تفاوت۔۔مختار پارس

محبت خدا سے کی جاتی ہے یا انسان سے؟ ۔۔۔یہ دونوں ہاتھ میرےاپنے ہیں،دایاں بھی اور بایاں بھی۔ دائیں ہاتھ کو راست کہہ کر بائیں کو جھٹکا تو نہیں جا سکتا۔ ایک چہرہ ہے جو سب کو نظر آتا ہے اور دوسرے کا صرف خود کو پتہ ہے،دونوں پرتو اپنے ہیں اور دونوں سچے ہیں۔ ایک آنکھ ہے جس کو ویسا نظر آتا ہے جیسا سب کو نظر آتا ہے اور اسی آنکھ کو کچھ ایسا بھی نظر آتا ہے جو کسی اور کو دکھائی نہیں دیتا،بصارت اور بصیرت دونوں میں بسیرا میرا ہے۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ جو میں ہوں اس سے انکار کر سکوں۔ میرا جھوٹ  کسی اور کا سچ ہو سکتا ہے،مجھ میں اتنی استطاعت نہیں کہ دوسرے کو شرمسار کر سکوں۔

لیکن اس تفاوت کو تصادم بننے سے روکنا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ خوشی اور غم ہر شخص کا اپنا ہے۔ ہر سلیقہ شعار جو ہار سنگھار کے ساتھ آنے کا پتہ دیتا ہے وہ صرف جبینوں پر مسرت کو کھیلتا دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھنے آتا ہے۔ سر پر راکھ ڈال کر ساتھ بیٹھنے والے حالتِ ابتسام میں بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسروں کی خوشی میں رقصاں رہنے والی روحیں اب نمودار نہیں ہوتیں۔ روایات اور حکایات نے ہر جذبے اور ہر عشق کو نقاب اوڑھا دیے ہیں۔ اب کوئی کسی کو دل کی آنکھ سے نہیں دیکھتا، کوئی کسی کو سچ کا سہارا نہیں دیتا، کوئی خود کو بے نقاب نہیں کرتا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ یہاں سارے ہمارے جیسے ہیں مگر کوئی ہمارا نہیں ہے۔

یہ کھوج لگانا بہت مشکل ہے کہ انسان کیا چاہتا ہے۔ اگر وہ خوشی کی تلاش میں ہوتا تو کسی کٹیا میں، کسی کاجل میں یا کسی کاغذ میں ہوتا مگر نہیں۔ تلاشِ آب کے مسافر صحراؤں میں نکل کھڑے ہوں تو انہیں کیا کہیں۔جرم بھی ایک حقیقت ہے اور گناہ سے بھی انکار نہیں۔ کوئی ایسا نہیں جس سے گناہ نہ سرزد ہوا ہو۔ جب سب گناہگار ہیں تو پھر کیا وہ وفا شعار نہیں ؟ جرم اور گناہ نہ ہوتے تو شیخ اور شُرطے کیا کرتے؟ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انسان اپنی خوشی کےلئے ہر وہ کام کرنے پر اُتر آتا ہے جو اسے برباد کرنے پر پابند ہے۔ اس کی سوچوں کا ڈھیر جب سلگنے لگتا ہے تو اس کا دھواں کسی اور کی آنکھوں کو کڑوا نہیں لگتا۔ خدا کا بتایا ہوا رستہ اسے نجات دے سکتا ہے مگر وہ اس پر نہیں چلنا چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اسے اس کے سوچے ہوۓ رستے پر کہیں مل جاۓ۔ سارے رستے ادھر ہی کو جاتے ہیں ،بہتے پانیوں نے کہیں تو جا کر رکنا ہے۔ کسی کے کلام کی روش میں غمزدہ ہونے کا کوئی موقع نہیں،کسی حساب کے سیلان میں دل جلانے کی ضرورت نہیں۔ اگر اس عبارت سے ربط عطا ہو جاۓ جو خدا کی رضا کی طرف لے جاۓ تو پھر کسی چیز کی ضرورت نہیں۔

جھمگٹوں کے نعروں اور نالوں میں الجھی چیخ و پکار کا مطلب صرف سکوت ہے۔ کسی شخص کی تسلی سے دل کو سکون مل جانا ایک اشارہ ہے کہ وہ فریب میں الجھنا چاہتا ہے۔ عیش و طرب میں شب بیداری ترک ہو جاۓ تو یہ ترکِ وفا کی پہلی علامت ہے۔ سمندروں جیسا سکون حاصل کرنے کےلیے ظرف کو گہرا کرنے کی ضرورت رہتی ہے۔ آنسو صرف نقصان پر بہنے کےلیے نہیں ہوتے۔ یوں بھی نہیں ہونا چاہیے  کہ ہر قہقہے کے ساتھ ہمراہ ہو لیا جاۓ۔ بس کچھ ایسا انتظام مناسب ہے کہ کوئی خوشی اور کوئی غم شکر کی کیفیت سے جدا نہ کرے۔ لہریں دریاؤں کے ماتھے کی  شکن ہوتی ہیں مگر سمندر طلاطم کے بغیر ہی بھلے لگتے ہیں۔

اب یہ نہ کہا جاۓ کہ ساری بھلی باتیں طاق میں رکھ دینے کے قابل ہوتی ہیں کہ ان پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ معاشرہ اس وقت ہی الجھن کا شکار ہوجاتا ہے جب اجتماعی سوچ اور انفرادی عمل میں تفاوت آئینے میں بال ڈال دیتا ہے۔ اپنی ذات کا اژدھا ہمارے اذہان کو جکڑ کر ہمیں سرحدیں پار نہیں کرنے دیتا۔ اگر مقصد رزق کی تلاش ہے تو وہ صرف اپنے رزق کی تلاش میں نہیں ہے۔ اگر خیال محبت کے میدان میں نام کمانے کا ہے تو یہ ہنر نفرت کے اوزاروں سے نہیں سیکھا جا سکتا۔ اگر سکون گمان میں سرگرداں ہے تو اس کا حصول حاصل کرنے میں نہیں بلکہ لٹا دینے میں ہے۔ معاشرہ موت کے منہ میں تب جاتا ہے جب اسے عدم آباد کے راستے پر دائم آباد نظر آ جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

طرزِ تخاطب اور بادِ مخالف میں فرق ہونا چاہیے۔ ہر وہ بات جو دل کو اچھی نہ لگے وہ کفر نہیں ہے۔ خواب و خیال سے بنے ہوۓ ریشم سے الجھنے سے بہتر ہے کہ رنگ و نور کے استعاروں کو حسنِ سلوک سے رواج دیا جاۓ۔ ہمیں کسی کو مجبور نہیں کرنا کہ وہ آ کر ہماری محفلِ نشاط میں رقص کرے۔ کیوں ہم دوسروں کی آنکھ میں اپنے غم کے قطرے تلاش کرتے ہیں۔ ہماری ذات ان نقابوں کو الٹنے پر قادر ہے تو ہم چشمِ حیراں کو وا کیوں نہیں ہونے دیتے۔ خود کو فراموش کر کے ہمیں کوئی دوسرا بننا ہو گا۔ اپنی ذات سے نکل کر کسی اور دل میں گھر کرنے سے سکون مل سکے گا کہ مسافر اپنے گھر میں نہیں سو سکتے۔ خرد آشوب ثبوت تلاش کرتے رہیں گے اور مجنوں فہم و فراست کو داستان سنا کر رازِ حیات سے آشکار کر دیں گے۔ اہلِ دانش کو مستقبل کی نسلوں کو ان گناہ آلود جینیاتی تبدیلیوں سے بچا کر معاشرے کے اجتماعی شعور کو اس طرح سے بیدار کرنا ہے کہ کسی کے سر پر ہاتھ رکھنے کےلیے کسی سے اس کے خدا کی تصدیق نہ کی جاۓ۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply