شخص (4)۔۔وہاراامباکر

میرا خیال ہے کہ جب آپ کسی کو دیکھتے ہیں تو پتا لگ جاتا ہے کہ وہ ایک شخص ہے۔ مثلاً، کیا میں ایک شخص ہوں؟ لیکن کیا میں ہمیشہ سے شخص رہا ہوں؟ کیا الطاف حسین حالی ایک شخص تھے؟ نصرت فتح علی خان؟ لیکن کیا وہ ابھی بھی شخص ہیں؟ اور چھ ماہ کا بچہ؟ اور وہ جو ابھی پیدا نہیں ہوا اور ماں کے پیٹ میں ہے؟ عمرو عیار؟ مولا جٹ؟ یا انسان نما روبوٹ صوفیہ جس کو سعودی عرب نے شہریت بھی دی؟
شخص ایک ٹیکنیکل اصطلاح ہے۔ اور اس کا مطلب انسان نہیں، یہ اصطلاح الگ ہے۔ انسان ایک بائیولوجیکل اصطلاح ہے۔ اگر آپ میں انسانی ڈی این اے ہے تو آپ انسان ہیں۔ یہ بس اتنا ہی ہے۔ (سائنس میں ہم آسان اور سادہ معاملات تک محدود رہتے ہیں)۔
لیکن شخص ایک اخلاقی اصطلاح ہے۔ ایسے وجود، جو ہماری اخلاقی کمیونیٹی کا حصہ ہیں۔ اور جنہیں ہم اخلاقی پہلو سے توجہ دیتے ہیں۔ یہ مفید فرق ہے لیکن چیزوں کو پیچیدہ کر دیتا ہے۔ کیونکہ کئی غیرانسان بھی ہو سکتے ہیں جو اخلاقی توجہ کے مستحق ہوں۔ اور کچھ انسان جو اس کے مستحق نہ رہیں۔ لیکن اس کی تفریق کرنا ذرا مشکل کام ہے۔
“شخص کیا ہے؟” ہر بڑی سوشل بحث کے مرکز میں اس بارے میں اختلاف ملیں گے۔ اسقاطِ حمل، سزائے موت، رحمانہ موت (یوتھینیزیا)، جانوروں کے حقوق ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ۔۔۔
اگر آپ کی دلچسپی انسانی حقوق سے ہے یا مصنوعی ذہانت سے، سائنس سے یا سوشیولوجی سے تو پھر اس سوال سے آگاہی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا سپرمین کو ایک شخص کہا جائے گا؟ اس کی بات چیت اور عادات و اطوار بتاتے ہیں کہ وہ ایک شخص ہے۔ سپرمین انسان تو یقیناً نہیں، وہ کرپٹونین ہے۔ اس میں انسانی ڈی این اے نہیں۔ سورج اور کرپٹون کا اثر اس سے مختلف ہے جو انسانوں میں ہوتا ہے۔ اسے انسان کہنا درست نہیں ہو گا۔ لیکن زیادہ تر لوگ اسے شخص کہیں گے۔ اس کا دوسرے سیارے سے آنا اور انسان نہ ہونا اس کے شخص نہ ہونے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ہم اس کے بارے میں اسی اخلاقی رویے کی توقع رکھتے ہیں جو کسی بھی اور شخص سے۔ اسی طرح جس طرح کسی کی جلد کا رنگ انسانوں میں اخلاقی فرق نہیں ڈالتا۔ اور ہم اسے اس سیریز کے ولن سے زیادہ شخص سمجھتے ہیں کیونکہ لیوتھر کا ایندھن نفرت اور تعصب ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اخلاقی توجہ کا اتنا مستحق نہیں۔
اگر ایسا ہے تو پھر انسان ہونا شخص ہونے کو ڈیفائن نہیں کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلموں میں ایلین یا مصنوعی ذہین روبوٹ شخص کہلائے جانے کے امیدوار ہیں لیکن کئی لوگ غیرانسانی جانوروں کو بھی شخص کا درجہ دینا چاہیں گے۔ ایک مثال کوکو کی ہے۔ گوریلا جو اشاروں کی زبان سیکھ گیا تھا اور ایک ہزار اشاروں سے اپنا مافی الضمیر بیان کرتا تھا۔ آئی کیو ٹیسٹ میں اچھا سکور لیا تھا۔ بلیاں پالی تھیں۔ چھیالیس سال انسانوں کے ساتھ تعلق رہا تھا۔
کیا اس کا برعکس ہو سکتا ہے۔ یعنی کوئی انسان تو ہے لیکن شخص نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمل سے قبل بچہ واضح طور پر انسان ہے۔ انسانی ڈی این اے ہے لیکن ابھی شخص نہیں۔ اور اگر کوئی ایسی حالت میں چلا گیا ہے جو مستقل کوما کی vegetative سٹیٹ ہے؟ یا پھر دماغ میں ناقابلِ مرمت اور مکمل ضرر پہنچا ہے؟
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ایک انسان اپنا شخص ہونے کے حق سے اس وقت دستبردار ہو جاتا ہے جب اس نے ایسی حرکت کی ہو جو غیرانسانی ہو۔ جیسا کہ ریپ کرنا یا قتل کرنا۔
اس پر اتفاق نہیں کہ شخص ہونا کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں پر ختم۔ اور اس وجہ سے اسقاطِ حمل، سزائے موت جیسے سوشل معاملات میں اتفاق نہیں ہوتا۔ (اس پوسٹ پر کمنٹ کرنے والوں میں بھی ایسے کسی اتفاق کی کوئی امید نہیں)۔
کسی کے پاس ایسا کیا ہونا چاہیے کہ وہ اخلاقی کمیونیٹی کا حصہ بنے اور اخلاقی توجہ کا مستحق رہے؟ اس بارے میں قانون کے سکالر جان نونان ایک رائے دیتے ہیں، جسے وہ جینیاتی پیمائش کا نام دیتے ہیں۔ اس نکتہ نظر کے مطابق، اگر آپ میں انسانی ڈی این اے ہے تو آپ شخص ہیں، ورنہ نہیں۔ اس نکتہ نظر کا فائدہ یہ ہے کہ یہ سادہ ہے لیکن اس خیال کے نتائج اتنے زیادہ مسائل والے ہیں کہ اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
مثلاً، اگر ڈی این اے کو ہی معیار لیا جائے تو میری منہ کے خلیے بھی شخص ہیں اور لاشیں بھی۔
میری این وارن پانچ خاص معیار بناتی ہیں جن کے ذریعے اس کو ڈیفائن کیا جا سکے۔
۱۔ شعور
۲۔ عقل
۳۔ خود سے ایکٹیویٹی
۴۔ رابطے کی صلاحیت
۵۔ خود آگاہی
ان پانچ عوامل کو شخص ہونے کی کوگنیٹو پیمائش کہا جاتا ہے۔ وارن کے خیال میں کئی انسان ابھی شخص نہیں بنے اور کئی انسان اب شخص نہیں رہے، خواہ ان میں انسانی ڈی این اے ہو۔ وارن کے معیار کے حساب سے قبل از حمل بچہ شخص نہیں۔ لیکن چھوٹے بچے بھی نہیں۔ بچے ڈیڑھ سال سے پہلے خود آگاہی حاصل نہیں کرتے۔
جہاں پر نونان کا معیار واضح طور پر غیرانسانوں کو شخص کی تعریف میں لے آتا ہے (جیسے میری تھوک کے خلیات کو)، ویسے وارن کا معیار شخص کے معیار والے کلب سے ایسوں کو نکال دیتا ہے جو ہمارے نزدیک واضح طور پر شخص ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور تعریف سوشل میعار سے کی جاتی ہے۔ اس کے مطابق آپ اس وقت شخص ہے جب سوسائٹی اسے شخص کے طور پر تسلیم کرتی ہے یا پھر جب کوئی آپ کی پرواہ کرتا ہے۔
یہ بدیہی طور پر آسان تعریف لگتی ہے۔ اس کے مطابق اگر آپ کی اس وقت تک اہمیت ہے جب تک کسی کے لئے آپ کی اخلاقی لحاظ سے اہمیت ہے۔ (اس خیال کے مطابق علامہ اقبال یا الطاف حسین حالی شخص ہیں کیونکہ بہت سے لوگوں کے لئے ان کی اہمیت ہے لیکن ان کی نسل کے بہت سے دوسرے اب شخص نہیں رہے)۔ یہ نکتہ نظر اس کی اجازت دیتا ہے کہ معاشرے کی شخص کے بارے میں سمجھ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی جائے۔
مثلاً، اگر ہم پرائمیٹ کی حفاظت کے لئے ان کو بطور شخص حقوق دینا چاہیں تو یہ معاشرتی تعریف میں آ جائیں گے۔ لیکن اس پر اگر توجہ سے غور کیا جائے تو اسکا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی خاص انسان کی کوئی پرواہ نہ کرے تو وہ اب شخص نہیں رہا؟ اس کا مطلب یہ کہ مکمل طور پر ریشنل، صحت مند اور کام کرنے والے بالغ انسان کے شخص ہونے کا انکار کیا جا سکتا ہے چونکہ کوئی اس کی پرواہ نہیں کرتا۔
اس کا مطلب یہ کہ اخلاقی کمیونیٹی میں شمولیت ایک مقبولیت کا مقابلہ ہے۔ (اور کئی جگہ پر نسلی یا گروہی اقلیتوں کے لئے یہ اصل اور بڑا مسئلہ ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور رائے پیٹر سنگر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شخص ہونے کا کلیدی فیکٹر کسی کے تکلیف یا خوشی محسوس کرنے کی صلاحیت کی ہے۔ سنگر کا یہ معیار انسان ہونے کو نظرانداز کر کے اس تعریف کو محسوسات پر لے جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “کسی بھی ایسے وجود کو بلاوجہ تکلیف دینا غلط ہے جو اس تکلیف کو محسوس کر سکے۔ اگر وہ اس کو محسوس نہ کر سکے تو پھر اسے اس گروپ سے نکالنے میں حرج نہیں”۔ اس معیار کے مطابق تئیس ہفتے سے کم عمر جنین یا مستقل ویجیٹیٹو حالت میں انسان کو شخص کی کیٹگری سے نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن ان جانوروں کو نہیں جن کا ڈویلپڈ مرکزی اعصابی نظام ہے۔
ایک اور رائے یہ ہے کہ شخص ہونا ایک حق ہے۔ یہ حق اخلاقی کمیونیٹی کا حصہ بناتا ہے۔ آپ اس ٹکٹ کو اس وقت کھو دیتے ہیں جب آپ معاشرے کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کریں۔ مثلاً، لوگوں کو قتل کرنا غلط ہے اور قاتل نے شخص ہونے کا حق اس وقت کھو دیا ہے جب اس نے یہ فعل سرانجام دیا۔ اور یہ وجہ ہے کہ ریاست کے ممبران کو یہ حق مل گیا ہے کہ وہ اس کی جان لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک ہم شخص ہونے کی بات اس طریقے سے کر رہے تھے گویا کہ یہ آن یا آف کا سوئچ ہے۔ یا تو یہ ہے یا نہیں۔ لیکن اس کو زیادہ گہرائی میں دیکھا جا سکتا ہے جو ایک تسلسل میں ہے۔ یہ شخص ہونے کی گریڈئنٹ تھیوری ہے۔ کوئی زیادہ درجے میں ہو سکتا ہے جبکہ دوسرا کم درجے میں۔
حمل کے دوران بچہ شخص ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چھبیس ہفتے کے جین کے مقابلے میں چونتیس ہفتے کا جین زیادہ شخص ہے۔ اور نوزائیدہ بچہ اس سے زیادہ اور دو سال کا بچہ اس سے زیادہ۔ اور اسی طرح یہ بتدریج کم بھی ہو سکتا ہے۔
بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک معقول طریقہ ہے۔ مثلاً، زیادہ ڈویلپ ہو جانے والا جنین زیادہ اخلاقی توجہ کا مستحق ہے۔ لیکن جب اس کا مقابلہ اس کی ماں سے کیا جائے گا جو شخص ہونے کے بارے میں بہت آگے ہے تو اس منطق کے مطابق اس کے انٹرسٹ کو زیادہ وزن ملے گا۔ یہ نکتہ نظر دونوں کی شخصیت کا انکار نہیں کرتا لیکن کچھ معاملات میں اس بارے میں زیادہ وزن دینے کی اجازت دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ موضوعات ایسے نہیں جن پر بات کرنا آسان ہے لیکن ہم اسی لئے اس پر بات کرتے ہیں کیونکہ یہ ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ جب ہم اخلاقیات پڑھتے ہیں تو یہ اس کے بنیادی ایشو ہیں۔ شخص کی تعریف اخلاقیات کا ایک بنیادی سوال ہے۔ اور جب آپ اس کے بارے میں فیکٹرز کو سوچیں گے، ان کی اہمیت کا تعین کریں گے تو پھر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس کا جال کہاں تک پہنچتا ہے اور کس چیز کو کیسے متاثر کرتا ہے۔ کون اس جال میں آتا ہے اور کون باہر رہ جاتا ہے۔ یہ اس سے زیادہ مشکل سوالات ہیں جتنا آپ کا اس بارے میں خیال ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply