لاعلاج باولے کتے۔۔فارینہ الماس

اس سے  زیادہ گلا سڑا اور تعفن  زدہ سماج اور کیا ہو گا جو کسی خونی ڈائن کی طرح اپنے ہی بچے کھانے لگے ۔جہاں ڈرے سہمے لوگ اپنے بچوں کو چھاتیوں سے لگائے سٹپٹائے ہوئے پھرنے لگیں۔ جہاں آسمان کاسلیٹی یا نیلا رنگ بھی لال بھبوکا ہو جائے ۔اس پر سرمئی بادل نہیں ، جیسے خون کے لوتھڑے تیرتے پھرتے ہوں جن سے کچھ ہی لمحوں میں لہو کی دھاریں پھوٹنے لگیں گی ۔زمین سے جاتی آہوں اور نالوں کی گرج ان بادلوں کے دامن سے بجلیوں کی دھجیوں میں کٹ کٹ کے گرتی ہیں کہ ان کی ہیبت سے انسان کا کلیجہ پھٹنے لگتا ہے ۔جہاں سر شام ہی آبادیوں میں ہُو کا عالم طاری ہونے لگے۔جیسے کونوں کھدروں سے یکایک لاوارث اور مکروہ کتوں کے جھنڈ عیاں ہوں گے اور ہر گھر سے ایک انسانی بلونگڑہ اپنے منہ میں دابے بھاگتے دکھائی دیں گے ۔وہ بیچ سڑک ہی بیٹھے انتہائی تسلی سے اپنے شکار کے بدن میں نوکیلے دانت گاڑیں گے۔ اور کچر کچر گوشت کی ادھڑی رگوں اور نسوں سے زندگی نوچ کھائیں گے۔انسانوں کو اپنے زیاں کا علم صبح تڑکے سڑک پر جابجا بکھرے خون کے دھبے دیکھ کر ہی ہو گا ۔ رات کو تو وہ لمبی تان کر سوئے رہے شاید صبح کے ماتم کے لئے تازہ دم ہونے کے لئے ۔

بات یہ ہے کہ زندگی جب تک سادہ ہو اس میں تہذیب،آگہی اور حساسیت کی آمیزش رہتی ہے۔ جسم اور ذہن کی سادگی انسان کو لوبھ اور طمع کے بوجھ سے آزاد رکھتی ہے ۔وہ فطرت کی قربت میں سکوں پاتا ہے۔ صبح سویرے کے سورج کو نکلتے دیکھتا ہے تو اسے زندگی کی تمازت ملتی ہے۔شام کے جھٹپٹے کی سرخی جب آسمان کے کناروں سے جھانکتی ہے تو روح تازہ دم ہو جاتی ہے۔ رات کو آسمان کے تاروں کا نظارہ اسے عشق کی انتہا کو چھو لینے کی تمنا عطا کرتا ہے۔آسمان پر اچھلتے کودتے پنچھی اس کے اندر اٹھکھیلیاں اور بے ساختگیاں جگاتے ہیں۔ سادہ تمدن انسانی زندگی کو آسان اور حساس بناتا ہے۔ حساس زندگی پر سکون زندگی ہوتی ہے ۔اسی لئے ہمارا دین بھی ہمیں ایک سادہ اور حساسیت سے بھرپور زندگی کی تلقین کرتا ہے۔ ایسی حساسیت جس سے دل کسی زخمی پرندے کو دیکھ کر بھی تڑپ اٹھے۔ایسی زندگی جس میں انسان ،انسانیت کے درد اور رنج کم کرنے کے اسباب تلاش کرنے اور اور پھر ان کی فراہمی کو ممکن بنانے کے اقدامات میں ہی اپنے جینے اور پر سکون رہنے کا سامان پیدا کرسکے۔ایسے ہی افعال میں اس کی ہستی کی قدر اور عرفان موجود ہوا کرتے ہیں۔اس کی روح بے شکن اور بے عیب رہتی ہے ۔لیکن اب زندگی سادہ نہیں رہی ۔جب زندگی سادہ نہ رہے تو آرزوؤں اور خواہشات کی ہاہا کار مچنے لگتی ہے۔ذاتی ملکیت اورمالی منفعت کے احساسات اودھم مچانے لگتے ہیں۔ ہر گام چھن جانے اور محروم رہ جانے کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔

اس کہرام نے انسان کو اضطراب،ابتری اور انتشار کے سوا کچھ نہ دیا۔ایسی لایعنی اور بے یقینی جس کی گمراہی نے جسم کی محرومیوں کا سوگ منانے، دل میں بے بسی کی آگ لگانے اور رقابت میں اپنی ہی مٹی برباد کرنے کے سوا کچھ نہ کیا۔جسم کی محرومی کا اُپائے کرتے کرتے انسان اندھی اور منہ زور خواہشوں کے حوالے ہوتا چلا گیا۔نفس ،شہوانی اور غیر انسانی ہونے لگے ۔لذت پرستی سے زندگی کے معنی اخذ کرنے کی کوشش انسان کو صرف جھپٹنے اور چیر پھاڑ کرنے والا حیوان ہی بنا سکی ۔انسان کی انسانیت کا حیوانیت سے بدل جانا آج کی بات نہیں ،اسے اپنے ورثے میں ایک بہت طویل حیوانی ماضی ملا ہے ۔انسانی تہذیب اور اس کے آدرش ہی ہیں جو اس کے حیوانی ماضی کو فی الوقتی بھلانے میں اس کا ساتھ دیتے ہیں ۔لیکن جیسے ہی یہ آدرش کمزور پڑ جائیں ۔اس کی تہذیب کا لبادہ بدن سے اترنے لگتا ہے اور انسان پھر سے جنگل کا اک بپھرا ہوا چوپایہ بن جاتا ہے ۔ انسان کے آدرش اس کے مذہب میں ہیں ۔ دین اسے جانور سے انسان بناتا ہے ۔

آج ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ تمام انسان دین کو تو مانتے ہیں لیکن دین کی نہیں مانتے ۔ورنہ کیسے ممکن ہے کہ دین کو ماننے والے وحشی ہوجائیں؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں معصوم بچوں سے جنسی درندگی کرنے والوں کا 97فیصد دین کو ماننے والے اسلامی ملکوں میں پایا جائے؟لیکن قابل افسوس امر ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے ۔پاکستان میں گذشتہ پانچ سالوں میں بچوں سے  زیادتی کے 17  ہزار واقعات رونما ہوئے اور پچھلے سال کے ابتدائی چھ مہینوں میں ہی 1300 سے زائد بچے جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔لیکن ہم ایک لاش کا سوگ مناتے اور اگلی لاش کی تازہ قبر کھودنے میں جت جاتے ہیں ۔ہم سے تو یہ بھی طے کرنا ممکن نہیں ہو پایا کہ مجرم کو سرعام لٹکایا جائے یا محض نامرد بنا کر چھوڑ دیا جائے۔ابھی تو ان واقعات کے اسباب پر پوری طرح غورو فکر نہیں ہو پارہا تو تدارک کہاں ممکن ۔ابھی ہم کھوج رہے ہیں کہ آیا تین شیطانی قوتوں کی تثلیث یعنی فحش لٹریچر،شہوانی جذبے کو بھڑکانے اور اس کی تسکین کا عملی راستہ دکھاتے فلمی مناظر اور عورتوں کا گرتا ہوا اخلاقی معیار ہی ذمے دار ہیں یا وجہ اور بھی ہے؟ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ معاشرے میں طاقت اور اختیار کا بے لگام ہو جانا اس کا باعث ہو یا ہمارے قانون کی ایسی کمزوری کہ پکڑا جانے والا ہر مجرم پہلے کئی بار آبرو کی دھجیاں اڑاکے ، محض اک سرسری سی سزا بھگت لینے کے بعد پھر سے انسانی بستی میں بھیج دیا گیا۔ جہاں اس نے تازہ دم ہو کر پھر سے اپنا شکار ڈھونڈ نکالا ۔وہ اگر نفسیاتی مرض میں مبتلا تھا تو اس کے سدھار کے لئے کوئی طریقہ اختیار نہ کیا گیا ۔اسے کوئی دینی یا سماجی سبق تک پڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔معاشرے کو ایک جنگل سمجھ کر اس درندے کو جنگل میں پھر سے کھلا چھوڑ دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم ابھی تک چپ چاپ تماش  بیں بنے بیٹھے ہیں اور ہماری تہذیب ہماری وحشتوں سے داغدار ہو رہی ہے ۔ دل کٹ کے رہ جاتے ہیں جب کسی معصوم کی لاش کچرے پر پائی جاتی ہے یا کوئی پھولا ہوا جسم پانی کی ٹینکی سے برآمد ہوتا ہے۔ کہیں سر بریدہ لاش کھیتوں میں پائی جاتی ہے تو کہیں بے دردی سے گلہ گھونٹی ،ابلتی اور کھلی آنکھوں کا عریاں لاشہ دکھائی پڑتا ہے۔ ایسی بے دردی اور بے رحمی کہ انسانی ہڈیاں تک چٹخ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں ،ایسی بربریت کہ جسم کا گوشت بھی ادھڑ جائے ۔ یہ ہے ہماری سماجی تہذیب کا مکروہ چہرہ۔ وہ تہذیب جو وقت کے پنوں پر اپنی آخری ہچکیاں لیتی محسوس ہو رہی ہے۔ اس کی مردنی ہمارے رویوں اور حسیات پر موت کی طرح مسلط ہے یا پھر یوں ہے کہ ابتلا وافتاد کا دور شروع ہو چکا ہے۔ موت کو یاد رکھنا اور موت میں مبتلا ہو جانا دو مختلف باتیں ہیں۔جسم کی موت ہو تو ذہن مر جاتا ہے لیکن روح زندہ رہتی ہے۔ احساس مر جائے تو ذہن و روح دونوں مر جاتے ہیں صرف جسم باقی بچتا ہے۔جب جسم رہ جائے اور باقی سب فنا ہو جائے تو بھوک بے لگام ہو جاتی ہے ۔وہ بھوک جسے صرف روح ہی تھپتھپا کر یا بہلا کر دبائے رکھتی ہے ،اسے منہ زور اور ظالم ہونے سے بچاتی ہے ۔ لیکن جب جسم ،نفس کی سبھی کھڑکیاں کھول دے تو اس بھوک کا کوئی حساب رہتا ہی نہیں۔ انسان طمانیت کے نہایت رزیل اور سطحی درجے پر جا کر اپنی نفسی خواہش کو جھپٹ کر یا نوچ کر حاصل کرنے لگتا ہے۔ اسے انسانی گوشت کے لوتھڑے خوشی دینے لگتے ہیں۔ایسے وحشی اور باولے کتوں کا علاج ممکن نہیں رہتا انہیں مار دینا ہی سماج کے حق میں ہوتا ہے ۔
اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب یہ ہر گھر سے اپنا شکار کھدیڑنے اور بھنبھوڑنے لگیں گے اور ہم روز نئی قبر کھودیں گے روز اک نیا ماتم اور نئی گریہ زاری کیا کریں گے۔

Facebook Comments

فارینہ الماس
تعلیم سیاسیات کے مضمون میں حاصل کی لیکن اپنے تخیل اور مشاہدے کی آبیاری کے لئے اردو ادب کے مطالعہ کو اہمیت دی۔لکھنے کا شوق افسانے اور ناول لکھ کر پورا کیا۔سال بھر سے کالم نگاری میں مشق جاری ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply