ماں باپ۔۔۔امجد خلیل عابد

محبت کا لفظ ہم نے سنا پڑھا اور لکھنا جانتے ہرشخص نے لکھا بھی ہوگا، اسے چھوکرمحسوس کرنا ہو تو ماں کو چھو کردیکھ لیں-بدنصیبی ہے اُن لوگوں کی جو اس ہستی اور ہستی میں ہلکورے لیتے اس جذبے کو محسوس نہیں کرسکتے- ہمارے لئے کسی کےساتھ بدتمیزی کرنا آسان ہے تووہی یہ ماں باپ کے نام کی دوہستیاں ہوتی ہیں اور جتنی آسانی سے یہاں سے معافی مل جاتی ہے اور کہیں سے نہیں ملتی- شاید جن کے نصیبوں میں سیاہ بارہ پتھر ہوتے ہیں وہ اسی نرمی کا فائدہ اٹھا کر اپنی سیاہی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں-
وہ جو اپنی سچی عزت ہماری جھوٹی عزت کے لیے ہنس کر قربان کردینے سے بھی گریز نہیں کرتے، ہمارے لیے سارے زمانے سے لڑتے،ہماری ناہنجاری پہ تھانہ کچہری بھگتیں، خود پھٹا پرانا اور بوسیدہ  لباس پہن کر وقت گزاریں اور ہمارے لئے شانِ شایان پوشاک کابندوبست کریں-
ہمیں پیدا کرنے کا دردِ سر مول لیتے ہیں، پھر ہماری انگلی تھامے رکھتے ہیں یہاں تک کہ ہم دھرتی کے سینے پہ اُودھم سنگھ بن جائیں، ہماری چھینک پہ اپنی برسوں پرانی دائمی بیماریاں بھول جاتے ہیں، ہماری بے سروپا باتوں کو گھنٹوں جھیلتے، پھول کی طرح پالتے اور سانڈ جیسا جوان کرتے ہیں، شہتوت کی گیلی باریک چھمک سے کبھی ہماری چمڑی اُدھیڑنے کی گستاخی کر بھی دیں مگر کسی دوسرے کے ہاتھ لگانے پہ زخمی شیر کی طرح جھپٹتے ہیں ، صبح شام نااہلی کے ہمیں جتنے بھی طعنے دیتے ہوں مگر دوسرے کے سامنے ہمیں وہ دنیا کا اہل ترین اور قابل ترین شخص ہی ثابت کرتے اور ہمارے کردار کے دامن میں زمانہ بھر کی خوبیوں کے چاند ستارے ٹانک دیتے ہیں۔
جو ہماری تعلیم پہ اپنی جمع پونجی مزار و مسجد پہ لگائے گئے پیسے سے بھی زیادہ عقیدت سے نچھاور کرتے ہیں، پھر ہمیں ملازمت دلوانے کے لیے تڑپتے ہیں،کوئی کاروبار دھندہ سیٹ کرنے کے لیے نجانے کہاں سے مزید پیسے جوڑ لاتے ہیں، پھر کوئی حور پری تلاش کرتے ہیں، دنیا جہان کے قلابے ملا کر لڑکی کے ابا کی نظر میں ہماری  کی امیج بلڈنگ کرتے ہیں، آپ کی کمائی، تنخواہ ،سوشل سرکل کو ضربیں دے کر تین گنا کر کے اُ نہیں قائل کرتے اور پھر سہرا بارات اور شبِ زفاف کے زردہ کے اخراجات یہ کہتے ہوئے اُٹھاتے ہیں کہ” ماں پے دا فرض بنڑ دا اے”- پھر ہماری رشتہ داریاں تک نبھاتے ہیں،۔۔۔۔۔۔ ، ۔۔۔ہم جو اُن کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیں تو یہ کہہ کر بھلا دیں کہ کوئی نہ غلطی میری ہے مجھے سوچنا چاہیے جوان اولاد کو غصہ نہ دکھاوں، وہ جو ہمارے ڈر سے ہمیں ڈانٹنا بند کردیتے ہیں، وہ جو ہمارے سامنے اپنا لہجہ نرم کر لیتے ہیں، ۔۔اُن ماں باپ کا آئیے احساس کریں، ۔۔۔۔۔اُن کے احسانات و مہربانیوں کا بدلہ ہم کبھی نہیں اُتار سکتے، اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ اُنہیں یہ گالی دینا بند کردیں کہ ” میرے ماں باپ نے آج تک میرے لیے کیا ہی کیا ہے “………
اگر کوئی یہ کہتا پایا جائے کہ ابا اماں سے بھی بڑا کوئی اُس کا ہمدرد ہے تو ایسے شخص کو فی الفور کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جانا آپ کا دینی و ملی فریضہ ہے-

Facebook Comments

امجد خلیل عابد
ایک نالائق آدمی اپنا تعارف کیا لکھ سکتا ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply