• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اٹارنی جنرل کچھ نہ کہتے کہتے بھی بہت کچھ کہہ گئے ۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

اٹارنی جنرل کچھ نہ کہتے کہتے بھی بہت کچھ کہہ گئے ۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

جبری گمشدگیوں کے مقدمات میں عدالتی کارروائی بڑی جاندار اور حوصلہ افزا ءتھی ۔ جناب چیف جسٹس صاحب اور اٹارنی جنرل کے سوالات و جوابات میں ہماری تاریخ ، حقائق اور انسانی ہمدردی کے احساسات کی موجودگی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک سوچ تو موجود ہے ۔ کم از کم اچھے کو اچھا اور بُرے کو بُرا کہنے والے لوگ موجود تو ہیں ۔ مگر شاید حالات کے ہاتھوں مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں جن کے مبینہ بیانات بھی سامنے آرہے ہیں ۔

ویسے قانون کی زبان میں ایسی مجبوریوں کو ناانصافی کہا جاتا ہے ۔ عدالتیں حقائق ، شہادتوں اور قوانین کو دیکھتی ہیں اور ان کے سامنے مجبوریوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔

چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ” کیوں نہ لاپتا افراد کے معاملے پر سارے چیف ایگزیکٹوز پر آرٹیکل 6 لگادیں، آرٹیکل6 لگا کر تمام متعلقہ چیف ایگزیکٹوز کا ٹرائل شروع کرا دیتے ہیں”

اور اس پر اٹارنی جنرل کے جواب”جس کو آرٹیکل 6 پر سزا ہوئی ہم تو اس پر عمل درآمد نہیں کروا سکے “نے چیف صاحب کو لاجواب کردیا اور مزید اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا ۔

” کچھ بیماریوں کا علاج فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے، 10 لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلیں تو لاپتا ہونے کا سلسلہ رک جائے گا، ایران میں یہ سلسلہ ایسے ہی رُکا ہے ۔”
اٹارنی جنرل صاحب نے عدالت کے روسٹرم پر کھڑے ہوکر جو معلومات اور تجاویز دیں ان پر دل تو چاہتا ہے کہ میں کہوں ” اٹارنی جنرل قدم بڑھائیں ہم تمھارے ساتھ ہیں ” مگر قانون کا طالب علم ہوتے ہوئے عدالت کا تقدس اس کی اجازت نہیں دیتا وگرنہ ہم ضرور کوشش کرتے کہ وہ دس لاکھ کے ہجوم کا یہاں سے ہی آغاز ہوتا ۔

خیر آپ کی تجویز تو شاندار ہے ۔ اس کا تعلق سیاست ، انسانی حقوق کی عملداری اور انقلاب سے تو ہو سکتا ہے مگر عدالت کی کارروائی سے بُنت سمجھ نہیں آیا ، ہاں مفاد عامہ کے تحت ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اتنے بڑے ہجوم کے سڑک پر آجانے سے عدالت کے لئے از خود نوٹس کا جواز مہیا ہونا بن سکتا تھا ، مگر یہ معاملہ تو پہلے ہی عدالت میں موجود ہے اور چھ ماہ سے بھی زیادہ وقت گزر چکا ہے ، انسانی حقوق کی وزیر کو بھی طلب کیا جا چکا ہے ۔ ہر آئے روز لوگ سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ۔

ویسے مثبت پہلو سے دیکھا جائے تو سڑکوں پر آنا ایک آزادی آظہار رائے کا حق بنتا ہے جس کے عوام حقدار ہیں مگر ہمارے ہاں ڈاکٹر  آف ڈیٹرمنٹ اتنی طاقت ور ہے کہ طاقت کی آشیر باد کے بغیر سڑکوں پر آنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔اور اس وقت عوام اور میڈیا بری طرح سے احساس محرومی میں مبتلاء ہیں اور اسی جرم کی پاداش میں مدثر ناڑو بھی کسی انجان جہاں کی نظر ہوگیا ہے ۔

کالم نگار:ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

مگر پُر امن احتجاجات اور مطالبات کا اثر وہاں ہوتا ہے جہاں احساسات زندہ ہوں اور انسانیت کی قدر ہو ۔ اور جہاں معصوم بچوں اور بوڑھی عورتوں کو عدالتوں میں  دھکے کھاتے ہوئے دیکھ کر بھی دل نہیں پسیجتے وہاں احتجاج اور مطالبے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔

مجھے تعجب تو اس بات پر ہوا کہ وہ ایک ذمہ دارانہ حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی باتوں سے یہ تاثر مل رہا ہے جیسے حکومت اور نظام عدل اس معاملے میں بے بس ہوچکے ہیں اور عوامی انقلاب کی ضرورت ہے ۔ آپکا اشارہ ایران کی طرف تھا کہ وہاں بھی گمشدگیا ں ہوتی تھیں اور وہاں جان ایسے ہی چھوٹی ۔

یا پھر ممکن ہے کہ وہ عدالت کو یہ باور کروانا چاہ رہے ہوں کہ ہمیں اس معاملے کو نہیں چھیڑنا چاہیے ، یہ معاملہ کوئی نیا نہیں اس پر بہت کوششیں ہوچکی ہیں ، سپریم کورٹ میں بھی اس معاملہ پر کارروائی ہوتی رہی ہے مگر کچھ حاصل نہیں ہوا ۔

اٹارنی جنرل صاحب نے ایک اور بہت ہی گہری بات کہی کہ “اپنے خیالات عدالت کو بتاؤں گا ،ریٹائرمنٹ کے بعد کتاب میں نہیں لکھوں گا ” لگتا ہے کہ ان کی سوچ کچھ بدلی بدلی لگ رہی ہے مگر ماضی میں تو جونہی سوچ بدلی اس کے ساتھ ہی سیٹ بدل گئی ۔

لگ یوں رہا ہے تھا جیسے علی احمد کرد کی زبان بولی جا رہی ہو ۔ شائد مجھے یہ گماں اس لئے ہورہا ہے کہ جو بھی آئین اور قانون کی بالا دستی کی بات کرے گا وہ علی احمد کرد اور لالہ لطیف ہی لگے گا کیوں کہ ان کی تقاریر میں جذبات یا انداز اپنی جگہ مگر الفاظ تو نپے تلے اور آئین و قانون کے دائرے کے اندر ہوتے ہیں ۔

اس کارروائی میں کچھ بڑے قانونی اور تاریخی جملے بھی سننے کو ملے
” ماورائے عدالت آپ کسی دہشت گرد کو بھی نہیں مار سکتے۔”
” نیشنل سکیورٹی شہریوں کی حفاظت میں ہے ”
” سابق چیف ایگزیکٹوز لوگوں کے اٹھائے جانے کا فخر سے کتابیں لکھ کر کریڈٹ لیتے ہیں۔”
” آزاد میڈیا ہوتا تو لاپتہ افراد کے خاندان کی تصویریں روز اخبار میں ہوتیں ۔ ”

کتنے دنوں سے گوادر میں انسانوں کا سمندر پر امن طور پر اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر ہے جن میں عورتیں بھی موجود ہیں مگر اس کا کیا اثر ہوا ہے ۔

اور مجھے اس بات پر بھی تعجب ہوا کہ حکومت ابھی تک اس جبری گمشدگی سے بے خبر تھی اور خاص کر جناب کے بارے ۔ بہرحال حکومت کی بے خبری پر کیا کہوں جس کے بارے عوامی رائے تو یہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا اور ٹویٹر پر خوب تکیہ اور دسترس رکھتی ہے ۔

اور اس پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر حکومت ایک صحافی کی جبری گمشدگی سے بے خبر ہے تو یا تو یہاں خبروں تک رسائی میسر نہیں ہے یا خبریں رپورٹ نہیں ہوتیں ۔ اور جہاں انفارمیشن تک رسائی نہیں ہوتی وہاں ڈس انفارمیشن پھیلتی ہے جس کا نتیجہ مایوسیاں اور تذبذب نکلتے ہیں ۔

مگر ہمارے ہاں ایک اور المیہ بھی ہے کہ حکومت سے لے کر عوام تک ہر کسی نے اپنی پسند کے چینلز ، اخبارات اور وی لاگز کی ایک فہرست ترتیب دی ہوئی ہے اور اس سے ہٹ کر وہ دیکھتے ہی کچھ نہیں جس سے انکو اپنی خواہش کے مطابق خبریں اور تجزیے تو مل جاتے ہیں مگر صحیح اور غیر جانبدار خبریں اور تبصروں کا ملنا ممکن نہیں رہتا ۔ اور ایسی معلومات پر غیر جانبدارانہ رائے کا قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور اسی لئے آجکل عوام اور حکومت کے اندر حقائق سے واقفیت کم اور خوش فہمیاں ، غلط فہمیاں زیادہ پائی جاتی ہیں ۔

چیف جسٹس صاحب نے ایک اور بہت ہی دلچسپ بات کہی کہ کیوں نہ ایک ہال آف شیم بنا کر ان تمام چیف ایگزیکٹوز کی تصویریں اس ہال میں لگا دی جائیں جو عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی میں ناکام رہے ۔ تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام ذمہ داروں کی تصویریں بھی ہونی چاہییں ۔ یہ تجویز ایک علامتی عمل ہے جس کا مطلب شرمندگی دلانا ہے اور اگر ایسا کردیا جائے تو میرا خیال ہے کہ شاید ہال بھی کم پڑ چائیں ۔

بہرحال اٹارنی جنرل کے اس اظہار پر کہ مدثر ناڑو کے بچے اور ماں کے بارے سب کچھ جان کر وزیر اعظم صاحب اور مجھے ” بہت شرمندگی ہوئی ” اور انہوں نے عدالت میں مزید یہ اعتراف بھی کیا کہ مدثر ناڑو نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے اس کو غائب کیا جاتا ۔ اس سے میرا حوصلہ بلند ہوا ہے اور دعا ہے کہ اللہ کرے اس کا کوئی نتیجہ بھی اخذ ہو تاکہ یہ سلسلہ  تھم جائے ۔

مدثر ناڑو بارے تو ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو معلوم نہ ہو مگر وہ خود جبری گمشدگیوں کے احتجاجوں میں شریک بھی ہوتے رہے ہیں اور اس پر کمیشن بھی بنے ہوئے ہیں اور منسٹری آف ہومن رائٹس تک موجود ہیں ۔ اور شہری بنیادی حقوق کی پاسداری کے لئے سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں ۔ جب چوبیس کروڑ عوام کا نمائندہ اس معاملے میں بے بس نظر آرہا ہے تو دس لاکھ لوگ کیا کریں گے ۔

جناب اٹارنی جنرل کی اس معصومانہ ادا پر کیا کہوں کہ انہوں نے عدالت سے وقت یہ کہتے ہوئے لیا کہ انہوں نے زندگی میں کبھی اس نوعیت کا مقدمہ نہیں لڑا تو وہ اس پر تیاری کرکے اپنی رائے دینگے ۔ اب ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس معصومانہ ادا کو قائم رکھیں گے اور اپنی رائے کو قانون اور آئین میں دیے گئے حقوق پر کسی مصلحت پسندی  کو حاوی نہیں ہونے دیں گے اور چیف جسٹس صاحب کو کسی تاریخی فیصلہ پر پہنچنے میں پوری پوری معاونت فرمائیں گے ۔

اور دعا ہے کہ اللہ کرے جناب چیف جسٹس صاحب اور اٹارنی جنرل مل کر ایسے انقلابوں کا راستہ بند کرلیں جس سے انسانی المیوں کا خطرہ ہو ۔ اس طرح کے انقلاب وہاں آتے ہیں جہاں ریاست اور ریاست کے ادا رے امن قائم کرنے میں ناکام ہوچکے ہوں ۔ ایسی نوعیت نہ ہی آئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا ، اٹارنی جنرل صاحب کچھ نہ کہتے کہتے بھی بہت کچھ کہہ گئے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply