ريت کا ٹیلہ (سچے واقعات پہ مبنی کہانی)۔۔حبیب شیخ

کراچی  شہر ہر طرف جھنڈوں اور جھنڈيوں سے سجا ہوا تھا۔ پچاسواں یومِ آزادی بہت جوش و خروش سے منایا جا رہا تھا۔ اصغر اس ماحول سے بےنیاز اپنی بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ ایک موٹر وین میں  منزل کی جانب رواں دواں تھا ۔ وہ کراچی سے لاہور کوچ کر رہا تھا، اس شہر کو چھوڑ کر جہاں اس نے چوالیس سال گزارے تھے، جہاں اس کے چاروں بچے  پیدا ہوۓ اور پروان چڑھے، اور جہاں اس نے اپنا کاروبار جمایا، دوست بناۓ، اورتعلّقات بنائے۔ اس کے ذہن میں کبھی یہ گمان ہی نہیں آیا تھاکہ اسی شہر کے کئی باسی اس کے دشمن بن جائیں  گے۔ اس پر ستم یہ کہ وہ اپنے دل کا ایک ٹکڑا پیچھے چھوڑ چلا تھا۔ اب اس کو اِس عمر میں ایک نئی جگہ جا کر دوبارہ آ باد ہونا ہے اور وہ بھی اپنے بڑے بیٹے اطہر کے بغیر۔ اسی لئے وین کا ماحول کافی سوگوار تھا ۔ اصغر اور صدّیقہ کے آنسو تَو پہلے ہی خشک ہو چکے تھے۔ ان کے چہروں کی لکیریں ان کا درد بیان کر رہی تھیں اور دونوں اپنی عمر سے دس بارہ سال آگے نکل گئے تھے۔

وین شہر کے بےضبط ٹریفک کو پیچھے چھوڑ کر باہر نکل چکی تھی اور دونوں اطراف کچی آبادیاں تھیں۔ انہوں نے بھی کچھ وقت کے بعد ساتھ چھوڑ دیا۔ اب وہ صحرا میں سے گزر رہے تھے اور ریت اِدھر ادھر اڑ رہی تھی۔ ٹیلے بن رہے تھے اور ڈھل رہے تھے۔ اصغر کو محسوس ہورہا تھا کہ اُس کا اور اس کے بچوں کا مستقبل اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ وہ صرف ریت کا ایک ذرّہ ہےجو پیدائش سے لے کر اب تک ہوا کے رخ کا غلام ہے۔ آج اصغر کو جالندھر کا وہ گاؤں بہت یاد آ رہا تھا جہاں اس کے آباو اجداد نے پشت در پشت کئی  نسلیں گزار دیں۔

اصغر کے باپ کا کم عمری ہی میں انتقال ہو گیا تھا اور اسے جالندھر کے نزدیک اپنے آبائی گاؤں کو خیر آباد کہنا پڑا۔ وہ اپنی بہن کے شوہر عبدالّطیف کی سرپرستی میں لدھیانہ میں بڑا ہوا اور وہیں اس کی شادی صدّیقہ کے ساتھ ہوئی۔ بھارت کی تقسیم کے دنوں میں  ان کے گھر پر حملہ ہوا تو عبدالّطیف اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ، اصغر اور صدّیقہ سب جا ن بچا کر ایک مہاجر کیمپ میں آ گئے اور وہاں انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں پانچ روز گزارنے کے بعد فوج کی نگرانی میں ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ جب لدھیانہ سے لاہورجانے کے لئے ریل گاڑی آئی تو اسٹیشن پر انتہائی افراتفری پھیل گئی۔ ہزاروں لوگ اس ریل گاڑی میں سوار ہونا چاہتے تھے۔ عبدالّطیف اپنی بیوی بچوں، اور صدّیقہ کے ساتھ کسی نہ کسی طرح گاڑی میں سوار ہو گیا۔ لوگوں کے ہجوم میں اصغر کو پتہ ہی نہیں چلا کہ باقی سب لوگ سوار ہو چکے تھے اور وہ اکیلا پیچھے رہ گیا۔ اگلی گاڑی کے چلنے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ چاروں طرف قتل و غارت سے متاثر لوگوں کو دیکھ کر اصغر کیمپ میں رضاکار بھرتی ہو گیا۔ ادھر عبدالّطیف اور صدّیقہ نےساری بوگیؤں کو چھان مارا۔ ان کے لئے یہ قیامت کا سفر تھا۔ لاہورکے مہاجر کیمپ میں آ کر اصغر کی تلاش شروع ہوئی۔ پھر عبدالّطیف کئی  روز تک اسٹیشن پر ہی بیٹھا رہا کہ اگلی گاڑی سے شاید اصغر آ جائے۔ وہ صدّیقہ کا رنج اور شکایت سے بھرا ہوا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ ساتویں روز ایک گاڑی میں کٹی ہوئی لاشوں کے درمیان میں سے اور پھٹے ہوئے کپڑ وں میں اصغر نمودار ہوا۔

لاہور ان سب کے لئے بالکل اجنبی شہر تھا۔ عبدالّطیف کسی ایک شخص کو بھی وہاں نہیں جانتا تھا البتہ راولپنڈی میں ایک دو رشتہ دار رہتے تھے۔ یہ لوگ لاہورسے پنڈی کوچ کر گئے لیکن وہاں کوئی باقاعدہ آمدنی کا سلسلہ نہیں بن سکا۔ کراچی میں فسادات کی وجہ سے ہندو تاجر اپنے کاروبار کو چھوڑ کر بھارت کو بھاگ چکے تھے۔ راولپنڈی میں چار سال گزارنےکے بعد عبدالطیف اصغر، صدّیقہ اور اپنے کنبہ کے ساتھ کراچی آگیا اور برآمد ات کا کاروبار شروع کر دیا اور مناسب آمدنی کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ کراچی کا ماحول اصغر کو بہت پسند تھا۔ نظم وضبط، صاف ستھرا شہر اور ہر طرح کے لوگ سب مل جل کر رہتے تھے۔ مذہبی اور لسانی روابط تمدّن کا حصہ تھے۔ وہ اکثر رات کی خاموشی میں سوچا کرتا کہ اُس کا گاؤں، لدھیانہ، راولپنڈی اس نے ان سب کو اپنایا لیکن ان سب نے دغا دے دی۔ یہ کراچی ہی ہے جس نے اس کو مستقل ٹھکانہ دیا۔

چند ہی سالوں میں اصغر اور صدّیقہ چار بچّوں کے والدین بن گئے۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ شاید اس لئے کہ اچّھے وقت کی یہی خامی ہے۔ بڑے بیٹےاطہر کو بچپن ہی سے پولیس فورس میں شامل ہونے کا شوق تھا۔ اصغر اور صدّیقہ کو پولیس کی نوکری کے بارے ميں بہت خدشات تھے لیکن بیٹے نے ان کو کسی نہ کسی طرح راضی کرلیا ۔

کچھ عرصےبعد شہر میں لسانی فسادات شروع ہوگئے اورقتل وغارت عام ہو گیا۔ اصغر اور صدّیقہ کے اطہر کی جان کے بارے ميں خدشات انتہائی فکر مندی میں تبديل ہو گئے لیکن اطہر انہیں یہ کہہ کر تسلّی دیتا کہ اس کی کسی سے دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی غیر قانونی کام میں ملوّث ہے۔ پھر اصغر اور صدّیقہ کی زندگی کا سب سے زیادہ دکھ بھرا دن آن پہنچا جب ان کو پتہ چلا کہ کسی موٹر سائیکل سوار نے اطہر اور اس کی پولیس پارٹی پر حملہ کردیا اور اطہر اپنے تین ساتھیؤں سمیت جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ابھی اطہر کو دفن کئے چار روز ہی ہوئے تھے کہ اصغر کو دھمکیاں موصول ہونے لگیں۔ وہ شہر کو چھوڑنے کے بارے ميں حتمی فیصلہ بھی نہیں کر پایا تھا کہ اس نے اپنے گھر کے باہر پانی کے پائپ پر ایک نشان دیکھا۔ اس کو پتہ تھا کہ اس نشان کا مطلب کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے۔ اس کو وہ حملہ یاد آ گیا جو اس کے لدھیانہ والے مکان پر آج سے پچاس سال پہلے کیا گیا تھا۔ نہیں، وہ دوبارہ ایسے حملے کا نشانہ نہیں بنے گا اور پہلے ہی اس شہر کو چھوڑ دے گا !

Advertisements
julia rana solicitors london

وین کو ایک جھٹکا لگا اور اصغر کو پھر ا طہر کا خیال آیا جسے وہ پیچھے چھوڑا جارہا تھا۔ کاش اطہر بھی ا ن کے ساتھ موٹر وین میں ہوتا! پھر وہ دوبارہ ٹیلوں کو دیکھنے لگ گیا۔ اصغر کو ریت کا ہر ٹیلا اپنا گھر لگ رہا تھا جو بنتا ہے اور پھر کچھ دیر بعد غائب ہو جاتاہے۔ شاید وہ بنتا ہی ہے ڈھلنے کےلئے !

Facebook Comments