بئر العہن ، مدینہ منورہ کا یادگار تاریخی مقام

مدینہ منورہ کا علاقہ عظیم الشان آثار قدیمہ کیلئے مشہور ہے۔ یہاں تاریخی اور عمرانی قابل دید مقامات جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ مدینہ منورہ کے علاقے میں تاریخی مقامات کا شمار ممکن نہیں۔ عصر قدیم ہی سے یہ علاقہ مختلف حوالوں سے لوگوں کی دلچسپی کا محور رہا ہے۔ حج اور تجارت کا سفر کرنے والے مدینہ منورہ سے ہوکر گزرتے رہے ہیں۔ یہ اپنے نخلستانوں، چراگاہوں ، قدرتی وسائل اور ساحلی پٹیوں کے حوالے سے مختلف قبائل اور اقوام کیلئے کشش کا باعث بنا رہا۔ یہاں قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں۔ مدینہ منورہ کا علاقہ سونے، چاندی اور تانبے کی کانوں کیلئے بھی مشہور ہے۔ اگر اسلام سے قبل مدینہ منورہ کی شہرت یثرب اور مختلف قبیلوں کی نقل مکانی کی وجہ سے تھی تو نبی کریم ﷺکی ہجرت مبارکہ کی وجہ سے اسے چار چاند لگ گئے۔ یہ شہر یثرب سے مدینہ منورہ یا طیبہ ہوگیا۔ مدینہ منورہ کو اسلامی دعوت کا مرکز اور پہلی اسلامی ریاست کے دارالخلافہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
مدینہ منورہ کے کنویں بھی اپنی ایک تاریخ اور شہرت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک’’بئر العھن ‘‘ہے۔ یہ نبی کریم ﷺکے دور کی یادگار ہے۔ اسے’’العھن‘‘ کے نام سے اسلئے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ اس زمانے میں العہن کے نام سے اس مقام پر ایک باغ ہوا کرتا تھا۔ اس کنویں کا پانی بے حد نمکین ہے۔ یہ پہاڑ کو تراش کر بنایا گیا ہے۔ اس کے پانی سے کھیتی باڑی اب بھی کی جارہی ہے۔ اس کا ایک اور نام ہے ۔ بہت سارے لوگ اسے’’الیسرۃ‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ یسر عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنیٰ آسانی کے آتے ہیں۔ ’’العسر‘‘ مشکل کی ضد ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺاس کنویں کے پاس تشریف لائے تھے اور آپﷺنے اس کے پانی سے وضو کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ الیسرۃانصاری قبیلے بنو امیہ کا کنواں تھا اور بئر العہن ان کے گھروں کے پاس ہوا کرتا تھا۔ ابن زبالہ نے سعید بن عمرو ؓ سے روایت کی ہے ، وہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بنو امیہ بن زید کے پاس تشریف لائے اور ان کے کنویں کے پاس کھڑے ہوکر دریافت کیا کہ: ’’اس کنویں کا نام کیا ہے؟ ۔‘‘
لوگوں نے بتایا اس کا نام عسرۃ ہے۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:
’’ نہیں اس کا نام یسرۃہے۔ ‘‘
راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اس کنویں میں اپنا لعاب ڈالا اور اس کیلئے برکت کی دعا کی۔
ابن شبہ محمد بن حارثہ انصاریؓ اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے انصاری قبیلے بنو امیہ کے کنویں کا نام الیسرۃ رکھا اور اس کیلئے برکت کی دعا کی تھی۔ آپﷺنے اس کے پانی سے وضو کیا تھا اور اس میں اپنا لعاب دھن بھی ڈالا تھا۔
ابن سعد اپنی تصنیف طبقات میں عمر بن سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد کا جب انتقال ہوا تو انہیں الیسرۃ کنویں کے پانی سے غسل دیا گیا۔ وہ وہاں قباء سے سفر کے وقت منزل کیا کرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں اس کنویں کا نام العسرۃ تھا۔ رسول اللہﷺ نے تبدیل کرکے الیسرۃ رکھ دیا تھا۔ ان دنوں اس نام سے یہ کنواں نامعلوم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں جس کنویں کو بئر یسرۃ کہا جاتا تھا اسی کو ان دنوں بئر العھن کہا جاتا ہے۔
المطری نے ابن نجار کے بیان کردہ کنوؤں کا تذکرہ اپنی کتاب میں کیا ہے۔ انہوں نے جن کنوؤں کا تذکرہ کیاہے ان میں چند یہ ہیں:
اریس، البصہ، بضاعہ، رومہ، الغرس اور بئر حاء۔
المطری آگے چل کر لکھتے ہیں کہ یہ 6 کنویں معروف ہیں جبکہ ساتواں کنواں ان دنوں لاپتہ ہے۔ یہ لکھ کر انہوں نے بئر جمل کا تذکرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ میں نے’’الدرہ الثمینہ فی اخبار المدینہ‘‘کتاب پر شیخ امین الدین بن عساکر کے قلم سے تحریر کردہ حاشیہ دیکھا ہے۔ یہ کتاب شیخ محب الدین النجار کی ہے۔ حاشیہ کے بموجب مشہور کنویں 7 ہیں لیکن ثابت شدہ 6 ہیں۔ ساتویں کنویں کا نام بئر العھن ہے۔ اس سے ان دنوں کھیتی باڑی کی جارہی ہے۔ اس کا ایک اور مشہور نام بھی ہے۔ المطری کا کہنا ہے کہ بئر العھن العوالی میں ہے۔ مشہو رہے۔ اس کا پانی بہت نمکین ہے۔ پہاڑ کو تراش کر بنایا گیاہے۔
اس کنویں کے حوالے سے نبی کریم ﷺ سے کوئی فضیلت کی بات مروی نہیں۔ الزین المراغی لکھتے ہیں کہ غور و فکر کے بعد میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ بئر العھن اور بئر الیسرۃ ایک ہی ہیں۔
صحیفہ نگاروں نے تقریباً 20 کنوؤں کی فہرست تیار کی ہے تاہم تحقیقی عمل کے نتیجے میں یہی ثابت ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺکی حیات طیبہ سے تعلق رکھنے والے کنوؤں کی تعداد 7 سے ز یادہ نہیں۔ آپﷺ نے صرف 7 کنوؤں سے وضو اور غسل کیا اور ان کا پانی پیا۔
الحافظ العراقی’’ تخریج احادیث الاحیاء ‘‘میں لکھتے ہیں :
” مذکورہ 7 کنویں اریس، حاء، رومہ، غرس، بضاعہ، البصہ، السقیا یا العھن یا جمل نامی کنویں ہیں۔ العراقی نے ساتویں کنویں کے حوالے سے 3 ناموں کا تذکرہ کیاہے۔ العراقی نے ان کنوؤں کے فضائل بیان کئے ہیں البتہ العھن کنویں کے فضائل سے گریز کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں اس کا تذکرہ العھن کے بجائے دوسرے نام سے آیاہے۔ العراقی نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ مشہور یہی ہے کہ مدینہ منورہ کے معروف کنویں7 ہی ہیں۔
الدارمی نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی ﷺنے اپنے مرض کے عالم میں فرمایا تھا:
’’ میرے اوپر مختلف کنوؤں کی 7 مشکوں کا پانی انڈیلو ۔‘ق
اہل مدینہ میں یہی مشہور ہے کہ ساتواں کنواں العھن ہی ہے۔
یہ تاریخی کنواں فی الوقت مدینہ منورہ کے العوالی محلے میں واقعہ ہے۔ اس کے اطراف کھجوروں کا باغات ہیں۔ کئی میٹھے پانی والے کنویں بھی ہیں۔ یہ کنواں قربان اسٹریٹ پر واقع ہے۔ مسجد قباء سے ایک کلومیٹر دور ہے۔
بہت سارے مؤرخین ، اسکالرز اور ماہرین نے اس کا دورہ کیا ہے۔ اس کا پانی پیا ہے۔ اس کنویں کی پیمائش کرنے والوں نے بتایا ہے کہ اس کا قطر 3.5 میٹر ہے۔ پانی تک اس کی گہرائی 16.5 میٹر ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ المطری کی روایت کے مطابق یہ پہاڑ کو تراش کر بنایا گیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر المطری یہ لکھتے کہ یہ کنواں چٹان کو تراش کر بنایا گیا ہے تو ز یادہ درست ہوتا۔
یہ تاریخی کنواں سیاہ پتھروں سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ اب بیکار پڑا ہوا ہے۔ اس کنویں کے نام سے منسوب نخلستان کی آبیاری دوسرے کنوؤں سے کی جارہی ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ العھن کنویں کی تلی میں چٹانوں کے درمیان پانی چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی گہرائی 75 سینٹی میٹر ہے۔ مدینہ منورہ کے اکثر کنوؤں کا پانی ایسا ہی ہے۔ اگر کنوؤں کا سرچشمہ مضبوط ہوتا ہے تو رات کے وقت پانی کے پمپ کی ضربیں آسانی سے جھیل جاتا ہے۔ العھن کنویں میں پانی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اسے استعمال نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کاشتکار کے پاس اس کے اخراجات مہیا نہیں ۔
جو لوگ اس تاریخی کنویں کو دیکھنا چاہتے ہوں تو انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اس تاریخی کنویں کا راستہ المناخہ سے شروع ہوتا ہے ۔ یہ العوالی محلے میں شارع قربان پر واقع ہے۔
معروف مؤرخ عزت فاروق کا کہنا ہے کہ یہ کنواں کئی برس پہلے پاٹ دیا گیا ہے۔ اب یہ غیرآباد ہے۔ یہ العوالی محلے میں آل البرزنجی کی ملکیت ہے۔ اس کے اوپر کباڑ پڑا ہوا ہے۔
مدینہ منورہ کا علاقہ کنوؤں ، قلعوں اور محلوں کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں دفاعی تنصیبات ، نخلستانوں کے اطراف قلعے اور حج و تجارت کے راستوں پر عسکری تنصیبات واقع ہیں۔ مدینہ منورہ کے بہت سارے آثار قدیمہ مل چکے ہیں تاہم اب بھی پہلی صدی ہجری میں قائم کئے جانے والے بہت سارے قلعے اور محل آج بھی موجود ہیں۔ وادی العقیق میں پہلی صدی ہجری کے دوران 80 سے زیادہ محل ہوا کرتے تھے۔ ان کے ثبوت دستاویزات میں ریکارڈ پر آچکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ اپنی ایک تہذیبی و تمدنی تاریخ رکھتا ہے (تفصیل کیلئے دیکھیں مرکز بحوث و دراسات المدینہ منورہ)،جریدۃ عکاظ شمارہ 4124 ، 10 اکتوبر 2012۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply