حصول انصاف میں تاخیر۔۔چوہدری عامر عباس.

ویسے تو پاکستان کے نظام ِ انصاف بارے تنقید بچپن سے سنتے آ رہے ہیں لیکن جب بھی کوئی دل دہلا دینے والا جرم وقوع پذیر ہوتا ہے، تو اس تنقید میں شدت آ جاتی ہے۔ چند دن تک مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہا ہا کار مچتی ہے، ہر طرف سے دہائیاں دی جاتی ہیں، آوازیں اٹھتی ہیں اور گزرتے وقت کیساتھ یہ آوازیں معدوم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر اگلے واقعہ تک مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔

آج ہم چند وکلاء دوست کچہری بار روم میں بیٹھے یہی بات کر رہے تھے کہ غریب کے لئے انصاف کا حصول دیوانے کا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک حاضر سروس جج بھی وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے یہی کہہ رہے تھے  کہ ہمارے نظامِ  انصاف میں بہت سقم ہیں جس میں ججز اور وکلاء برابر کے شریک ہیں۔
غریب آدمی پس کر رہ جاتا ہے۔ مقدمات سال ہا سال چلتے رہتے ہیں۔ ایک ایک جج کے پاس روزانہ سو سے زائد کیسز ہوتے ہیں۔ اب بھلا ایک جج کیلئے روزانہ کی بنیاد پر اتنے کیسز سننا کیسے ممکن ہے۔

انصاف میں تاخیر کو انصاف سے انکار سمجھا جاتا ہے۔ بالخصوص سول مقدمات میں التواء سے بہت سے فوجداری مقدمات جنم لیتے ہیں۔ معمولی جرائم میں قید بعض ملزم کئی سال بعد “باعزت بری” ہوتے ہیں۔ پاکستان کے نظام انصاف کی اصلاح کی ازحد ضرورت ہے۔ اس میں ججز کی تعداد کو بڑھایا جانا بہت ضروری ہے۔ ماڈل کورٹس کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں تو ہر کورٹ کو ماڈل کورٹ قراد دے دیا جائے۔

نظام انصاف کا سب سے اہم حصہ ہم وکلاء حضرات ہیں۔ وکلاء کو بھی اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے۔ بلاوجہ ہڑتال اور آگے تاریخ لینا انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہمیں پروفیشنلزم کو فروغ دینا ہو گا۔

ہمارے پولیس انویسٹی گیشن سسٹم پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ اب وقت بدل گیا ہے، انویسٹی گیشن کیلئے دنیا بھر میں آئے روز نت نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ بہت تیزی سے جدت آ رہی ہے لیکن ہمارے ہاں انویسٹی گیشن کے وہی فرسودہ طریقے آج بھی زیرِ عمل ہیں۔ ہمیں پولیس انویسٹی گیشن سسٹم کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کیلئے نئے قوانین تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم ملکی قوانین کی بات کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ ہمارے بہت سے بنیادی سول اور فوجداری ضابطہ جاتی قوانین ڈیڑھ سو سال پرانے ہیں جن میں بار بار ترامیم کی شکل میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ اب یہ قوانین بہت پرانے ہو چکے ہیں لہٰذا ان کا بھی ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری رائے کے مطابق مجموعہ تعزیرات پاکستان، قانون شہادت آرڈیننس، مجموعہ ضابطہ فوجداری میں ازسرنو اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ کریمنل ٹرائل کو آسان بناتے ہوئے اسکی رفتار تیز کرنے کیساتھ ساتھ انکو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ اسی طرح مجموعہ ضابطہ دیوانی کا بھی ازسر نو جائزہ لے کر   اسے جدید ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی ازحد ضرورت ہے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply