ناخدا ناکو عبدل اور سمندر کے دکھ۔۔سلیمان ہاشم

ناخدا عبدل کے روزگار کا واحد ذریعہ اس کی اپنی کشتی اور اپنے بچے تھے اس دن بھی بھوک و افلاس سے مجبوراً ناخدا عبدل کو مچھلی کے شکار کے لیے صبح سویرے اُٹھنا پڑا۔

اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ کئی دنوں سے بچے بھوکے ہیں، اور دو جانشو (خلاصی) تھے وہ بھی نہیں آ رہے ہیں۔ اب میں اکیلا ہوں، میں نے کئی جانشو (خلاصیوں) سے کہا کہ وہ میرے ساتھ شکار پر آ جائیں لیکن کوئی جانشو مجھ بوڑھے ناخدا اور اس پرانی کشتی کے ساتھ شکار پر جانے کو تیار نہیں۔ کیا میں آج اپنے تینوں بیٹوں کو ساتھ لے جاؤں؟ بیوی نے کہا، ”کیوں نہیں، آپ کے بچّے ہیں، ویسے بھی لاک ڈاؤن سے اسکول بند ہیں، یہ بچّے تمام دن سوتے ہیں، بہتر ہے کہ ان کو ساتھ لے جائیں، کچھ ان کو بھی شکار کا تجربہ ہوگا اور کسی جانشو کا حصّہ بھی ان کو ملے گا۔“

پسنی سے تعلق رکھنے والے عمررسیدہ ناخدا عبدل نے صبح سویرے اپنے تینوں کمسن بچوں 17سالہ ساکم، 14سالہ قاسم اور 13 سالہ علی کو ہمراہ لے کر حسبِ معمول اپنی کشتی پر سوار ماہی گیری کے لیے روانہ ہوا۔ اس دن سخت اوس و شبنم پڑ رہی تھی جس سے ان کو راستے میں 20 فٹ سے آگے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ساحل کے قریب ان کی کشتی سمندر میں ڈوبی ہوئی پرانی لانچ کے ملبہ میں نظر آ رہی تھی۔ ان کی کشتی اس سے ٹکرا گئی، جس سے ان کی کشتی بیچ سے دو ٹکڑے ہوگئی۔ ناخداعبدل نے اپنے تین بچوں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے تختوں پر بیٹھ کر بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی اور کنارے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن اپنے سب مال و متاع سے اب وہ ہمیشہ ہمشہ محروم ہو گئے۔

یہ کشتی وہ واحد روزگار کا ذریعہ تھا جس کی مدد سے ناخدا عبدل اپنے خاندان کا پیٹ پالتے تھے، مگر اب اس واقعہ کے بعد وہ واحد ذریعہ معاش سے بھی وہ محروم ہوگئے ہیں۔

ماہی گیر سمندر میں محنت مشقت سے جو محنت مزدودی کرتے ان کو ہمیشہ حادثوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ نہیں کہ صرف ناخدا عبدل کا یہ پہلا حادثہ تھا بلکہ کئی ماہی گیروں کو ایسے حادثوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

سمندر میں کام کرنے والے ہمیشہ خطروں سے دوچار ہوتے ہیں۔ وہ اُس دن کو بھی نہیں بھولتا جب چاروں اطراف سے اس کے جال سمندر میں تھے۔ ٹالروں نے 12 ناٹیکل میل کی حدود کی خلاف ورزی کی اور اس کے تمام قیمتی جال پھاڑ دیے۔ وہ مزاحمت نہ کر سکا اور جب احتجاج کیا تو اس پر برف کے گولے برسائے گئے۔ ناخدا اپنی زندگی بچانے کے لیے اپنی کشتی کا رخ موڑ کر کنارے پر پہنچا۔

ماہی گیر انجمن کے رہنما ناخدا اللہ بخش نے اس کو خون سے لت پت دیکھا تو پوچھا، ”ناخدا یہ آ پ کی حالت کس نے بنائی؟” ناخدا نے روتے ہوئے بتایا کہ بحری قزاقوں نے میری یہ حالت بنائی، میں سمجھا تھا کہ یہ سمندر یہ ساحل میرا ہے لیکن میں غلط تھا، ہمارا کوئی والی وارث نہیں، یہ ساحل کے کنارے آ کر سمندری حیات کا خاتمہ کرتے ہیں، ہم ان کا کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیں مارتے ہیں پیٹے ہیں، ہم ان کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔ آج تو حد کر دی۔ جب میں نے مزاحمت کی تو انھوں نے مجھ پر برف کے گولے اور پتھر برسائے اور مجھے زخمی کر دیا۔ میں اگر مزید ان سے الجھتا تو یہ مجھے ہلاک کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ آخر مجھے پسپا ہونا پڑا، یہ ظالم میرے قیمتی شکار کے جال اور مچھلیاں بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ میں ایک معمولی کشتی بان اور وہ مضبوط لانچوں اور ٹالروں پر مسلح تھے، ہم کچھ نہ کر سکے، میں پہلے سے سیٹھوں کا قرض دار ہوں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ بیوی کے وہ زیورات فروخت کر کے دوبارہ جال خریدوں۔ ہمیں حکومت کی جانب سے بھی کوئی امداد نہیں ملتی۔

ناخدا کو وہ دن بھی یاد ہے جب وہ اپنے جال سمندر میں پھینک چکا اور لنگر انداز تھا تو ایک بہت بڑی شارک مچھلی اس کی کشتی سے ٹکرائی۔ وہ ڈوبتے ڈوبتے بچا، اور جلدی جلدی لنگر نکالا مگر اپنی قیمتی جالوں سے محروم ہو گیا اور کنارے پر پہنچ کر اپنی جان بچائی۔ پھر وہ جال دوبارہ اسے کبھی نہ مل سکے۔ لیکن آج تو اتنا بڑا نقصان اس نے اُٹھایا کہ وہ زندگی بھراس نقصان کا ازالہ نہ کر سکے گا۔

جو دکھ اور تکلیف سمندر میں دو وقت کی روٹی کے لیے یہ سمندر میں کام کرنے والے سہتے ہیں، وہ ان حادثوں کو زندگی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور وقت کے ساتھ بھول جاتے ہیں۔ اور پھر اپنی محنت و مزدوری پر لگتے، وہ زندگی کے دکھوں سے دلبرداشتہ نہیں ہوتے ہیں۔ غریب ماہی گیر کی کشتی ٹوٹ گئی اور تین بچوں سمیت موت کے منہ سے معجزانہ طورپر محفوظ تو رہا، اب اس کے روزگار کا واحد ذریعہ کشتی انجن اور جال سمیت سمندر برد ہوا۔

اس سلسلے میں ماہی گیر ناخدا خیر محمد کہتے ہیں کہ ہماری زندگی ہمیشہ پُرخطر ہے۔ محکمہ فشریز کو ہم سالانہ ٹیکس دیتے ہیں، اور ہر سال صرف ماہی گیری سے حکومت پاکستان صرف ساحلِ بلوچستان سے اربوں روپے کا زرِمبادلہ کماتی ہے، لیکن ماہی گیروں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاتی ہے۔ دعویٰ تو بہت کیا جاتا ہے، عملآ کچھ نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وہ ساحلی علاقوں کے ان غریب ماہی گیروں کے لیے ہمیشہ ساحل پر آنے والے ٹرالروں اور لانچوں سے انھیں محفوظ بنانے کے لیے سخت ترین قانون بنائے تاکہ یہ ٹرالر اور لانچیں ساحل پر تعین کی گئی حدود کی خلاف ورزی نہ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ان کو نہ روکا گیا تو گوادر اور لسببیلہ کے ساحلی علاقوں میں بڑے بڑے ٹرالروں اور جہازوں سے جس انداز سے مچھلیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے، خدشہ ہے کہ جلد یہ ساحلی علاقے مچھلیوں کے شکار سے خالی ہوں گے۔ لاکھوں ماہی گیر بے روزگار ہوں گے یا ان بحری قزاقوں کے ہاتھوں ہلاک کیے جائیں گے۔ اور حادثوں کی صورت میں ماہی گیروں کو کوئی امداد نہیں دی جاتی کہ وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply