لحم ڈڈو اور پورنو گرافی۔۔۔علی اختر

میرے ایک دوست جو بہت دین دار اور ہر بات  پر خدا کو یاد کرنے والے نیک انسان ہیں ،ایک دن میرے ساتھ کار میں محو ِسفر تھے ۔دوران سفر ناگن چورنگی سے ذرا بعد سڑک کنارے کچرے کے ڈھیر پر ایک کتے پر نظر پڑی جو منہ میں مردہ مرغی دابے اپنی دھن میں مگن چلا جا رہا تھا۔ منظر دیکھتے ہی عش عش کر اٹھے ۔ جھوم کے فرمایا کہ  “خدا اپنی مخلوق سے کبھی غافل نہیں ہوتا ۔ ۔ دیکھو تو میاں ! ہم ان آوارہ کتوں کو حقیر و فالتو سمجھ کر زہر دے دیتے ہیں لیکن وہ ۔۔۔ وہ کس طرح اپنی مخلوق تک رزق پہنچاتا ہے۔ ۔ ذرا غور تو کرو مرغی خانوں میں روزانہ سینکڑوں مرغیاں مرتی ہیں اگر آوارہ کتے نہ ہوں، تو ان مردہ مرغیوں کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے گا۔

تھوڑا  آگے پہنچے تو سخی حسن چورنگی پر واقع سرینا موبائل مارکیٹ کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا ۔ ” میاں ! تم نے زنگر برگر تو کھایا ہوگا ؟ ۔ کراچی میں   کسی بھی جگہ زنگر دوسو سے کم کا نہیں ملتا لیکن یہاں ایک برگر والا ہے جس کا زنگر بھی لاجواب ہے، قیمت بھی محض ستر روپے ہوتی ہے ۔ بھئ میں تو ہر دوسرے دن ناصرف خود کھاتا ہوں بلکہ بچوں کے لیے بھی لے کر جاتا ہوں ۔ اب دیکھو نا خدا ستر روپے میں برگر بیچنے پر اس کو بچت دے دیتا ہے ۔ چاہے چکن تین چار سو روپے کلو بھی ہو جائے لیکن مجال ہے جو اسکا ریٹ ستر روپے فی برگر سے اوپر پہنچے، یا برگر میں چکن کی مقدار میں کوئی  ڈنڈی مارتا ہو۔ دیکھو نا میاں ! ہمارے معاشرے  میں ایسے ایماندار اور نیک تاجر بھی تو موجود ہیں ۔۔ماشاللہ، سبحان اللہ۔ ”

گو میں پچھلے پورے راستے ان کا نان اسٹاپ وعظ سنتا آیا تھا مگر اس موقع پر مجھ سے خاموش نہ رہا گیا ۔ پوچھا کہ  “حضرت ! وہ پچھلی چورنگی والا کتا یاد ہے جو منہ میں مردہ مرغی دبائے چلا جا رہا تھا “۔ فرمایا” جی بالکل یاد ہے” ۔ میں نے کہا کہ”آپ ہی کے بقول اس بات میں کوئی  دوسری رائے نہیں کہ  کراچی کے مرغی خانوں میں روزانہ سینکڑوں مرغیاں مر جاتی ہیں” ۔ فرمایا “بے شک صحیح کہا۔” “تو جناب والا پوری زندگی میں کتے کو منہ میں مردہ مرغی دبائے دیکھنے کا مشاہدہ کتنی مرتبہ ہوا ؟” ذہن پر زور دیتے فرمایا “یہی کوئی  چار پانچ مرتبہ ” ۔ تو صاحب ! “ستر روپے میں پاؤ بھر مرغی سے بھرے زنگر برگر کا کلیہ کچھ حل ہوا یا مزید وضاحت کی حاجت ہے ؟ ” ۔۔ میں نے دیکھا کہ  وہ کچھ گڑبڑا سے گئے ہیں، گفتگو بھی بے ربط سی ہو چکی تھی ۔ “مطلب ؟، میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔ یعنی میں بھی تو سوچوں ۔۔۔ استغفار۔۔ لاحول ولا قوتہ” ۔ راوی کہتا ہے کہ  اس دن کے بعد سے حضرت نے ہمیشہ انڈے والا برگر ہی کھانے کو ترجیح دی اور زنگر کو حرام اشیاء کی فہرست میں شمار کیا ۔

کراچی کی زندگی بہت تیز ہے ۔ حضرت بھی کل مدت بعد مجھے محلے میں شام کو چہل قدمی کے دوران نظر آئے ۔ حال احوال کے بعد باتو ں کا سلسلہ شروع ہوا، جو انشاللہ، ماشاللہ، سبحان تیری قدرت سے ہوتا ہوا حرام و حلال تک پہنچا ۔ حضرت نے جوشِ  خطابت میں فرمایا کہ “ابھی کل ہی کی خبر ہے میاں ۔ لاہور میں پانچ من مینڈک بر آمد ہوئے ہیں ۔ اب بتائیے ! سیر آدھا سیر ہوتا تو کچھ غم نہ تھا پر کمبختوں نے کتنے ہی ایمان والوں کو حرام گوشت کھلایا ہوگا ۔ خود تو جہنم میں جائیں گے ہی ،پر ساتھ ہی ساتھ کتنوں کی عبادات ضائع کر جائیں گے، ملعون ” ۔ میں نے کہا کہ “حضرت! پہلی بات تو یہ کہ  صرف مینڈک بر آمد ہوئے، اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ  انہیں عوام کو کھلایا جا رہا تھا، قبل از وقت ہے اور دوسرا یہ کہ  غیر ارادی طور پر دھوکے سے کسی کو مینڈک کھلا دیا جائے تو اس بیچارے کی عبادات کیوں ضائع ہونے لگیں ۔؟ ”

یہ سن کر حضرت کچھ سٹپٹا سے گئے اور فرمایا کہ “میاں تمہیں یہ باتیں سمجھنے میں وقت لگے گا ۔ اصل صاحب ایمان جب بھی کچھ کھائے گا پوری تحقیق کر نے کے بعد ہی نوالہ لے گا ” پھر کچھ رازدارانہ انداز میں گویا ہوئے “میاں حرام جانوروں کو کھانے میں اور بھی کئی  شر ہیں ۔ ” پھر انداز مزید رازدارانہ کرتے پوچھا “میاں تم نے یورپ و امریکہ کی  بے حیائی  نہیں دیکھی کیا؟ “۔۔۔ “جی شوق تو بہت ہے پر کبھی جانا نہیں ہوا “۔ “اماں ! وہ بے حیائی  دیکھنے کے لیے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ۔ فلمیں نہیں دیکھتے کیا میاں؟ ” ۔”کونسی والی فلمیں ؟ ۔ “میرا موڈ اب شرارت کا تھا” حضرت کہیں آپ پورنو گرافی کے متعلق تو بات نہیں کر رہے ؟” میں نے کانوں کو چھوتے دریافت کیا۔ “جی بالکل میں اسی بے حیائی  کی  بابت  دریافت کر رہا ہوں ۔ اب دیکھو میاں ! سور ایک بے حیا جانور ہے ۔ نہایت بد کار ۔ شکل دیکھو تو پھٹکار پڑی ہے پر یہ حرامزادے گورے اسے کھاتے ہیں تو انکی فطرت میں بھی یہی بدکاری و بے حیائی  پیدا ہو گئی  ہے ۔ ” “لیکن حضرت یہ ہمارے اجداد ہندوستان کے باسی تو ماس مچھی کھائے بغیر ہی اس فیلڈ میں اتنے آگے جا چکے تھے کہ اڑھائی  ہزار برس پیشتر ہی ناصرف “کاما سوترا ” اور “پریم شاستر” جیسی کتب تحریر کیں، بلکہ پتھر سے ایسے ایسے مشکل آسن لیے ،مورتیں تراشیں کہ  آج کے جدید دور میں بھی بڑے سے بڑا پورن اسٹار وہ پوزیشن بناتے خوف کھاتا ہے کہ  مہرے نہ کھسک جائیں” ۔

میری اس دلیل پر وہ کافی بھڑکے اور کہا کہ  “یہ ہندوستانی تمہارے اجداد ہونگے میاں ۔ ہم تو خالصتاً غزنوی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ” پھر شفقت سے گویا ہوئے کہ “کچھ عرصہ پیشتر جب میرا لاہور جانا ہوا تھا تو بغرض تحقیق و عبرت انگیزی۔ دل پر جبر کیے ایک اسٹیج ڈرامہ دیکھنے کا بھی اتفاق گزرا ۔ یقین مانو میاں ناٹک کے دوران جب رقص شروع ہوا تو اس رقاصہ حرافہ کے اچھلنے پھدکنے سے ہی میں جان گیا تھا کہ  ضرور غذا میں کچھ گڑبڑ ہے ۔ لو جی آج پتا چلا کہ  اس قدر بیباک پھد کن کے پیچھے یہ ڈڈو خوری کارفرما تھی ” ۔ اس پر میں نے کہا کہ  “جناب والا ابھی پچھلے دنوں حیدرآباد میں بھی ایک ریسٹورنٹ والے پر کتے کا گوشت کھلانے کا الزام لگا تھا پر ہم نے تو وہاں کسی کو کھمبے کے ساتھ ٹانگ اٹھائے رفع حاجت کرتے نہیں دیکھا “۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہر  حال انہیں نہ ماننا تھا سو نہ مانے، پر میں اہل لاہور کو یہی کہوں گا کہ  میرے دوست کی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیں، لاہوری کھابے کھائیں اور پھدکنے کا دل کرے تو بھی شک نہ کریں کہ  مرغی و بکرا بھی تو اچل کود کرتے ہی  ہیں ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply