• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پنجاب کا نیا صوبہ سرائیکی قوم کا استحصال کم کر سکتا ہے۔۔۔شاہد یوسف خان

پنجاب کا نیا صوبہ سرائیکی قوم کا استحصال کم کر سکتا ہے۔۔۔شاہد یوسف خان

سرائیکی خطہ پنجاب کے  جنوبی  حصہ  کو کہتے ہیں جہاں سرائیکی لب و لہجے والی میٹھی زبان بولی جاتی ہے۔

مورخین میں سرائیکی زبان میں اختلاف چلا آ رہا ہے چند  سرائیکی زبان کو پنجابی زبان کا ہی ایک لہجہ بتاتے ہیں جو دریائے سندھ سے ارد گرد آباد قوموں کے وجود سے قائم ہوئی لیکن کچھ مورخین اسے پنجابی زبان ماننے کو تیار نہیں بلکہ ایک الگ وجود رکھنے والی زبان  کہتے ہیں۔ خیر جو بھی ہو اب سرائیکی زبان   ایک الگ حیثیت بنا چُکی ہے اور اسے اقوام عالم کی زبانوں میں الگ شناخت مِل چُکی ہے لیکن زبان کی شناخت کے باوجود بھی سرائیکی قوم آج بھی  انتہائی پسماندگی کا شکار ہے۔

سرائیکی قوم کو درپیش مسائل کی نوعیت اتنی سادہ اور معمولی  نہیں ہے کہ جس بے ڈھب طریقے سے اس  کو تمام سیاسی گدی نشین  ڈیل کرتے رہے ہیں۔

آپ برملا سنتے ہوں گے کہ سرائیکی خطہ جو  سرگودھا، میانوالی سے ہوتا   ہوا ملتان سے  لے کر صادق آباد  اور ڈیرہ غازی خان سے لے کر راجن پور تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کے باسی، سرائیکی زبان کی تنظیمیں، بلکہ مُلک کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس پسماندگی کا برملا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ الگ سرائیکی صوبے کی حمایت بھی کرتی نظر آتی ہیں لیکن کسی نے سنجیدہ نہیں لیا ابھی تک بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سوائے پیپلز پارٹی کے کوئی بڑی جماعت اس صوبے کی حمایت  نہیں کرتی۔ پنجاب کی بڑی پارٹی مسلم لیگ ن تو  واضح طور پر ہی مخالف ہے۔

جنوبی پنجاب کے دورہ کا موقع ملے تو  آپ مُلتان  کے  دیہاتوں سے لے کر راجن پور ، دیرہ کے پہاڑوں سے لے کر رحیم یار  خان کے دیہاتوں  میں جا کر زندگی کا جائزہ آسانی سے لیا جا سکتا ہے۔ جہاں محسوس ہوگا  جو پسماندگی بلوچستان اور سندھ میں دکھائی جاتی ہے اس کا منظر ان علاقوں میں بھی موجود ہے۔ اس معاملے کو پاکستان کے دیگر پسماندہ حصوں اور دیگر مظلوم قوموں کے استحصال سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا کیوں جہاں کچھ چیزوں کو مخصوص علاقوں کے حوالے سے اہمیت دی جاتی ہے تو وہاں بہت سے بنیادی اور کلیدی نوعیت کے معاملات مشترک ہیں۔

سرائیکی زبان بولنے والی آبادی کے بیشتر علاقے آج بھی  قرونِ وسطیٰ کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

سرائیکی صوبے کی پسماندگی کا محض ایک  نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے اسی لیے ہی تو  سرائیکی خطے کے لوگ الگ صوبہ اور اپنی پسماندگی پر پشیمان رہتے ہیں۔ یہاں کے باسی انگریز دور کے بعد بھی آج بھی جاگیرداروں، مخدوموں اور سرداروں کے  غلام بنے ہوئے ہیں۔

ستر سالہ تاریخ میں  جمہوری سے لے کر فوجی مارشل لاء  ادوار میں  چند سیاسی  خاندان ہی اس خطے میں کلیدی عہدوں سے   لے کر  صدر کی کُرسی تک پہنچنے والے سرائیکی خطے کے  سیاسی خاندانوں   نے اس خطے کی حالت بدلنے میں  ہمیشہ ہی انتہائی بددیانتی کی ہے۔ان کے منصب سے سرائیکی وسیب کے عام آدمی کے بنیادی مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے ہی  رہے۔سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ تعلیم اور صحت  کا ہے ان سے اگلا اہم مسئلہ کاشتکاروں کے استحصال کا ہے۔ بدقسمتی یہ کہ  پنجاب بھر کے کاشتکار  پاکستان کا ذریعہ معیشت بنتے ہیں لیکن    ذلالت والی زندگی گزارتے ہیں۔

ویسے تو پاکستان  بھر میں لوگ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں  لیکن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جنوبی پنجاب میں زیر زمین پانی میں خطرناک وائرس سنکھیا موجود ہے جو متعدد  جان لیوا بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔   ضلع ڈیرہ غازی خان  اور راجن پور  میں جا کر دیکھیں آج بھی   انسان اور جانور دونوں بارش کا جمع شدہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ اس گندے پانی پینے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں لوگ، ہیپا ٹائٹس، ٹی بی اور دوسری مختلف بیماریوں سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔   جنوبی پنجاب کے چند اضلاع سے  ہر سال دس ہزار لوگ ہیپا ٹائٹس کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔کبھی سرائیکی بولنے والے صدر ، وزیراعظم یا دیگر اہم وزیروں مشیروں کے تولے کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان امراض کی وجوہات جاننے کے لیے کوئی تگ و دو کریں اور  لوگوں کی زندگیوں کو بچا سکیں۔

تعلیمی پسماندگی اپنی خستہ حالی بیان کرتی رہتی ہے ۔ الف اعلان کی تازہ رپورٹ  یہ بیان کر رہی ہے  کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع آج بھی  تعلیم کے حوالے سے دوسرے اضلاع کے مقابلے پسماندگی کا شکار ہیں۔ چالیس فیصد  لوگ اب بھی  خواندگی سے دور ہیں۔ تعلیم کا مسئلہ معاشی صورتحال سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ایک تو تعلیم اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ اس کو حاصل کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں رہا دوسراجس خاندان پر روزانہ خوراک کا بندوبست پہاڑ جیسے مسئلے کے طورکھڑا ہو وہاں وہ اپنے ننھے منے بچوں کو سکولوں کی بجائے ورکشاپوں،ہوٹلوں اور گھریلوچاکری کرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لاہور اور کراچی میں ہوٹلوں کی بیرہ گیری  سے لے  کر چوکوں چوراہوں پر  پھٹے کپڑوں میں ملبوس کھڑے مزدوروں سے کبھی بات کر کے دیکھیں تو اندازہ ہوگا یہ سرائیکی بولنے والوں کی ہی اکثریت ملے گی۔ سرائیکی قوم کا بنیادی مسئلہ قومی استحصال کے ساتھ ساتھ اس معاشی اور اقتصادی گراوٹ کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کی لپیٹ میں آنے کے لئے کسی خاص ثقافت اور زبان کی پابندی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن  میں ۔ یہاں کے دیہاتی ہسپتال مرضی سے کھلتے اور بند ہوتے ہیں، جہاں پر سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اچانک ایمرجنسی ہو جائے تو  نشتر ہسپتال ملتان  بھجوایا جاتا ہے جہاں کے دو گھنٹے کے سفر پر ہی بیشتر لوگ راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔

لاہور میں 22 یونیورسٹی اور 7 میڈیکل کالج ہیں،ہر دو کلومیٹر  پر سرکاری ہسپتال موجود ہے  جبکہ اس کے مقابلے جنوبی پنجاب میں نشتر ہسپتال سے برا کوئی ہسپتال نہیں جہاں پر علاج کروایا جاسکے۔ ایمرجنسی حالت میں نشتر تک پہنچتے پہنچتے  اللہ کو ہی پیارے ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں  یہ مثال مشہور ہے کہ نشتر ہسپتال جانے والے واپس نہیں آتے۔ سرائیکی وسیب میں رہنے والے سبھی لوگوں کی آبادی اور رقبہ شمالی اور وسطی  پنجاب سے زیادہ ہے۔

زراعت اور گلہ بانی یہاں کے لوگوں کے پاس ہے افسوناک یہ  کہ ایگریکلچر اور وٹرنری کالج فیصل آباد میں ہے ۔

سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ بنا بھی دیا جائے تو یہ خدشہ پھر بھی موجود  رہے گا کہ یہاں کے  مخدوم ، قریشیوں، نوابوں، مزاریوں، لغاریوں، رئیسوں،گورچانی اور دیگر سرداروں ‘تمن داروں ،گدی نشینوں اور جاگیرداروں  سے کسی اچھے کی اُمید نہیں  ہے۔ لیکن تعلیم اور صحت اس خطے کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں جس سے لوگ   ان مذکورہ  خاندانوں سے جان چھڑوا سکتے ہیں۔ جنرل الیکشن میں  سرائیکی خطے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو الیکشن میں ہر صورت حصہ لینا چاہیے ۔ اس کا فائدہ بھلے آپ کو نہ ہو لیکن یقیناً ان سرداروں ، مخدوموں اور وڈیروں کو شکست ضرور مل سکتی ہے۔  تعلیم یافتہ نوجوان ہی  ان  خاندانوں کا مقابلہ کر کے  بھوک‘ننگ ‘افلاس ‘بے روزگاری اور ذلت ورسوائی سے آزاد ہو کر ایک بہتر معیار زندگی حاصل کرکے ہی وہ ثقافتی آسائش حاصل کرسکتے ہیں جس سے ان کو کئی نسلوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس نظام میں99فی صد محنت کش طبقے پر ایک فی صد وڈیروں،گدی نشینوں ،جاگیرداروں،چوہدریوں اور اہل زر کاتسلط جاری رہے گا۔ جو کسی طور اکثریتی محنت کش طبقے کی نمائندگی نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے مسائل سے ان کو دلچسپی ہوسکتی ہے ان سے آزادی ہی سرائیکی وسیب کی محرومیاں دور کر سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باقی یہ بھی  لکھ لیں موجودہ جنوبی پنجاب محاذ بھی سرائیکی صوبہ بنانے کے  حوالے سے قطعی طور پر ہی سنجیدہ نہیں ۔  گروہ بنا و اور اسے تحریک انصاف کا لحاف چڑھا دو ۔۔یہ بس اوپر سے آرڈر آیا ہے۔۔۔۔۔

Facebook Comments

شاہد یوسف خان
علم کی تلاش میں سرگرداں شاہد یوسف خان ایم اے سیاسیات اور صحافت مکمل کر چُکے ہیں ۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر سوالات کرتے رہتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply