جج ارشد ملک کون ہیں۔۔۔۔فیصل عرفان

”تذکرہ پوٹھوہار“کے مؤلف و مترجم محمد ارتاسب کتاب کے صفحہ نمبر 352پر گاؤں آرجن(موجودہ ارجن)کی وجہ تسمیہ بارے لکھتے ہیں کہ”پہلے اس جگہ کھتری گوت سہوترہ آباد تھے،مسمی آرجن ولد بجنیار، سارنگ خان کے عہد میں آکر آباد ہوئے،بعد ازاں مسمی شیخا قوم دودال نے سکونت اختیار کی۔

”ارجن“تحصیل گوجر خان میں قصبہ مندرہ کا جڑواں گاؤں ہے جو راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر دائیں طرف واقع ہے،ویڈیو سکینڈل کے مرکزی کردار احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کا آبائی تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے،وڈیو اسکینڈل کی وجہ سے ہٹائے گئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو 14ستمبر2019 آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنا دیا گیا۔ سابق جج کو او ایس ڈی بنائے جانے کا نوٹیفکیشن رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے حکم سے جاری کیا۔

یاد رہے کہ 26 اگست کو لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے ویڈیو اسکینڈل پر جج ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کرنے کے لیے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی، فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔

وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے 20 اگست کو محفوظ کیا تھا جسے چیف جسٹس نے 23 اگست کو سنایا۔فیصلے میں کہا گیا کہ”یہ مرحلہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات میں مداخلت کرے، بالخصوص متعلقہ ویڈیو کا تعلق اسلام آباد میں زیر التوا اپیل سے ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو لیکس کے معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش شروع کر دی ہے، معاملے کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن کے قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں جو ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت احتساب عدالت نمبر 2 میں تعینات ہوئے۔ عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے، ارشد ملک کو اب تک لاہور ہائی کورٹ نہیں بھجوایا گیا ہے اس لیے محکمانہ کارروائی کا ابھی آغاز نہیں ہوا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے۔

“جج ارشد ملک25مئی 1962ء کو ارجن میں ہی پاکستان ریلوے کے ملازم ملک غلام محمد کے گھر پیدا ہوئے،دو بہنوں سمیت آپ کُل 7بہن بھائی ہیں،ایک بہن اور ایک بھائی فوت ہوچکے،سب سے بڑے بھائی ملک محمد بشارت پاکستان ریلوے سے ریٹائر،محمد عرفان ملک راولپنڈی کچہری میں بطور منشی کام کرتے ہیں،محمد سلیم ملک مرحوم تیسرے نمبر پر اورراولپنڈی کچہری میں بطور ریڈر ملازمت کرتے تھے،چند سال قبل راولپنڈی کچہری کے پاس ہی روڈ کراس کرتے ہوئے کار کی ٹکر سے چل بسے،محمد سلیم ملک مرحوم کا ایک فرزندہمایوں سلیم بھی حال ہی میں ایل ایل بی کر کے شعبہ وکالت سے وابستہ ہوا اور گوجر خان کچہری میں پریکٹس کر رہاہے،ارشد ملک چوتھے نمبر پر آتے ہیں،پانچویں نمبر پر امجد ملک ایڈوکیٹ ہیں،یہ گوجر خان کچہری میں وکالت کرتے اور گوجر خان بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں،اس خاندان کوشعبہ وکالت اور کورٹ کچہری کی طرف راغب کرنے کا اصل محرک بابو عبدالرحمن مرحوم تھے، بابوعبدالرحمن کا آبائی علاقہ بھی ارجن تھا اور یہ ارشد ملک کے پھوپھا اور اس خاندان کے انتہائی معتبر شخص تھے،بابو عبدالرحمن اسلام آباد کچہری میں ملازمت کرتے تھے اور انہی کی کاوشوں اور تحریک پیدا کرنے پر ارشد ملک کے بڑے بھائی عرفان ملک نے راولپنڈی کچہری میں بطور منشی کا م کا آغاز کیا،بعد ازاں عرفان ملک نے ہی اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی”وکالت اور عدالت“ کے میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا،جج ارشد ملک نے 1978ء میں گورنمنٹ ہائی سکول مندرہ سے میٹرک کیا، گورنمنٹ سرور شہید(نشان حیدر) ڈگری کالج گوجر خان سے ایف اے اور بی اے بالترتیب 1980ء میں اور 1983ء میں کیا،معروف وکیل اوراردو زبان کے شاعر عابد معروف مغل ایڈوکیٹ روایت کرتے ہیں کہ ارشد ملک کالج میں ہم سے ایک جماعت سینئر تھے اورانکا شمار ذہین طلباء میں ہوتا تھا،بی اے کرنے کے بعد ارشد ملک نے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لیا اور 1986ء میں ایل ایل بی(لاء آنرز) کرنے کے بعد سابق جج لاہور ہائیکورٹ اور سابق ایم این اے راجہ عبدالعزیز بھٹی مرحوم کی شاگردی میں آگئے اور ان سے وکالت کے اسرار و رموز سیکھتے رہے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں ضمناََ عرض کرتا چلوں کہ راجہ عبدالعزیز بھٹی مرحوم کا تعلق بھی یو نین کونسل مندرہ کی نواحی یونین کونسل گھنگریلہ کے گاؤں چہاری سے تھا۔اسی طرح عدلیہ کی ایک اور معتبر اور نیک نام شخصیت سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افضل ظلہ کا آبائی تعلق بھی یونین کونسل مندرہ کے ایک گاؤں بجنیال سے تھا۔تقریباََ14سال گوجر خان اور راولپنڈی کچہری میں پریکٹس کرنے کے بعد ارشد ملک 2000ء میں ایڈیشنل سیشن جج ملتان تعینات ہوئے،بعد ازاں خوشاب،چنیوٹ میں بھی اپنی خدمات بطور ایڈیشنل سیشن جج سر انجام دیتے رہے،پھر جج بینکنگ کورٹ گوجرانوالہ بنا دیئے گئے،وہاں سے چیئرمین ڈرگ کورٹ راولپنڈی تعینات ہوئے،سیشن جج بننے کے بعد انکی پہلی تعینات چنیوت ہوئی پھر وہاں سے اوکاڑہ ٹرانسفر ہوئی،آخری تعیناتی بطور جج احتساب عدالت نمبر2اسلام آباد میں ہوئی تھی،ارشد ملک کاایک بیٹا عمار ارشد فاسٹ یونیورسٹی سے بی بی اے کرنے کے بعد آجکل آسٹریلیا میں ملازمت کر رہا ہے،دوسرا بیٹا سروش ارشد روس کی ایک یونیورسٹی سے ایل ایل بی کر رہا ہے، ارشد ملک کی دو صاحبزادیاں ہیں اور دونوں ہی ڈاکٹر ہیں، ایک صاحبزادی پنڈ بھینسو کلر سیداں میں قومی ترانہ فاؤنڈیشن کے چیئرمین اور سابق ڈائریکٹر ایجوکیشن ڈاکٹر عزیز احمد ہاشمی کی صاحبزادے ارشد عزیز ہاشمی کیساتھ بیاہی ہوئی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply