صفرالمظفرکی عبادت ومعمولات۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

اللہ رب العزت نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اورراتوں کی خاص اہمیت وفضیلت بیان کر کے ان کی خاص خاص برکات وخصوصیات بیان فرمائی ہیں قرآن حکیم میں ارشادباری تعالیٰ ہے۔”بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اورزمین بنائے ان میں سے چارحرمت والے ہیں یہ سیدھادین ہے توان مہینوں میں اپنی جا ن پرظلم نہ کرواور مشرکوں سے ہروقت لڑوجیساوہ تم سے ہروقت لڑتے ہیں اورجان لوکہ اللہ پاک پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔(سورۃ التوبہ پارہ ۰۱آیت نمبر۶۳)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک کی بیماری دوسرے کونہیں لگتی۔نہ بدفالی ونحوست کوئی چیزہے۔نہ اُلوکابولناکوئی  اثررکھتاہے۔نہ صفرکوئی چیزہے۔کوڑھی کے مریض سے ایسے ہی دور رہو جیسے شیر سے دور بھاگتے ہو۔(بخاری و مسلم)

صفرالمظفراسلامی ہجری سال کادوسرامہینہ ہے۔جو کہ محرم الحرام کے بعد آتا ہے، اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ”اس ماہ میں اہل مکہ سفر کرتے تھے اور مکہ میں لوگوں کی تعداد ”صفر“ہو جاتی۔ کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد اس ماہ لوٹ مار کا بازار گرم ہو جاتا اور چور اُچکے لوگوں کو لوٹ کر انکی جمع پونجی ”صفر“کر دیتے تھے۔(لسان العرب، از ابن منظور ۴/۲۶۴-۳۶۴)بعض کے نزدیک صفرایک بیماری ہے جس میں آدمی کھاتاچلاجاتاہے مگراس کی بھوک ختم نہیں ہوتی۔جسے ”جوع البقر“کہاجاتاہے۔بعض لوگوں کاعقیدہ تھا کہ صفرپیٹ میں ایک کیڑہ یاسانپ ہوتاہے یاایک خطرناک بیماری ہوتی ہے اورجس کویہ بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔وہ ہلاک ہوجاتاہے اوریہ بیماری خارش سے بھی زیادہ متعدی ہوتی ہے۔جس کی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے تردیدکی اوریہ فرمایا”وَلَاصَفَرَ“صفرکی کوئی حقیقت نہیں اوریہ بیماری اللہ کے حکم کے بغیرمتعدی (کسی دوسرے شخص کولگنا)نہیں ہوتی۔چونکہ عرب کے لوگ حرمت کیوجہ سے تین ماہ ذوالقعدہ،ذُوالحجہ اورمحرم الحرام میں جنگ وقتال اورلوٹ مارسے بازرہتے اورانتظار کرتے کہ یہ پابندیاں ختم ہوں تووہ نکلیں اورخوب لوٹ مارکریں۔لہذاصفرکامہینہ شروع ہوتے ہی وہ لوٹ مار،رہزنی اورجنگ وقتال کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے توان کے گھرخالی رہ جاتے۔”صفرالمکان“یعنی مکان خالی ہوگیا۔جب عرب کے لوگوں نے دیکھاکہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوتے ہیں۔گھربربادیاخالی ہوجاتے ہیں۔توانہوں نے اس سے یہ شگون لیاکہ یہ مہینہ ہمارے لئے منحوس ہے اورگھروں کی بربادی اورویرانی کی اصل وجہ پرغورنہیں کیا۔نہ اپنے کاموں کی خرابی کااحساس کیا۔اورنہ ہی لڑائی جھگڑے،جنگ وقتال سے خودکوروکے رکھا۔بلکہ اسی مہینہ کومنحوس ٹھہرادیا۔(تفسیرابنِ کثیرج۲ص۵۴۳،فتح المجید۸۰۳)

دورِجاہلیت میں بھی ماہِ صفرکے بارے میں لوگ اسی قسم کے وہمی خیالات رکھاکرتے تھے کہ اس مہینے میں مصیبتیں اورآفتیں بہت ہوتی ہیں۔چنانچہ وہ لوگ ماہِ صفرکے آنے کومنحوس خیال کرتے تھے۔(عمدۃ القاری۰۱۱/۷)

جس طرح ماہ صفر کو منحوس اور اس سے بد شگونی لینا دور جاہلیت میں بہت مشہور تھا،اسی طرح آج کل بھی بہت سے اسلام کا دعوی کرنے والے لوگوں میں یہ چیزیں پائی جاتی ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک کی بیماری دوسرے کونہیں لگتی۔نہ بدفالی ونحوست کوئی چیزہے۔نہ اُلوکابولناکوئی اثررکھتاہے۔نہ صفرکوئی چیزہے۔کوڑھی کے مریض سے ایسے ہی دور رہو جیسے شیر سے دور بھاگتے ہو۔(بخاری و مسلم)حضرت علامہ مولاناشاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں۔”عوام اسے یعنی صفرکے مہینے کوبلاؤں،حادثوں اورآفتوں کے نازل ہونے کاوقت قراردیتے ہیں۔یہ عقیدہ باطل ہے اوراس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(اشعۃ اللمعات،فارسی ج۳)صدرالشریعہ حضرت علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں۔”ماہِ صفرکولوگ منحوس جانتے ہیں۔اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے۔لڑکیوں کورخصت نہیں کرتے اوربھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیزکرتے ہیں۔حتیٰ کہ سفرکرنے سے بھی پرہیزکرتے ہیں۔خصوصاًماہ صفرکی پہلی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحوست والی سمجھی جاتی ہیں۔اوران کو”تیرہ تیزی“بھی کہتے ہیں۔یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔حالانکہ حدیث مبارکہ جسکامفہوم ہے کہ”صفرکوئی چیزنہیں“یعنی لوگوں کااسے منحوس سمجھناغلط ہے۔اسی طرح ذیعقدہ کے مہینہ کوبھی بہت لوگ بُراجانتے ہیں اوراس کوخالی کامہینہ کہتے ہیں۔یہ بھی غلط ہے اورہرماہ کی ۳،۸،۳۱،۸۱،۳۲،۸۲تاریخ کومنحوس جانتے ہیں یہ بھی بے بنیادبات ہے۔(بہارشریعت ج ۳)

”ولاصَفَرَ“کاایک معنی یہ بھی ہے کہ عرب کبھی ماہِ صفرکوماہِ محرم سے بدل دیتے تھے یعنی ماہ محرم الحرام کی بجائے ماہِ صفرکوحرمت والامہینہ مان لیتے تھے۔اوراس کے بدلے محرم میں لڑائی،لوٹ مار،قتل وغارت گری،خون ریزی کوحلا ل کرلیتے۔اورکبھی ایسانہ کرتے بلکہ محرم ہی کوحرمت والامہینہ قراردیتے۔ابن قیم کہتے ہیں ”آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے بنفس نفیس ”ابواء“ مقام پر غزوہ کے لئے تشریف لے گئے اس جگہ کو “ودّان” بھی کہتے ہیں، یہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا پہلا غزوہ تھا۔ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی ہجرت سے بارہ ماہ بعد”صفر“ کے مہینے میں رونما ہوا۔اس غزوہ میں حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ علمبردار تھے، آپ کا عَلم سفید رنگ کا تھا۔ آپ نے اس دوران مدینہ منورہ میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ آپ صرف مہاجرین کو لیکر قریش کے ایک تجارتی قافلے کی تلاش میں نکلے تھے۔لیکن وہ قافلہ پہلے ہی ممکنہ جگہ سے گزر چکا تھا۔اسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اس وقت کے بنی ضمرہ کے سربراہ مخشی بن عمرو ضمری کیساتھ امن معاہدہ فرمایا۔ جس میں فریقین کی طرف سے یہ طے ہوا کہ کوئی بھی ایک دوسرے پر چڑھائی نہیں کریگا۔ فریقین میں سے کسی کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کے دشمن کی کسی قسم کی مدد کرینگے، آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے یہ معاہدہ باقاعدہ تحریر کروایا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اس غزوہ میں پندرہ دن مدینہ منورہ سے باہر رہے“۔ (زاد المعادصفحہ ۴۶۱،۵۶۱جلد۴(

صفر المظفر کا آخری بدھ منانا!
حضرت علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں ”ماہ صفر کا آخر چہار شنبہ(بدھ) ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے، لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں، سیر و تفریح و شکار کو جاتے ہیں، پْوریاں پکتی ہیں اور نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں بلکہ ان دنوں میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مرض شدت کے ساتھ تھا، وہ باتیں خلافِ واقع ہیں۔اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں۔(بہار شریعت،۳/۶۵۹)

علامہ سید محمد امین بن عمر بن عبد العزیز شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ علامہ حامد آفندی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا”کیابعض دن منحوس یا مبارک ہوتے ہیں جوسفر اور دیگر کام کی صلاحیت نہیں رکھتے“؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ”جو شخص یہ سوال کرے کہ کیا بعض دن منحوس ہوتے ہیں اس کے جواب سے اِعراض کیا جائے اور اس کے فعل کو جہالت کہا جائے اور اس کی مذمت بیان کی جائے۔ ایسا سمجھنا یہود کا طریقہ ہے، مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے جو اللہ تعالی پر توکّْل کرتے ہیں“۔(تنقیح الفتاوی الحامدیہ، ۲/ ۳۶۷)

مراٰۃ المناجیح میں ہے”اسلام میں کوئی دن یا کوئی ساعت منحوس نہیں ہاں بعض دن بابرکت ہیں“۔(مراۃ المناجیح،۵/۴۸۴)تفسیر روح البیان میں ہے ”صفر وغیرہ کسی مہینے یا مخصوص وَقت کو منحوس سمجھنا دْرْست نہیں۔ تمام اوقات اللہ پاک کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں انسانوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں۔جس وَقت میں بندہ مومن اللہ پاک کی اطاعت وبندگی میں مشغول ہو وہ وَقت مبارک ہے اور جس وَقت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرے وہ وَقت اس کے لئے منحوس ہے۔ درحقیقت اصل نْحوست تو گناہوں میں ہے۔(تفسیر روح البیان،۳/۴۲۸)

ماہِ صفر کی پہلی رات کے نوافل
ماہِ صفر کی پہلی رات میں نماز عشاء کے بعد ہر مسلمان کو چاہیے کہ چار رکعات نماز پڑھے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قْل یَا اَیّْھَا الکٰفِرُونَ پندرہ دفعہ پڑھے اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدقُلْ ھُْوَاللّٰہُ اَحَد پندرہ مرتبہ پڑھے۔ اور تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ الفلق پندرہ بار پڑھے اور چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورہ الناس پندرہ مرتبہ پڑھے۔سلام کے بعد چند بار اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن پڑھے۔ پھر ستر مرتبہ درود شریف پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑا ثواب عطا کرے گا اور اسے ہر بلا سے محفوظ رکھے گا۔ وہ درود شریف یہ ہے۔اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰی اٰ لِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّم (فضائل الایام والشہور صفحہ۱۸۲،راحۃ القلوب

ماہِ صفر کے روزے
ہر ماہ اَیّامِ بیض یعنی قمری مہینوں کے ۵۱،۴۱،۳۱(تیرہویں،چودہویں،پندرہویں) کے روزے رکھنا مستحب ہے ان روزوں کی فضیلت کے بارے میں قطب الاقطاب سیدنا غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، لکھتے ہیں۔”حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ۳۱تاریخ کا روزہ تین ہزار برس، ۴۱ تاریخ کا روزہ دس ہزار برس اور۵۱ تاریخ کا روزہ ایک لاکھ تیرہ ہزار برس کے روزوں کے برابر ہے۔ (غنیہ الطالبین صفحہ ۸۹۴)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ایامِ بیض کے روزے سفر و اقامت میں نہیں چھوڑتے تھے۔(نسائی)حضرت ابوذررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا”جس نے ہرماہ تین روزے رکھے اس نے گویاپوری زندگی کے روزے رکھے۔کیونکہ اللہ عزت وجلال والے نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق کی ہے۔(ابن ماجہ،باب الصوم)نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا۔”جو شخص ایامِ بیض کا روزہ رکھے گا وہ سال بھر روزہ رکھنے والا قرار پائے گا“۔(بخاری شریف)اس مہینے میں چاہیے کہ ہر پیر، جمعرات، جمعہ اور۵۱،۴۱،۳۱ تاریخوں میں روزہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صفر کے مہینے میں پیش آنے والے چندتاریخی واقعات
٭صفر المظفر پہلی ہجری میں حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم اورخاتون جنت حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی شادی خانہ آبادی ہوئی۔(الکامل فی التاریخ،۲/۱۲)٭صفر المظفرسات ہجری میں مسلمانوں کو فتحِ خیبر نصیب ہوئی۔(البدایہ والنہایہ،۳/۳۹۲) ٭سیف اللہ حضرت سیدنا خالد بن ولید،حضرت سیدنا عمرو بن عاص اور حضرت سیدنا عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے صفر المظفرآٹھ ہجری میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکراسلام قبول کیا۔ (الکامل فی التاریخ،۲/۱۰۹)٭ مدائن (جس میں کسرٰی کا محل تھا) کی فتح صفر المظفرسولہ ہجری ہی کے مہینے میں ہوئی۔ (الکامل فی التاریخ،۲ /۳۵۷) اللہ رب العزت ہمیں اعمالِ صالحہ کی توفیق عطافرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین طہٰ ویٰسین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply