت نصر کا بیت المقدس پر خوفناک حملہ ہوا۔ بنی اسرائیلیوں نے بیت المقدس میں قلعہ بندی کرلی اور شہر کے اندر محصور ہوگئے۔ سات سال تک محاصرہ قائم رہا۔ جس کے بعد شہر میں خوراک اور دوسری اشیا ضروریات کی زبردست قلت ہوگئی۔ اس قلت سے تنگ آکر لوگ شہر سے فرار ہونے لگے۔ جن کا تعاقب کرکے بخت نصر شاہِ بابل کی افواج نے قتل عام کردیا۔ یہوداہ کا بادشاہ گرفتار کرلیا گیا، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بیٹوں کو زبح کیا گیا۔ بادشاہ کی آنکھیں نکال دی گئیں اور اس کو بدترین حالت میں قیدی بنا کر بابل لے جایا گیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جناب حزقیل علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو قتال کی ترغیب دی اور انھیں خدا کی راہ میں لڑنے کا حکم دیا۔ جس پر بنی اسرائیل کی ایک بہت بڑی جماعت نے دین کی سربلندی کے لئے قتال سے انکار کردیا اور موت کے خوف سے بھاگ کر ایک دور دراز وادی میں پناہ گزیں ہو گئے۔ خدا کو یہ حرکت ناگوار گزری، اور پوری جماعت کو موت نے آپکڑا۔

جناب حزقیل علیہ السلام جب اس آبادی سے گزرے تو انہیں بہت افسوس ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حضور ان مردہ لوگوں کے لئے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر حضرت حزقیل علیہ السلام کی دعا قبول کی اور ان لوگوں کو دوبارہ زندہ کر دیا۔

’’تو نے نہ دیکھے وہ لوگ جو نکلے اپنے گھروں سے موت کے ڈر سے اور وہ ہزاروں تھے۔ پھر کہا اللہ نے ان کو مر جاؤ۔ پھر ان کو زندگی دی۔ اللہ تو فضل رکھتا ہے لوگوں پر۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔ ۲۴۳)

مورخین کے مطابق بنی اسرائیل کی اس بھگوڑی جماعت میں خدا کے حکم سے طاعون پھیل گیا۔ تاہم کچھ اور اسلامی مورخین کا کہنا ہے کہ دو فرشتوں نے اس وادی کے دونوں کناروں پر خوفناک آواز پیدا کی، جس سے یہ دس ہزار کے قریب لوگ یک دم مر گئے۔ آس پاس کے لوگوں کے لئے ان دس ہزار افراد کو دفنانا آسان نہیں تھا، سو انھوں نے اس زمین کے گرد دائرہ لگا کر انھیں ویسے ہی چھوڑ دیا۔ کچھ عرصے بعد یہ لاشیں گلنے سڑنے لگیں۔ سالوں بعد وہاں صرف ہڈیاں رہ گئیں۔ عرصہ دراز بعد جناب حزقیل علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا تو وہ ڈھانچوں کے انبار دیکھ کر حیران ہوگئے۔ جس پر خدا نے انھیں وحی کے زریعے سارا معاملہ بتایا۔ اللہ کے رحمدل نبی نے خدا سے ان کے دوبارہ زندہ ہونے کی دعا کی۔ جس کو خدا نے قبول کیا اور فرمایا، “اے پرانی ہڈیو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ہر جوڑ کی ہڈی اپنی اپنی جگہ جمع ہوجائے۔ اے ہڈیو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنا گوشت پہن لو اور پٹھے اور کھال درست کرلو ۔” پھر خدا نے ارواح سے خطاب میں فرمایا، “اے ارواح ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنے بدنوں میں لوٹ آؤ، جن کی تعمیر و حیات سے چاروں طرف دیکھتے ہیں ان سے وابستہ تھی۔”

ابن کثیر میں ہے کہ بنی اسرائیل کی یہ جماعت دادرواں کی باشندہ تھی جو شہر وسطہ سے چند کوس پر اس زمانہ کی مشہور آبادی تھی اور یہ فرار ہوکر ” انیچ ” کی وادی میں چلے گئے تھے۔

جناب حزقیل علیہ السلام کا لقب ذوالکفل بھی کہا جاتا ہے۔ اس لقب کی وجہ تسمیہ کچھ یوں ہے کہ آپ نے اپنی کفالت میں لے کر ستر انبیاء کرام کو قتل سے بچایا تھا جن کے قتل پر یہودی قوم آمادہ ہو گئی تھی۔ پھر یہ خود بھی خدا کے فضل و کرم سے یہودیوں کی تلوار سے بچ گئے اور برسوں زندہ رہ کر اپنی قوم کو ہدایت فرماتے رہے۔ (تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۶،پ۲،البقرۃ ۲۴۳)

جناب حزقیل علیہ السلام کی نبوت سے متعلق خدا انجیل مقدس کے صحیفہ حزقی ایل کے باب اول میں فرماتا ہے، “تیسویں برس کے چوتھے مہینے کی پانچویں تاریخ کو یہویاکین بادشاہ کی اسیری کے پانچویں برس میں۔
خداوند کا کلام بوزی کے بیٹے حزقی ایل کاہن پر جو کسیدیوں کے ملک میں نہر کبار کے کنارے پر تھا نازل ہوا اور وہاں خداوند کا ہاتھ اس پر تھا۔”

یعنی خدا نے جناب حزقیل علیہ السلام پر اپنی نبوت کا ظہور نہر کبار کے کنارے کیا۔ صحیفہ حزقی ایل باب 36 میں بنی اسرائیل کی گمراہی سے متعلق خدا فرماتا ہے، “مُجھ پر نازِل ہُؤا کہ اَے آدمؔ زاد جب بنی اِسرائیل اپنے مُلک میں بستے تھے اُنہوں نے اپنی روِش اور اپنے اعمال سے اُس کو ناپاک کِیا۔ اُن کی روِش میرے نزدِیک عَورت کی ناپاکی کی حالت کی مانِند تھی۔ اِس لِئے مَیں نے اُس خُون ریزی کے سبب سے جو اُنہوں نے اُس مُلک میں کی تھی اور اُن بُتوں کے سبب سے جِن سے اُنہوں نے اُسے ناپاک کِیا تھا اپنا قہر اُن پر نازِل کِیا۔ اور مَیں نے اُن کو قَوموں میں پراگندہ کِیا اور وہ مُلکوں میں تِتّربِتّر ہو گئے اور اُن کی روِش اور اُن کے اعمال کے مُطابِق مَیں نے اُن کی عدالت کی۔ اور جب وہ دِیگر اقوام کے درمِیان جہاں جہاں وہ گئے تھے پُہنچے تو اُنہوں نے میرے مُقدّس نام کو ناپاک کِیا کیونکہ لوگ اُن کی بابت کہتے تھے کہ یہ خُداوند کے لوگ ہیں اور اُس کے مُلک سے نِکل آئے ہیں۔ لیکن مُجھے اپنے پاک نام پر جِس کو بنی اِسرائیل نے اُن قَوموں کے درمیان جہاں وہ گئے تھے ناپاک کِیا افسوس ہُؤا۔”

جناب حزقیل علیہ السلام کی نبوت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلے دور میں وہ یہوداہ ریاست کے لوگوں اور بادشاہ کو اپنی حرکات درست کرنے اور بدعات ترک کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ حقیقی دین پر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ دوسرے حصے میں وہ آس پاس کی بت پرست اقوام کو بنی اسرائیل سے اچھا سلوک کرنے اور ان کو اسلام کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ اقوام عمونی‏، موآبی‏، ادومی‏، فلستی‏، صوری‏، صیدانی اور مصری وغیرہ تھیں۔ تیسرے حصے میں جناب حزقیل علیہ السلام بنی اسرائیل کو متحد ہونے کا درس دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ متحد ہوں گے اور خدا کے راستے میں قتال کریں گے تو خدا ان کو عزت دے گا اور ان کے گناہوں کو دھو دے گا۔

صحیفہ حزقی ایل دراصل خدا کے جلال اور قہر کا اظہار کرتا کلام خداوندی ہے۔ مقدس کلام میں خدا بنی اسرائیل کو اس کی بداعمالی کی وجہ سے سرزنش کرتا ہے اور ان کی بداعمالیوں کی بناء پر ان پر بخت نصر کو مسلط کرنے کی بابت بھی بتاتا ہے۔ خداوند صحیفہ حزقی ایل میں بنی اسرائیل کا غرور خاک میں ملانے کی ساری روداد تفصیل سے بتاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جناب حزقیل علیہ السلام کا وصال دور اسیریِ بخت نصر میں ہی ہوا۔ ان کے مزار کے بابت دو جگہوں کا بتایا جاتا ہے۔ عراق میں الکفل کے مقام پر جناب حزقیل علیہ السلام کا مزار ہے، یہاں مسلمان اور یہودی دونوں زیارات کے لئے آتے ہیں۔ جبکہ ارگانی، دیار بکر، ترکی کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جناب حزقیل علیہ السلام کا مدفن ارگانی میں ہے۔ جہاں ایک مزار بھی موجود ہے۔ زیادہ مستند عراق میں الکفل کا مقام معلوم ہوتا ہے کیونکہ بابل کی سلطنت عراق میں ہی تھی، سو دورِ اسیری میں فوت ہونے کی بناء پر ادھر ہی دفنایا گیا ہوگا۔
واللہ اعلم الصواب

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply