• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بھارت میں بڑھتااسلاموفوبیا: اسباب اور سد باب(قسط2)۔۔عبد ا لرحمٰن عالمگیر

بھارت میں بڑھتااسلاموفوبیا: اسباب اور سد باب(قسط2)۔۔عبد ا لرحمٰن عالمگیر

اسباب 

آئیے اب دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اتنی تیزی سے بڑھتے اسلاموفوبیا کے پیچھے کون سے اسباب ہیں۔ پچھلے صفحات میں اس کے چند بنیادی اسباب ضمناً ذکر کر دیےگئے ہیں۔ جیسے مسلمانوں کا اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنا، ہندوتوا، آپسی معاملات کو فرقہ وارانہ مسئلہ سمجھنا، ہندو مسلم دونوں عوام کی بڑے پیمانے پر ذہن سازی، پولرائزیشن،مستقل غلط بیانی اور بے بنیاد اعتراضات۔ اس کے علاوہ مزید دوسرے اسباب کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے:

ہندوؤں کی ذہنیت

ہندوؤں کے مذہبی رہنماؤں اور ذات پات کی تفریق کے مدعیان نے اپنے مذہب کے دوسرے ہم پایہ مذاہب کے خلاف ریشہ دوانیاں کیں۔ چونکہ تمام مذاہب میں سے سب سے بڑا مد مقابل اسلام ہی تھا۔ اس لیے اس کے خلاف سب سے زیادہ پروپیگنڈا پھیلایا گیا۔ جس کے باعث لوگ اسلام اور مسلمانوں سے بدظن اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہوگئے۔ اگرچہ یہ وقتی طور پر لوگوں کو اسلام کی طرف مائل ہونے سے روک سکے لیکن ہندو مت کی گمراہیاں ہندوؤں کو الحاد کی  گود میں جانے سے نہیں روک پا رہی ہیں۔ آج ہندوؤں کی اکثریت خود کو سیکولر ہندو کہلوانا پسند کرتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو خود کو کٹر ہندو کہتے پھرتے ہیں۔ وہ بھی چند رسم و رواج کے علاوہ ہندومت کی بیش تر تعلیمات کو نا قابل عمل مانتے ہیں۔

میڈیا

ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں میڈیا کی مختلف جہتوں نے الگ الگ انداز میں اسلاموفوبیا پھیلانے کا کام کیا ہے۔

پرنٹ میڈیا

انڈیا میں پرنٹ میڈیا کے شعبہ میں ہندی اخباربڑے پیمانے پر جانبدارانہ رپورٹنگ اور خبروں پر تجزیہ کرتی ہے۔ خبروں اور سرخیوں کو اس انداز میں ڈھالا جاتا ہے کہ وہ ہندوؤں کے جذبات کے موافق ہوں اور جب خبریں ہندو مسلم مسائل سے جڑی ہوں تو اخبار ایک خاص فریق کا طرفدار اور اس کی نیابت کرتا نظر آتا ہے۔ ہندو تہواروں پر ہندی اخباروں کا ایسا منظر ہوتا ہے گویا یہ اخبار نہ ہوں بلکہ کوئی مذہبی روزنامچہ ہو اور یہ ہندی نہیں بلکہ ’’ہندو اخبار‘‘ہو۔ یہ رویہ اگر کسی خاص مذہبی، رفاہی یا سیاسی تنظیم کا آرگن اپناتا تومعاملہ تشویشناک نہ ہوتا کہ اپنے ادارے کے افکار کی نمائندگی کر رہا ہے لیکن یہی کام سارے لیٹنگ ہندی نیوز پیپر کرنے لگے تو اس کا غلط اثر عوام کے ذہن پر پڑتا ہے اور پھر یہ اسلاموفوبیا کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا

پورے ملک میں پرائیویٹ نیوز چینل اور فلم انڈسٹری نے مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کی ہے۔ جب تک پرائیویٹ نیوز چینل نے خبر رسانی میں قدم نہیں رکھا تھا اور صرف حکومت کی جانب سے دور درشن اکیلا چینل تھا تو ٹی آر پی کی لڑائی میں فرقہ واریت کا ماحول نہیں تھا۔ پھر جب اس میدان میں پرائیویٹ نیوز چینل آئے تو ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی لیکن جوں جوں ان میں تجارتی عنصر غالب آتا گیا توں توں ان کی صورتیں بگڑنے لگیں۔ ان کے پروگرام ریٹنگ کی بنیاد پر تیار کیے جانے لگے،  مشمولات جتنے سطحی ہوتے ہیں اسے اتنی زیادہ ریٹنگ ملتی ہے۔پھر اسی ریٹنگ کے بقدر اشتہارات ملتے ہیں اور ریٹنگ کی بنیاد پر ہر سیکنڈ کی قیمت لگتی ہے۔ دراصل ریٹنگبراڈکاسٹ آڈِیَنس ریسرچ کونسل (BARC) کی جانب سے ٹیلی ویژنریٹنگ پوائنٹ (TRP) دیے جاتے ہیں۔اس کا تعین مشاہدین کی تعداد اور ان کا چینل پر گزارے گئے اوقات پر ہوتا ہے۔[48] اسی لیے ہر چینل کی کوشش ہوتی ہے کہ ناظرین کو زیادہ سے زیادہ وقت تک اپنے پاس روکے رکھیں، وہی پروگرام اور رپورٹ پیش کریں جو اکثریت کے مزاج کے موافق ہو اور وہ اسے پسند کریں۔ لہذا اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ ملک کے منظرنامے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نیوز چینل اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے انداز و اطوار میں بھی بدلاؤآئے۔

فلم انڈسٹری

ذرائع ابلاغ میں فلم پیغام رسانی کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ یہ معاشرے کے ناخواندہ طبقہ سے لے کر دانشور گروہ تک کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے۔ اسے غریب سے غریب شخص اور امیر سے امیر ترین فرد بھی دیکھتا ہے۔اسی وجہ سے یہ صرف ابلاغ وترسیل کا ذریعہ نہیں ہے۔ بلکہ کامیاب تجارتی میدان اور نظریاتی جنگ کا وسیلہ ہے۔ اسی کے پیش نظر فلموں میں وہی کانٹینٹ پروسا جاتا ہے جس کی زیادہ مانگ ہو۔ اور ان مضامین پر زیادہ فلمیں بنائی جاتی ہیں جسے عوام کی اکثریت پسند کرے۔ اسی لیے جب معروف فلم ہدایت کار مہیش بھٹ سے نومبر 2011 کو پیس کانفرنس ،ممبئی میں پوچھا گیا کہ اسلام کو فلموں میں اچھے انداز میں کیوں نہیں پیش کیا جاتا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’فلم انڈسٹری ایک دوکاندار کی مانند ہے وہ وہی چیز   بیچتی ہے، جسے لینے والے خریدار موجود ہوں۔ جہاں تک بات رہی اسلام کو اچھے انداز میں فلموں میں پیش کیے جانے کی یا مسلمان پر بیت رہی حالات کی عکاسی کی تو ایسی فلمیںباکس آفس پر نہیں چلتیں۔ میں نے بھی زخم (1998) اور دھوکا  (2007) جیسی فلمیں92-9319کے حالات کو مدنظر رکھ کر بنائی لیکن لوگوں نے اسے پسند نہیں کیا۔‘‘[49]

مہیش بھٹ کی بات درست ہے کہ ایسی فلمیں اچھا بزنس نہیں کر پاتیں، مزید یہ کہ ایسی فلمیں بنانے والوں کو اسلامسٹ یا جہادی کے طعنےدیے جاتے ہیں۔ جس کے پیش نظر فلم کاروں کو یہ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ کتنے ہندو ہیں۔ لیکن ایسا ماحول بنانے میں بھی ان فلموں کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ 1990 کے بعد سے لگاتار ایسی فلمیں  بنائی گئیں جس میں مسلمانوں کو غدارِ وطن، پاکستان کا جاسوس، حملہ آور، اسمگلر، عالمی دہشت گرد، وحشی اور درندہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو کبھی وفادار، امانت کا پاس ولحاظ رکھنے والا، جھوٹ، شراب اور لایعنی کاموں سے دور رہنے والے کے طور پر نہیں فلمایا گیا۔

بلاشبہ ہر سماج کے اندر چند برے لوگ ہوتے ہیں لیکن میڈیا بڑی عیاری کے ساتھ بری شبیہ والے مسلمانوں کے کردار کو فلماتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کہیں بم بلاسٹ ہوا اور اس کے مجرمین غیر مسلمین پائے گئے تو میڈیاانہیں ملیٹین، نکسل یا جنگجو کے روپ میں دکھاتی ہے۔ جبکہ کسی بم بلاسٹ کا صرف الزام ہی کسی اردو نام والے شخص سے جڑ جاتا ہے تواسے جہادی اور شدت پسند کے طور پر دکھلایا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا

سوشل میڈیاکوجہاں لوگوں نے مثبت افکار کی اشاعت کا ذریعہ بنایا ہے۔ وہیں ابن الوقتوں نے گھٹیا مفاد کے تحت فرضی خبروں کی اشاعت کر کے مخصوص گروہ کے خلاف نفرت انگیز ماحول بنایا ہے۔ سخت گیر ہندوؤں نے یوٹیوب اور فیس بک پر تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر مسلم بادشاہوں کو حملہ آور اور ہندو مخالف، مسلم شناخت سے جڑی تاریخی عمارتوں کو مندروں کی بنیاد پر قائم ہونے کے جھوٹے دعوے پر چھوٹی چھوٹی ویڈیوزکو عام کیا۔ آئی ٹی سیل والوں نے گئو رکھشا، ناری سرکھشا (صنف نازک کی حفاظت) راشٹریہ سوابھیمان (قومی فخر) بھارتیہ آرمی (ہندوستانی فوج) وغیرہ جیسے ناموں سے ہزاروں واٹس اپ گروپ تشکیل دیا۔ بظاہر مذکورہ عمومی اسماء سے نفرت نہیں جھلکتی ہے ۔ لیکن ان گروپوں میں روزانہ مکمل منصوبہ بندی سے متعلقہ مضامین سے جڑے پیغامات کے ساتھ ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا پھیلایا گیا۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ ان گروپس کے ذریعے لوگوں کی ایسی ذہن سازی کردی گئی ہے کہ وہ گئو رکھشا کے نام پر مابلنچنگ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ جیسا کہ دی کیونٹ کی رپورٹ میں لوگوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ مابلنچنگ میں واٹس اپ گروپ کے ذریعے لوگوں کو ایک مقام پر جمع کیا جاتا تھا تاکہ ان مسلمانوں کو پکڑکر پیٹا جائے جو گائے لاتے اور لے جاتے ہیں۔ [50]ایسی ہی ہجومی پٹائی میں کئی مسلمانوں کی جانیں جا چکی ہیں۔

مسلم آبادی کا ہوّا

مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے ہندوستان کے باشندوں کو خوفزدہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی سازش ہے کہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کیے جائیں اور اپنی آبادی بڑھائی جائے تاکہ جب وہ اکثریت میں ہو جائیں تو انڈیا ان کے قبضے میں چلا جائے اور یہ ایک نیا’’پاکستان‘‘ بن جائے۔ جس کی وجہ سے 2050 کے بعد بھارت کا کوئی پردھان منتری ہندو نہیں بن پائے گا۔ یہی بھرم آزادی کے بعد بھی پھیلایا گیا تھا کہ مسلمان اتنی تیزی سے بڑھیں گے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوؤں سے زیادہ ہوجائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی رفتار دھیمی ہو رہی ہے۔ ہر سال ہندوؤں کی اتنی آبادی بڑھ جاتی ہے۔ جتنی کے مسلمانوں کی کل آبادی ہے۔ مسلم آبادی کا خوف دلا کر لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھائی گئی کہ اگر مسلمانوں کی حکومت آگئی یا وہ اس ملک کے وزیراعظم بن گئے تو ہندوؤں کے حقوق سلب کر لیے جائیں گے، انہیں ’’دوبارہ غلامی کے دور‘‘ میں جینا ہوگا اور ظلم و جور کی ایک نئی تاریخ ہندوؤں کے خون سے لکھی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی
ایک ادنی سا طالب علم جو تجربہ کار لوگوں کے درمیان رہ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply