معاشی و معاشرتی عدل۔۔عروج ندیم

اللہ تعالی کے خوبصورت اسماء میں سے ایک نام “العدل” ہے اور یہ کائنات اس کی صفت عدل کا بھرپور اظہار ہے۔ 1 ؂ عدل ایک وسیع المعنی اصطلاح ہے۔ جس کا مفہوم توازن، تناسب، مساوات، ہم آہنگی، انصاف، افراط و تفریط سے اجتناب اور دوسروں سے تعلقات ان بنیادوں پر قائم کرنا جن سے ہر بشر کو اس کا جائز حق مل جائے۔ 2 ؂
ایک زندہ وجود کو جتنی ضرورت آکسیجن کی ہوتی ہے تقریبا اتنی ہی ضرورت نفاذ اسلام میں قیام عادل کی ہے۔ کیوں کہ قیام عدل کے بغیر اسلامی نظام کا کوئی بھی حصّہ صحیح طریقے سے نشونما نہیں پاسکتا۔3 ؂
دنیا میں عادل و انصاف اور حق کے مدعی تو سبھی ہیں لیکن عدل حقیقی اور انصاف مطلق صرف اللہ کی کتاب اور اس کی شریعت میں ہے جو ناقابل تغیر اور تبدل ہے۔ وحی الہی سے ہٹ کر جن لوگوں نے انصاف کے مقاصد کو حاصل کرنا چاہا وہ ہمیشہ ناکام رہے ہیں’ اس لیے کہ انہوں نے عدل کا تصور ہمیشہ اپنے ناقص خیالات، فاسدہ قیاسات اور وہم و گمان کی بنیاد پر قائم کیا اور وہ انصاف اور حق کے حقیقی اور کامل مفہوم کا ادراک کرنے سے قاصر رہے۔4 ؂
معاشی عدل
اس بات کو سبھی جانتے اور مانتے ہیں کہ آج ہمارا معاشرہ ایک طرف تو معاشی و مالی طور پر ترقی کر رہا ہے وہیں دوسری طرف معاشی، معاشرتی اور اخلاقی برائیوں میں جکڑتا جارہا ہے۔5 ؂ موجودہ تشویشناک صورتحال کی بنیادی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ سودی نظام ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو عدم مساوات پر قائم ہے۔ عدل و انصاف، رحم دلی اور سخاوت سے دور ہے حکیم انسانیت سے بھی کنارہ کاش ہے۔سودی لین کی وجہ سے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی لت لگ جاتی ہے۔ انسانی زندگی کی کامیابی لاتعداد دولت حاصل کرنے میں نظر آنے لگتی ہے جسکے نتیجے میں ایسی ہی دوڑ کا آغاز جاتا ہے جس میں ہر انسان تمام جائز و ناجائز طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔6 ؂ اسلام نے اپنے نظام معیشت میں سود کی جڑ کاٹ دی ہے۔ زنا، شراب غرض کسی بھی برائی کے بارے میں قرآن مجید نے اتنا سخت لہجہ اختیار نہیں کیا جتنا کے سود کے بارے میں اختیار کیا ہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوۡا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ ﴿۲۷۸﴾ فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ‌ۚ (سورہ بقرہ) ‏
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود کہ کسی کے ذمہ ہے، چھوڑ دو۔ ہاں اگر نہیں کرو گے تو پھر اللہ اس کے رسول کے مقابلے میں جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ 7 ؂
اگر ہم سودی لین پر غور کریں تو اس میں انسانیت کے کام آنے کے جذبہ کم اور ذاتی منفعت کا خیال زیادہ نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سود لینا شقاوت قلبی، سنگدلی اور بے رحمی بھی ہے۔ قرآن مجید میں جن اعمال سے لوگوں کو روکا گیا ہے ان میں سودی لین دین بھی ہے۔ سود کو چونکہ واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے، اس لیے بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم بغیر کسی بحث کے اس حکم کے آگے سر جھکا دیں۔ ہمیں اس موضوع پر کچھ کہنے اور لکھنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ 8 ؂
اسلام نے سود کے کاروبار کو حرام قرار دیا ہے اور بے محنت کی اس کمائی کو ظلم سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کریم نے جس خوبصورتی سے اس کی حرمت اور دلائل حرمت کو ادا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ترجمہ: مسلمانو! تم سود در سود کو ذریعہ معاش ہرگز ہرگز نہ بناؤ۔ (ال عمران)
اور اس سے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ صاف انکار کر دیا کہ
ترجمہ: اللہ تعالی نے تجارتی خریدوفروخت کو جائز کیا ہے اور سود کو ہر حیثیت سے حرام قرار دیا ہے۔9 ؂ (ال عمران)
اسلام نے شدید سختی کے ساتھ سودی لین دین کو منع فرمایا ہے۔ کیونکہ اس سے بے شمار معاشی اور معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے کہ سودی لین دین کی وجہ سے معاشرے میں امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جاتا ہے۔ سود کی آمدنی سے امیر امیر سے امیر ترین اور سود ادا کرتے کرتے غریب غریب سے غریب ترین بنتا جاتا ہے۔ یہ نظام بنا محنت کیے سرمایہ سے سرمایہ کمانے کا رجحان پیدا کرتا ہے۔ اجتماعی و انفرادی پیداوار میں اضافہ کیے بغیر صرف ذاتی آمدنی میں اضافہ اس کی بنیاد ہے۔10 ؂
موجودہ دور کے دو اہم معاشی نظام سرمایہ داری اور اشتراکیت ہے۔ ان کے اصول و طریقہ کار میں بڑا شدید اختلاف ہے جس کی وجہ سے دور جدید کے معاشی مسائل میں ایک پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ نظام سرمایہ داری کی ایک بنیادی وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اس کے تحت حکومت کے کاروبار کی سربراہی اور اس کی پالیسی کی تشکیل میں دولت مند اور سرمایہ دار طبقے کا اثر غالب رہتا ہے۔ یہ طبقے اپنے روپیہ پیسہ کے زور سے نہ صرف یہ کہ بڑے بڑے اخبارات کے مالک بن جاتے ہیں اور اس طرح رائے عامہ کو اپنے مقاصد کے لیے ہموار کر لیتے ہیں بلکہ انتخابات کے موقع پر بھی اپنی دولت کا بے جا استعمال کر کے عوام الناس کی آراء خرید لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام اپنے حقوق کے استعمال میں آزاد نہیں رہتے اور مجبور ہو کر ایسے نمائندوں کا انتخاب کر بیٹھتے ہیں جو سرمایہ داروں کے دوست اور ان کے اغراض کے آلہ کار ہوں۔ اسکے برعکس اشتراکی نظام میں حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں سرمایہ داروں کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرنا پڑتا۔ چونکہ اشتراکی اسٹیٹ کے ہاتھ میں ملک کے وسائل معیشت، تجارت، صنعت و حرفت اور بینکنگ کا پورا نظام ہوتا ہے اور ان امور میں افراد کا کوئی ذاتی حق تسلیم نہیں کیا جاتا اس لئے وہ نہایت آزادی اور بے باکی کے ساتھ ملک کی معاشی منصوبہ بندی اس طور سے کرسکتی ہے کہ ہر فرد کی جائز حاجات و ضروریات پایا تکمیل تک پہنچ سکیں۔11 ؂
اگرچہ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام بظاہر تو ایک دوسرے کی کامل ضد ہیں کیوں کہ نظام کے لحاظ سے ایک مشرق ہے تو دوسرا مغرب۔12 ؂ لیکن اسلام کے مقابلے میں ان دونوں میں ایک بات مشترک ہے۔ یہ آپس میں تو متضاد اور مقابل ہیں لیکن اسلام کے مقابلے میں اپنے فکری پس منظر کے ساتھ ایک ہی تنے کی دو شاخیں ہیں۔ اسلام جہاں مادیت کے مقابلے میں روحانیت اور دنیاوی زندگی کے مقابلے میں آخرت کی دعوت دیتا ہے وہیں یہ دونوں نظام صرف مادہ پرستی کی بنیاد پر قائم ہیں۔ اسلام کا معاملہ ان دونوں سے جدا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام اپنی قائم کردہ بنیادوں پر اپنے مکمل ڈھانچے میں قائم ہوسکتا ہے۔ اسلام صرف ایمان ہی کی بنیاد پر قائم ہوگا اس کے علاوہ کسی اور جڑ یا بنیاد پر اس کے قیام کا تصور ہی بے کار ہے۔13 ؂ اسلامی اس امر کو گوارا نہیں کرتا کہ معاشرہ کا کوئی بھی فرد فاقہ کشی، تنگدستی اور بے روزگاری میں مبتلا ہو اور حکومت یا معاشرہ اس کی امداد کا کوئی نظام نہ کرے۔ اسی لئے اسلام معاشی امور میں ہر شخص کو ضرورت معاش دلانے کا بندوبست کرتا ہے اور معذوروں، بیواؤں، یتیموں اور ناکارہ افراد کے معاشی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔14 ؂
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم دور حاضر میں رائج کردہ معاشی نظام کو تبدیل کرکے ایک ایسے نظام کی بنیاد ڈالیں جو ہماری معاشی ضروریات کو پورا کر سکے اور ہمارے تمدن، ہماری اقدار حیات اور ہمارے نظریے زندگی کے مطابق ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ نیا نظام ہوگا؟ نہیں بلکہ ہماری یہ ضروریات صرف اسلامی نظام معیشت ہی پوری کر سکتا ہے۔ 15 ؂
موجودہ دور میں مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ سود کے بغیر زندگی کا نظام ممکن نہیں ہے، کاش ہم یہ سوچیں کہ بلا سودی نظام بھی قائم کیا جا سکتا ہے اور یقیناً وہ کامیاب بھی ہوگا۔ اور وہ اس لئے کہ اس کے ساتھ اللّه کی مدد شامل ہوگی اور اس سوچ کے ساتھ جب مسلمان آگے بڑھیں گے تو مستقبل میں ملک کے فائدے کے لئے، ملک کے غرباء کے لئے، ہر قوم و مذہب کے ماننے والوں کے فائدے کے لیے ہم بلاسودی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ انشاءاللہ 16 ؂
معاشرتی عدل
مسلم معاشرے میں جب تک اسلامی قوانین نافذ تھے، تب تک معاشرے میں قانون کے خلاف ورزی کم سے کم ہوتی تھی لیکن جیسے ہی اس معاشرے میں مغربی قوانین نافذ کیے گئے تو قانون کی خلاف ورزی بڑھتی چلی گئی۔ جس کا اندازہ ہم چودہ سو برس کی شرح جرائم اور سو ڈیڑھ سو برس کی شرح جرائم سے باآسانی لگا سکتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر قانون کے پس پردہ تصور انسان کے علاوہ اس قانون کے تحت زندگی گزارنے والوں کا مذہبی شعور کارفرما ہوتا ہے کیونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے کی بابت اگر کسی کم سے کم درجے کا تصور عصمت اور تصور طہارت نہ ہو تو قانون بہتر ثابت نہیں ہو سکتا اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ تصور عصمت و طہارت مذہبی سے میسر آ سکتا ہے۔ تو جب مغربی نظام عدل کو مسلم معاشرے میں نافذ کیاگیا تو چونکہ وہ نظام معاشرے کے مذہبی شعور اور رجحانات سے موافقت نہیں رکھتا تھا اسی لیے معاشرے کے باطن نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں ذہنی بغاوت پیدا ہوئی اور جرائم کا ارتکاب بڑھ گیا۔17 ؂
کوئی بھی معاشرہ قرآنی اصولوں سے دستبردار ہوکر خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ قرآنی تعلیمات کا ایک اہم پہلو عدل و انصاف ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ عدل ایک مومن کے مزاج و طبیعت میں اس قدر رچ بس جائے کہ وہ اپنے دشمن کے ساتھ بھی ناانصافی نہ کر سکے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوّٰامِيۡنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ‌ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعۡدِلُوۡا‌ؕ اعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌ۖ وَاتَّقُوۡا اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿۸﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دو اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
انصاف کس طرح معاشرے کو عظیم بناتا ہے اور شکست سے محفوظ رکھتا ہے، جسٹس پیر محمد کرم شاہ صاحب نے اپنی تفسیر ضیاء القرآن میں:
اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ
کے تحت اس کی خوب وضاحت فرمائی ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے:
الدل لانصاف والاحسان التفصیل
یعنی عدل انصاف کرنا اور احسان فضل و کرم ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ کسی معاشرے کا پختہ بنیادوں پر قائم ہونا انہی دو چیزوں پر منحصر ہے کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو، ہر فرد کو اس کا پورا حق ملے اور قانون کے سامنے شاہ و گدا سب برابر ہوں۔ لیکن یہ بھی کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر فرد اپنے ساتھی کے ساتھ برتاؤ کرنے میں احسان کو مدنظر رکھے۔ اس طرح اس معاشرے میں صرف یہ نہیں کہ حسد و عناد کے شعلے بھڑکنے نہ پائیں گے بلکہ محبت کی نسیم بھی ان کے غنچہ ہائے دل کو تبسم اشنا کرتی رہے گی۔ 18 ؂
معاشرتی امن و سکون کا قیام اسلامی کے مقاصد جلیلہ میں سے ہے۔ اس لیے معاشرتی امن و سکون کو تباہ کرنا اور فتنہ، گناہ کبیرہ اور قتل میں آسانی سے بھی زیادہ بدترین جرم ہے۔ قرآن کریم کی رو سے معاشرے میں امن و سلامتی برقرار رکھنا افراد اور حکومت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ 19 ؂
مغربی نظام عدل کی رو سے بادشاہ کو ایک عام شہری عدالت میں بلا نہیں سکتا اور عام عدالتیں کسی وزیراعظم پر مقدمہ نہیں چلا سکتی اس لیے کہ بادشاہ سے غلطی کا تصور ہی ممکن نہیں۔ مگر قرآن کریم میں چودہ سو برس سے اعلان کر چکا ہے۔
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ وَّاُنۡثٰى وَجَعَلۡنٰكُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآٮِٕلَ لِتَعَارَفُوۡا‌ؕ اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَتۡقٰٮكُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ ﴿۱۳﴾
(الحجرات: ۱۳)
ترجمہ: اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے درمیان شاخیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تو وہ ہی زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔
صحیح بخاری شریف میں آیا ہے کہ جب مخزومیہ عورت نے چوری کی ہے اور قریش نے محسوس کیا کہ اس کا ہاتھ چوری کے مقدمے میں کاٹ دیا جائے گا تو قبیلہ قریش کی بےعزتی ہوگی اور انہوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفارش کرنے کے لیے بھیجا تو جواب ملا۔“کیا تم اللہ کی حدود کے بارے میں مجھ سے سفارش کر رہے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : لوگوں تم سے پہلے کی قومیں اسی لئے گمراہ ہو گئیں کہ ان کا کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا تو اس پر حدیں جاری کرتے اور خدا کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی چوری کرتی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بالضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔؂20
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سات آدمیوں کو اللہ قیامت کے دن اپنے سائے میں رکھے گا (یعنی عرش کے سائے میں) جس دن اس کے سوا اور کسی چیز کا سایہ نہ ہوگا اور سات افراد میں سے اول ترین ذکر اس حاکم و قاضی کا ہے جو عدل و انصاف کرتا ہو۔
(روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ کتاب المحاربین اور کتاب الاذانبخاری + کتاب آداب القضاۃ نسائی)21 ؂
جو شخص “اسلام میں عدل ہے” کہتا ہے وہ حقیقت سے کمتر بات کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عدل ہی اسلام کا مقصود ہے۔ اسلام آیا ہی اس لیے ہے کہ عدل قائم ہو سکے۔ وہ شخص یہ بھی جان لے کہ عدل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کے پاس نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اسلام خود عدل ہے۔ اس کا قائم ہونا اور عدل کا قائم ہو جانا ایک ہی چیز ہے۔22 ؂ مختصر یہ کہ ہمیں پاکستان میں مکمل اسلامی نظام عدل نافذ کرنا ہوگا ورنہ ہمارا معاشرتی ارتقاء ہرگز اسلامی نہ ہوگا۔ کاش ہم مسلمانوں کو یہ توفیق مل جائے کہ جس پیغمبر کی امت ہونے کے دعوے دار ہیں، اس کے دیے گئے ہیں احکام خداوندی پر عمل کرکے اپنے لیے اور پوری انسانیت کے لئے دنیوی اور اخروی فلاح و بہبود سمیٹ لیں۔ کاش ایسا ہو جائے۔23 ؂
حوالاجات :
1 ؂ عرفان حسن صدیقی، “عدل اسلامی معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری”، لاہور-راولپنڈی-کراچی، فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، ۱۹۹۳ء، ص ۱۸
2 ؂ سید عبد الرحمن بخاری، “اسلامی ریاست میں عدل نافذ کرنے والے ادارے”، لاہور، مرکزی تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، ۱۹۱۶ء ، ص ۴-۵
3 ؂ ایضاً، ص ۱
4 ؂ مولانا حبیب الرحمن، “عدل و انصاف”، اسلام آباد، دعوہ اکیڈمی، ۱۴۲۱ء -۲۰۰۰ ‏ء، ص ۱۲
5 ؂ ڈاکٹر عبدالماجد انصاری، “سودی لین دین”، ممبئی، اقصی آفسیٹ پرنٹرز، ۲۰۱۳ء ، ص ۶
6 ؂ ایضاً، ص ۷
7 ؂ ڈاکٹر اسرار احمد، “اسلام کا معاشی نظام اور اسلامی ریاست کا نظام محاصل”، لاہور، مرکزی انجمن خدام القرآن، ۲۰۰۳ء ، ص ۵۳-۵۴
8 ؂ ڈاکٹر عبدالماجد انصاری، “سودی لین دین”، محوله بالا، ص ۴
9 ؂ محمد فضل الرحمان سہواروی، “اسلام کا اقتصادی نظام”، نئی ‏دہلی، باہتمام مینیجر ندوۃالمصنفین، ص ۱۰۶-۱۰۷
10 ؂ ڈاکٹر عبدالماجد انصاری، “سودی لین دین”، محوله بالا، ص ۸
11 ؂ محمد مظہر الدین صدیقی، “اسلام کا معاشی نظریہ”، لاہور، ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۵۴ء ،ص ۳۱-۳۸
12 ؂ ڈاکٹر اسرار احمد، “اسلام کا معاشی نظام اور اسلامی ریاست کا نظام محاصل”،محوله بالا ، ص ۹
13 ؂ مولانا حبیب الرحمن، “عدل و انصاف”،محوله بالا، ص ۱۲
14 ؂ محمد مظہر الدین صدیقی، “اسلام کا معاشی نظریہ”، محوله بالا،ص ۳۱-۳۸
15 ؂ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، “اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول”،لاہور ، منہاج القرآن پبلیکیشنز، جون ۱۹۹۲ء، ص ۱۴-۱۵
16 ؂ ڈاکٹر عبدالماجد انصاری، “سودی لین دین”، محوله بالا، ص ۲۴
17 ؂ مولانا سید محمد متین ہاشمی، “اسلامی نظام عدل کا نفاذ مشکلات اور ان کا حل”، لاہور، مرکزی تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، ص ۴
18 ؂ عرفان حسن صدیقی، “عدل اسلامی معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری”، محوله بالا، ص ۱۸-۱۹
19 ؂ سید عبد الرحمن بخاری، “اسلامی ریاست میں عدل نافذ کرنے والے ادارے”، محوله بالا، ص ۳۷
20 ؂ مولانا سید محمد متین ہاشمی، “اسلامی نظام عدل کا نفاذ مشکلات اور ان کا حل”، محوله بالا، ص ۱۱-۱۲
21 ؂ عرفان حسن صدیقی، “عدل اسلامی معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری”، محوله بالا، ص ۱۲۷
2 ؂2 مولانا سید ابو علی مودودی، ” اسلام اور عدل اجتماعی”، ۲۰۱۸ء، ص ۸-۹
23 ؂ عرفان حسن صدیقی، “عدل اسلامی معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری”، محوله بالا، ص ۲۳۹

Facebook Comments