کچھ مرگ انبوہ کے بارے میں ۔۔۔مشرف عالم ذوقی

نالۂ شب گیر 2014 میں شائع ہوا تھا۔مرگِ انبوہ 2019 میں ۔اس ناول کی تخلیق میں پانچ برس لگ گئے۔ ہندوستانی فکشن کے نقاد کا مزاج آج بھی مختلف ہے۔ نقاد عام طور پر سیاسی ناولوں کو صحافت سے منسوب کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے زیادہ تر شاہکار کا تعلق سیاست سے ہے۔آپ روسی ادب کو ایک طرف کریں ، اس کے باوجود وکٹر ہیوگو ، اروندھتی رائے،احان پامک، گابریئل گارسیا مارخیز یہاں تک کہ نجیب محفوظ، سلمان رشدی، میلان کندےرا کے ناولوں میں بھی سیاست صاف طورپر نظر آتی ہے۔ کیا عالمی جنگ عظیم کے موضوع پر ناول تحریر نہیں ہوئے؟۔۔اردو میں عالمی جنگ عظیم کی بازگشت بھی سنائی نہیں دیتی ۔ تھکا ہارا نقاد، بوجھل فلسفوں کے درمیان سانس لیتا ہے اور ان ناولوں کو پسند کرتا ہے جو ہجرت، ناسٹلجیا ، داغ ومیر کی زندگی پر مبنی ہوتے ہیں حالات اور مستقبل کے اشارے ناول کا حصہ بنتے بھی ہیں تو ان کا کینوس محدود ہوتا ہے۔ کیا 2000 کے بعد کی جو زندگی یا سیاست ہمارے سامنے ہے، وہ لکھنے کا موضوع نہیں ۔؟سن2000 کے بعد حالات بدلتے چلے گئے۔ گودھرا ہوا، سنامی آئی، اور ایک خاص مشن اور مشن کے لوگوں نے ہمارے دل ودماغ پر قبضہ کرلیا ۔2014 کے بعد زندگی سنگین حالات کا شکار ہوگئی۔ تشدد میں اضافہ ہوا۔ مسلمان ہونا جرم بن گیا۔

مرگ انبوہ کے لیے میں نے ایک ایسی داستان کو حوالہ بنایا جس کے مرکز میں دو کردار گھومتے ہیں ۔ ایک باپ اور ایک بیٹا  ۔ جنریشن گیپ ۔ چھوٹی چھوٹی نفرتوں پر بڑی نفرتیں حاوی ہوتی چلی گئیں  ۔ولن ، ہیرو بن گیا۔ معصوم ، گنہگار بن گئے۔گنہگار پاور میں آگئے۔کیا اس سیاسی شعبدہ بازی کو لکھنے کا حق صرف احان پامک یا اروندھتی رائے کو ہے؟

آج کشمیر پر کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ ہم سب کچھ بھول کر نیند میں چلنے والی قوم بن چکے ہیں ۔ ملک کاغذ پر بنا کمرہ نہیں ہوتا۔ اگر گھر کے ایک کمرے میں آگ لگی ہوئی ہے تو کوئی دوسرے کمرے میں چین کی نیند کیسے سوسکتا ہے؟۔ عظیم موسیقار اوریفس کے روحانی نغمے خاموش ہوگئے۔ ہم اس بھیڑ کا حصہ بن گئے، جہاں ہلاکت اور تشدد کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اس لیے جینے کے لیے لکھنا تو پڑے گا، بولنا تو پڑے گا۔ منہ کھولنا تو پڑے گا۔ اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ ہم ابھی مُردوں میں شامل نہیں ہوئے۔

شدّت سے مجھے اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ ہماری پسماندگی کی وجہ کیا ہے ؟ صرف تنقید سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔اور اسی لئے عملی میدان میں آنے سے زیادہ تر لوگ پناہ مانگتے ہیں ،مسلمانوں کے تعلّق سے میری کئی کتابیں ہیں۔اپنی قوم کے بارے میں سوچنا بھی گناہ یا جرم ہو گیا ؟

ہندوستانی سر زمین پر مستقبل کے جو مناظر میں دیکھ رہا ہوں ،وہ شاید ملی تنظیمیں ابھی بھی دیکھ نہیں رہی ہیں،یا وہ اس خوش فہمی کا  شکار ہیں کہ حالات اس سے زیادہ خراب نہیں ہو سکتے۔اب تک نشانے پر مسلمان تھے اب مذہب بھی نشانے پر آ گیا ہے۔ابھی بھی حالات بہتر نہیں اور مستقبل کے نام پر آئندہ جس تماشے کی شروعات ہو سکتی ہے ،اس کو نظر انداز کرنا اپنی بربادی کو دعوت دینے جیسا ہے۔

ہم اس بات پر بھی غور کریں کہ کہیں انجانے میں ہم مخصوص نظریے یا  مشن کی حمایت تو نہیں کر رہے ؟

فسطائی طاقتیں انسانی نفسیات کا مطالعہ رکھتی ہیں۔ ہٹلر کے پاس بھی فدائین تھے۔جو اسکے اشاروں پر ایک لمحے میں جان دے دیا کرتے تھے ۔ ملک کے موجودہ حالات مسلمانوں کے لئے بد تر ہوئے جا رہے ہیں۔ حکومت یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے کیا کیا تدبیریں کی جا سکتی ہیں ۔ حکومت کے پاس مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے ایک لمبی فہرست ہے۔پھر ایک کے بعد دوسرا نشانہ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ بہت ہوشیاری سے اکثریت اور اقلیت کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا گیا۔حکومت کی فسطائی منطق کے سامنے آپ بے بس اور مجبور ہیں۔ممکن ہےکہا جائے لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہ دیں ،محلے میں ایک مسجد کی جگہ تین مسجدیں کیوں ؟ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی آپکو زیر کیا جائے گا۔اور اگر آپ ایک جگہ شکست کھا گئے ،تو آپ کو ہر جگہ شکست ملے گی ۔

حکومت بننے کے ساتھ ہی پہلا حملہ ملک کے سیکولر اور لبرل کردار پر کیا تھا ،در اصل فسطائی طاقتوں کو ان دو لفظوں سے ڈر محسوس ہوتا ہے۔ فسطائی طاقتیں پوری شدّت اور منصوبوں کے ساتھ مذہب ،مشترکہ وراثت اور تہذیب پر حملہ کر رہی ہیں۔
آزادی کے بعد کے فرقہ وارانہ فسادات — جدیدیت کا خیمہ خاموش رہا — 1984ہوا۔ پھر1992 — کوئی ہلچل اس خیمے میں نظر نہیں آئی — کچھ ہلکی پھلکی علامتی کہانیاں لکھ دی گئیں۔1992 کے بعد کا منظر نامہ دیکھ لیجیے — خاموشی کی روایت قائم ہے۔ سیاسی عدم بیداری کی فضا قلم کے محافظ پیدا نہیں کرتی — جدیدیت کے علمبردار وں کو کوئی غرض نہیں کہ ملک کہاں جا رہا ہے، بیمار مریضوں ،سوکھی انتڑیوں کے باسی مردہ قصّوں میں اگر زندگی کی حرارت نہیں تو یہ قصّے فقط الفاظ کی بھول بھلیاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں،ترقی پسند زندہ مکالمے کرتے تھ،بیانات دیتے تھے ۔حق کے لئے جنگ کرتے تھے ۔ 1992کے بعد کا عام رویہ ہے کہ جدیدیت کو عام اذہان اور مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں۔نیند میں سوئے ادیبوں پر آپ فخر کر سکتے ہیں تو کیجیے۔۔لیکن وہ ادیب ہی کیا جسے بدلتے سیاسی منظر نامے کی چیخ سنائی نہ دے ۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی اٹھارہ سے بیس کروڑ کے درمیان ہے۔خانہ جنگی ہوئی تو نقصان ملک کا ہوگا — شام مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور اسرائیل ، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا شام 1946میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہوا تھا،اس کی آبادی دو کروڑ تھی،اب یہ آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ 2011 میں شامی حکومت کے خلاف شروع ہونے والے پُرامن مظاہرے کے بعد حالات پُرتشدد ہوگئے ،سات برسوں میں عالمی سیاست نے شام کی سر زمین کو بارود کے دھویں اور خون سے آلودہ کر دیا ۔ہندوستان کی زمین شام نہیں بن سکتی ۔
نفرت کا حل نفرت نہیں ۔میں یہ دیکھ کر گہرے سنّاٹے میں ہوں کہ کچھ ادیب بھی نفرت کو ہوا دینے میں پیش پیش ہیں۔ ایسے حالات میں جب ادیبوں کو اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہے ،وہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ہم اس سیاست سے واقف ہیں کہ جنگوں کو بہانا کیوں بنایا جاتا ہے ؟دوستی اور محبت بھری باتوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔یہ کام ہم مل کر بخوبی انجام دے سکتے ہیں- ملک ایک نئی صورتحال سے گزررہا ہے۔مجسمے توڑے جارہے ہیں۔ فسطائیت کا غلبہ ہے ۔ مسلم مخالف رنگ شدید ہوچکا ہے ۔ ان کے منصوبے خطرناک ہیں۔ ملک ہندوستان کو شام بنانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اب یہ ملک زعفران ہے مگر ان کی نظر میں۔ہم اس ملک کو زعفرانی ،نہیں ہونے دیں گے۔ہندؤں کا ایک بڑا طبقہ جمہوری قدروں پر یقین رکھتا ہے لیکن اس وقت وہ بھی خوفزدہ ہے۔

وائرس کی ہماری مہذب دنیا میں ہزاروں قسمیں ہیں .کچھ وائرس جانوروں سے ہمارے درمیان آتے ہیں۔ جانوراگر انسان کو کاٹ لے تویہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔..ان دنوں تیزی سے یہ وائرس ہمارے ملک کی مسلم آبادی میں پھیل رہا ہے ….تاریخ نے اکثر یہ سوال پوچھا ہے کہ ہٹلر جیسے حکمرانوں کو کیا خوف محسوس نہیں ہوتا ؟ ہٹلر جیسے لوگ ہماری ہنستی مسکراتی دنیا کو اندھیر نگری میں تبدیل کر دیتے ہیں ..ایسا ہر اس ملک میں ہوا جہاں بھی ہٹلر کی حکومت رہی ..لیکن علم نفسیات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہٹلر جیسے لوگ بچوں سے بھی کہیں زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں …اور سب سے اہم بات،تمام تانا شاہ سوالوں سے ڈرتے ہیں .کیونکہ ظلم و جبر کی ہر انتہا تک پہچنے کے باوجود انکے پاس جواب نہیں ہوتا ..

آج ہم دنیا کے سب سے خوفناک تماشے کی زد میں ہیں ..اس تماشا سے الگ وائرس ہر جگہ .ہر گلی ،ہر سڑک .یہاں تک کہ آپ کے گھر میں بھی موجود ہے ….اس وائرس کو ختم کرنے کے لئے اینٹی وائرس آپکو بننا ہوگا ..ورنہ تاریخ آپکو بھی کبھی معاف نہیں کرے گی—جنگیں زخمی کرتی ہیں۔جنگوں کا خیال زخمی کرتا ہے .اور اس ماحول میں ،اس خوفناک فضا میں محبّت کی آہٹ بھی دور تک سنائی نہیں دیتی . ..جہاں موت ہر گام آپ کے پیچھے ہو ،جہاں آپکو دنیا کی نظر میں دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہو ،وہاں کتنی عجیب بات کہ اسی دہشت گرد پر مصیبت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں — اس دہشت گرد کو جلا وطنی کی سزا مل رہی ہے . …ہم ہی نشانہ ہیں ..ٹارگٹ صرف ہم ..ہم ابھی بھی ظلم و جبر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بنے خود کو محفوظ تصور کر رہے ہیں —

ایک بڑی طاقت میڈیا ہے جو آپکے جذبات ،آپکے مذہب ،آپکی شریعت کے پرخچے اڑانے کے لئے تیار اس لئے بیٹھا ہے کہ اسے مسلمانوں کو رسوا کرنے کی منہ مانگی قیمت مل چکی ہے ۔ہم اپنے اپنے حجرے میں سمٹے ہوئے کہیں بھی آسانی سے فروخت ہو جاتے ہیں ..کہیں آواز بلند کرتے بھی ہیں تو یہ آواز صحرا میں گم ہو جاتی ہے ..صدمہ اس بات کا بھی ہے کہ ہم حکومت کی نظروں میں آسان ٹارگٹ ہیں .یہ حکومت دو فی صد سکھوں اور ایک فی صد سے بھی کم جاٹوں سے گھبرا جاتی ہے .ہم ابھی تک سکھوں اور دلتوں کو اپنے قریب نہیں کر پائے۔ان حالات میں مسلمانوں کے مستقبل کے آگے جو خطرہ منڈلا رہا ہے ، اس سے باہر نکلنے کا ہر راستہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے ..ہم یہ صاف دیکھ رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں فسادات بھی ہم پر مسلط کئے جائیں گے۔بڑھتی بے روزگاری اور بھوکے مرنے کے باوجود اکثریتی جماعت کو ہندو راشٹر کا کھلونا تھما دیا گیا ہے ۔ مودی حکومت پہلے ہی مسلمانوں کے لئے بے نامی جائیداد کا قانون بنا کر بہت حد تک انکے راستے کو بند کر چکے ہیں۔ اراضی کا مسئلہ اٹھا کر مستقبل میں دوسرے مقاصد بھی سادھے جا سکتے ہیں اور ایسی تمام پہل سے نقصان مسلمانوں کا ہی ہوگا ۔

میری سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ ملک اور اقلیتوں کا کیا ہوگا؟۔۔۔ نوٹ بندی ہو یا جی ایس ٹی سے جس کی کمر سب سے زیادہ ٹوٹے گی ، وہ مسلمان ہوں گے۔ معاشی اعتبار سے جو سب سے زیادہ ذبح کیاجائے گا، وہ بھی مسلمان ہوں گے ۔ اس ملک میں مشن کی سوچ کی پہلی منزل مسلمان ہیں۔ اور اسی لئے مشن بار بار یہ بیان دیتی آئی ہے کہ اس ملک کے تمام مسلمان کنور ٹیڈ ہیں۔ اور یہ بیان بھی برسوں سے دیتی آئی ہے کہ اس کی دشمنی مسلمانوں سے نہیں ، اسلامی فکر رکھنے والوں سے ہے ۔ کیونکہ ایک دن مسلمانوں کی گھر واپسی ہوکر رہے گی ۔

2014کے بعد کے سیاسی منظر نامہ پر غور کریں تو مسلمانوں کے لئے ہر دوسرا دن ، پہلے دن سے زیادہ بھیانک ثابت ہوا ہے ۔ ان5برسوں میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے والے ، فرضی انکاؤنٹر کرنے والے ، مسجدیں شہید کرنے والے ، کریمنل ریکارڈ والے تمام مجرم جیل سے بری کردیے گئے ۔ اور معصوم مسلمانوں پر جیل کی سلاخیں سخت ہوگئیں۔ آسمان میں ناچتے گدھ شکاری بن گئے کہ کیسے مسلمانوں کا شکار کیاجائے ۔ نئے نئے طریقے ایجاد کیے جانے لگے۔
مسلمان سبز اسلامی پرچم لہرائے تو وہ پاکستان کا ترنگا ہوجاتا ہے ۔
ہر دوسرے دن ایک بیان مشن کے کسی نہ کسی لیڈر کی طرف سے آجاتا ہے ، جس میں صاف صاف اور کھل کر یہ بات کہی گئی ہوتی ہے کہ مسلمان ملک دشمن ہیں۔
بار بار مسلمانوں سے یہ صفائی مانگی جاتی ہے کہ وہ حب الوطن ہونے کا ثبوت پیش کریں۔ اور ثبوت کے طورپر دادری میں رہنے والے محمد اخلاق کی فریج کا مٹن ، بیف بن جاتا ہے ۔ المیہ …. المیہ کہ اپنی حد میں رہنے والے ، قانون کا پاس رکھنے والے محمد اخلاق کی فریج میں رکھے مٹن کو عدلیہ بھی بیف ثابت کرنے پر تل جاتی ہے ۔
اخلاق   اور تبریز بے دردی اور بے رحمی سے ذبح کردیے جاتے ہیں۔

پہلو خان بھی ذبح کردئیے جاتے ہیں۔ ہاتھ میں ترشول لئے خوفناک چہروں والے گئو رکشک دھوکے  سے مسلمانوں کوہندوستان کے ہر صوبے میں قتل کرنے کے بہانے تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ حکومت چپ ، انصاف چپ، عدلیہ چپ، غلطی سے کسی ایک مسلمان سے کوئی ایک معمولی سا جرم بھی سرزد ہوجائے تو میڈیا اسے غدار اور دشمن بناکر چلانے لگتاہے ۔ہندوسبھاؤں نے دیواروں پراس طرح کے بینر لگائے کہ 2200 مسلمانوں کی لڑکیوں کو اپنی بہو بنانا ہے مگر کوئی آواز نہیں اٹھی ، سب چُپ ۔۔ ترشول دھاریوں کو ، غیر مسلم قاتلوں کو پوری چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ہم ایک ایسے پر آشوب وقت میں داخل ہوچکے ہیں کہ آسمان پر اڑتے ہوئے اور زمین پر گھومتے ہوئے شکاری ہر طرف ، ہر جگہ دلت اورمسلمانوں کے فراق میں ہیں۔ نشانے پردلت اور مسلمان ہیں۔

گاندھی مرنے کے بعد بھی زندہ تھے۔ گوڈسے اسی دن مر گیا جس دن اس نے گاندھی کو مار ڈالا ۔ایک خوبصورت اور مہذب دنیا یہ سوچ کر خوش ہوتی رہی کہ گاندھی کسی انسان نہیں آئیڈیا لوجی کا نام ہے .انسان مرتا ہے ،آئیڈیا لوجی زندہ رہتی ہے ۔لیکن کیا یہ محض خوش فہمی ہے ؟ کیا گاندھی کو مارنا ، بہتّربرس بعد جلا وطن کرنا آسان ہے ؟ وہ خوش ہیں کہ میڈیا ،اخبارات ، سرکش اور اشتعال انگیز بیانات کا سہارا لے کر انہوں نے گوڈسے کا مندر تک بنا دیا ۔ کیا یہ انکی بھول ہے کہ گاندھی ہر روشن دل میں کل بھی زندہ تھا ،آج بھی زندہ ہے ..؟جنگ اور تشدد سے پیدا شدہ تباہیوں سے گاندھی نے یہ سیکھا کہ آزادی کے لئے عدم تشدد کا فلسفہ لے کر آ گئے اور حکومت برطانیہ کے ساتھ عالمی سیاست کو بھی حیران ہونا پڑا کہ وہ قیادت کی اس نیی رسم سے واقف نہیں تھی۔عدم تشدد کا فلسفہ ایسا ہتھیار ثابت ہوا کہ فرنگی گاندھی اور انکے نظریات سے خوف محسوس کرنے لگے …کیا کوئی  سوچ سکتا تھا کہ ساؤتھ افریقہ کا سوٹڈ بوٹڈ بیرسٹر گاندھی جب اپنے ملک ہندوستان آئے گا ..تو سب سے پہلے وہ ہندوستانی شناخت کو سمجھنے کے لئے ہندو ستان کے دور دراز گاؤں کا دورہ کرے گا ..کیونکہ آج بھی اصل ہندوستان کی روح کا رشتہ گاؤں سے ہے …ہندوستان کی ثقافت اور جڑوں کے تفصیلی مطالعہ کے بعد موہن داس کرم چند گاندھی نے اس روٹس کو محسوس کر لیا جس کی جڑیں ہر ہندوستانی کے دل تک پھیلی ہوئی تھیں …

یہ حقیقت ہے کہ گاندھی نہ آتے تو حکومت برطانیہ کا تسلط کبھی ختم نہ ہوتا …اب ایک نئے گاندھی کا جنم ہوا ۔جس نے سو دیشی کا نعرہ دیا … خود چرخہ لے کر بیٹھا ..سوٹ بوٹ اتار پھیکا ..اپنے لباس، سوٹ کے دھاگوں سے تیار کرنے لگا …یہاں تک کہ کستوربا کو بھی اپنے مشن میں شامل کر لیا ….یہ گاندھی کا مشن تھا کہ ہندوستانی انگریزوں کی بنائی چیزوں سے فاصلہ رکھیں گے …نمک بھی تیار کریں گے ۔اپنے لباس کے لئے اپنے ہاتھوں کے محتاج ہونگے …حکمت برطانیہ کے ظلم کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے ..عدم تشدد کا سہارا لے کر انھیں شکست دینگے …یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا جب چرچل کے نیم عریاں فقیر کے جذبے ،ضد اور فلسفوں نے حکومت برطانیہ کو جھکنے پر مجبور کر دیا ….آزادی کے ساتھ ملک کو بھیانک فرقہ وارانہ فسادات کا تحفہ ملا ..جب ملک آزادی کا جشن منا رہا تھا ،گاندھی نوا کھلی میں متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے بھوک ہرتال پر بیٹھے تھے …گاندھی جسے اقتدار کا کوئی نشہ نہیں تھا ..ہے رام کہتے ہوئے جس نے آرام سے گوڈسے کے پستول سے نکلنے والی گولیوں کو قبول کر لیا ….اقتدار کے بھوکے سماج میں کیا آج کے دور میں کسی گاندھی کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟

یہ اس ملک کی موت ہے جہاں گاندھی کی نا قدری کے بعد بھی عوام خاموش ہے …جہاں پہلے گوڈسے کی نمائندگی کرنے والے گاندھی کی آنکھوں سے عینک اتارتے ہیں پھر گوڈسے کو عینک پہنانے کی کوشش کرتے ہیں . .یہ یاد رکھیے کہ ان چار برسوں میں گوڈسے کے مندر بھی بنتے رہے ہیں ..مندروں میں باضابطہ پوجا بھی ہوتی رہی ہے ..بھکتوں کا آنا جانا بھی رہا ہے .پہلے گوڈسے کے نام پر خاموش ہو جانے والے اب سینہ تان کر گوڈسے کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔کیونکہ انکے پاس اقتدار کی طاقت ہے ۔ایسی طاقت جہاں دلیلیں کام نہیں آتیں . ..

انسان کی موت کو گاندھی مذہب اور تقسیم کی آنکھوں سے نہیں دیکھتا تھا ….وہ چرخہ چلاتا تھا ..وہ کھادی سے اپنے کپڑے بنتا تھا ..وہ ایک نئے ہندوستان کا خواب دیکھتا تھا . اسے اپنے لئے کچھ بھی نہیں چاہیے تھا . …وہ محبت کی ایک روشن مثال بن چکا تھا . ..ایک مضبوطی ،یہ نام ہمیں شکست کے ماحول میں حوصلہ دیتا تھا ..یہ نام قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہمہ آہنگی کے لئے ایک مثال تھا …آج اس نام کو گوڈسے کی ذہنیت والوں نے روند دیا ہے …انگریز بھی گاندھی کی عظمت کے قائل تھے …آج گاندھی کی عظمت سے انکار کرتے ہوئے کچھ شر پسند لیڈران یہاں تک کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم گاندھی کو ملک سے نکال باہر کرینگے ۔ملک خاموش ہے .. ..کیا ملک نے گاندھی کی موت کے جشن کے لئے خود کو تیار کر لیا ہے ؟کیا گاندھی کے بغیر آزادی اور ملک کا کویی تصور باقی رہ سکتا ہے …؟کہیں ایسا تو نہیں کہ گوڈسے کے حمایتی ہماری قوت برداشت کا امتحان لے رہے ہوں …ہماری خاموشی ہماری ناکامی ہی گوڈسے کی جیت ہے ۔

ملک کا نوے فیصد میڈیا ہندو راشٹر کی بحالی کے لئے مسلمانوں کے خلاف ہے—آسٹریلیا میں جب ایک اخبار نے کچھ برس قبل مسلمانوں کے خلاف لکھا تو وہاں کے تمام اخبار مسلمانوں کی حمایت میں آ گئے ۔انگلینڈاورامریکہ میں یہی منظر نامہ ہے ۔لیکن ہندوستانی منظر نامہ یہ ہے کہ آج ہونے والے تمام فسادات اور اشتعال انگیزیوں کے پیچھے اکیلا میڈیا ہے جو ہندو سیناؤں کو مسلسل ، مسلمانوں کو برباد کرنے کی ٹریننگ دے رہا ہے ۔سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے ۔کیوں ہو رہا ہے ؟ کس کے اشارے پر ہو رہا ہے ؟ یہ ملک کہاں جا رہا ہے ؟

اس وقت ملک کے صفحہ پر مسلمانوں کے خون سے جو کہانی لکھی جا رہی ہے .اسے روکنا ہوگا .۔اشتعال انگیز بیانات اور روز روز ہونے والی ہلاکت کے قصّوں کو ختم کرنا ہوگا .لیکن کیا یہ آسان ہے ؟ –آپ ڈرینگے تو حکومت ڈرائیگی-آپ جس دن ڈرنا چھوڑ دینگے ،اس دن سے حکومت ڈرنے لگے گی —نفسیات کا یہ معمولی نکتہ ہے کہ ہر ہٹلر اندر سے کمزور ہوتا ہے .وہ مجمع میں دھاڑتا ہے ۔سچ بولنے والے ایک معمولی سے آدمی سے بھی وہ ڈر جاتا ہے۔
میڈیا ،ٹی وی چینلز ور حکومت نے مسلمانوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کی مخلوق گرداننا شروع کر دیا ہے .ایک ایسی مخلوق جسے بس اس سر زمین سے باہر نکالنا باقی رہ گیا ہے .آنکھیں بدل گئی ہیں .کچھ دن اسی طرح گزرے تو مسلمان اس ملک میں نمائش کی چیز بن کر رہ جائیں گے ..دیکھو ..وہ جا رہا ہے مسلمان ..یہ ہونے جا رہا ہے .سوالات کے رخ خطرناک طور پر مسلمانوں کے لئے مایوسی کی فضا تیار کر رہے ہیں …ہندوستان کی مقدّس سر زمین نفرت کی متحمل نہیں ہو سکتی ..اور .مشن اپنے نظریہ میں تبدیلی لائے ،یہ ممکن نہیں …

اس ناول کے لکھنے کے دوران ایک حادثہ اور پیش آیا۔( وقت کے ساتھ اب یہ کہانی بھی تبدیل ہوچکی ہے)چار جج آزادی کے ستر برس بعد ایک ایسی دردناک کہانی کے گواہ بن گئے ، کہ اس کہانی کو قلمبند کرتے ہوئے ذہن و دماغ میں دور تک سناٹا طاری ہے۔کوئی بم نہیں پھٹا — یہ کوئی فلمی کہانی بھی نہیں تھی .عدالت میں فیصلے سنائے جا رہے تھے ۔عدالت کو درمیان میں روک کر تین جج اپنے مقام سے اٹھے۔اس درمیان صرف اتنا ہوا کہ ایک فون آیا۔ضمیر کی آواز کو لبیک کہا گیا ۔ اوریہ چار جج ، پانچ برسوں کی خوفناک دہشت کے گواہ بن گئے۔ہندوستان کی سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججوں نے پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اتھارٹی کو چیلنج کیا.جب جب انصاف کی تاریخ لکھی جائے گی ، جسٹس جے چلاسپیشمر، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف کا نام روشن حروف میں لکھا جائے گا۔ اس موقع پر ان ججوں نے جو بیان جاری کیا ،وہ تاریخ کی کتاب اور انصاف کے باب میں ایک ایسا اضافہ ہے ،جسے مہذب دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔لاسپیشمر نے کہا ’ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سپرم کورٹ کا وقار مجروح ہوا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور نہ ہی کسی اور ملک میں۔ اس بیان کا سب سے مضبوط حصّہ وہ ہے ،جس میں کہا گیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ 20 سال بعد اس ملک کی تارخ لکھی جائے تو یہ کہا جائے ، چلاسپیشمر، مدن لوکر اور کرین جوزف نے اپنا ضمیر بیچ دیا تھا ۔

سوال بہت سے ہیں .ہندوستان کے چوراہوں اوردیواروں پر صرف یہ عبارت لکھی جانی باقی ہے کہ ہندو راشٹر میں آپ کا سواگت ہے۔مسلمانوں اور دلتوں کا قتل ، ہر روز نئے مظالم ، صرف میڈیا کی آنکھ بند ہے .اس لئے کہ مکمل میڈیا خریدا جا چکا ہے .حکومت ہر شعبہ کو خرید چکی ہے .انصاف کی عمارت پر بھی زعفرانی پرچم چند دہشت گرد لہرا چکے ہیں ..ادب ادیب صحافیوں کی بولی لگ رہی ہے۔زعفرانی ادیبوں کی نئی جماعت سامنے آ چکی ہے ..
۲۰۰۲ تک ہندستانی سماج اس مقام تک نہیں پہنچا تھا، جہاں وہ اب پہنچتا نظر آرہا ہے۔ اس کا جائزہ یوں لیا جاسکتا ہے کہ اڈوانی کی رتھ یاتراؤں کے بعد ہندستان میں نفرت کے تخم تو بوئے گئے لیکن پھر بھی خطرہ بہت زیادہ نہیں تھا۔ بابری مسجد شہید ہوگئی تو ایک طبقہ خوش ہوگیا کہ چلو، ہماری جیت ہوگئی اور وہ بس اتنے میں خوش ہوکر بیٹھ گیا۔2000تک صورتحال نارمل رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان سے عراق اور افغانستان تک یہ مسلمان ہی تھا، جسے دہشت گرد کے طورپر نئی شناخت مل چکی تھی۔اور حکومتیں بھی مسلمانوں کی شناخت اسی دہشت پسند چہرے سے کررہی تھیں۔مشن اس حقیقت کو تسلیم کررہی ہے کہ وہ جس قدر مسلمانوں کے خلاف جائیں گے،ہندو راشٹر کا راستہ آسان ہوتا جائے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان سوالوں سے پردہ پوشی ممکن نہیں۔ سیاست سے فرار نہیں، سیاست سے وابستہ ہونا ہوگا۔ سیاست کے تمام اتار چڑھاؤ  کو سمجھنا ہوگا۔ اس جڑ کو بھی جہاں سے نفرتیں پیدا ہورہی ہیں۔ مستقبل کو بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ سلگتی ہوئی آگ کہاں تک جائے گی۔ اس کے بعد اس موضوع سے کچھ الگ ،مگر فسطائی طاقتوں کو لے کر مےں نے اےک دوسرے ناول ’ہائی وے پر کھڑا آدمی‘ کی شروعات کی ہے۔
مرگ انبوہ ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے پہلے ہفتہ میں شائع ہو جائےگا .

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply